• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے کہ طالبان کے پاس مہینوں اور سال تک ریکی کیساتھ ’’پلان بی‘‘ بھی موجود تھا کہ حکومت کیساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں وہ اس ملک کا مزید کیا حشر نشر کرینگے لیکن حکومت تھی کہ ان سے پہلے دن سے ہی مذاکرات مذاکرات کھیل رہی تھی۔ لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے منانے کے ترلوں میں مصروف تھی۔ ساڈی کرسی دی خیر تے باقی کل ملک دی خیر۔وہ جن جو ملک کے مہربانوں نے پال پوس کر بنایا تھا وہ کب کا نہ محض بوتل سے باہر نکل کر اب مہربانوں اور قومی اثاثوں کو کھانے لگا ہے بلکہ اب یہ شمالی اور قبائلی یا سیٹلڈ علاقوں سے نکل کر کب کے اربن گوریلا وارفیئر شروع کرچکے ہیں جسکا مرکز اب پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی شہ رگ جس کے نرخرے پر پہلے ہی بھائی لوگوں سمیت نہ جانے کیسی مافیائوں اور گروہوں نے اپنی کلاشنکوفیں رکھی ہوئی ہیں کو میدان جنگ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خون تھیٹر کراچی ہے۔ وہ ملک کے سب سے بڑے اور بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اگلے روز اس طرح حملہ کرنے آئے جس طرح وہ کابل ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا کرتے ہیں بلکہ ایسا تھا جیسے انیس سو ساٹھ اور ستّر کی دہائيوں میں عرب فدائین اور لاطینی امریکی گوریلے یا جاپان کی ریڈ آرمی، اٹلی کے ریڈ بریگیڈ والے، فلسطینی بلیک ستمبر، جرمنی کے بدر مینہاف گروپ آدھی سے زیادہ دنیا کے بین الاقوامی ایئرپورٹوں اور کھیلوں کے اسٹیڈیم پر دہشت گردی کے خونی میچ کھیلا کرتے تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے سے بھی کئی سال قبل اب یہ تھیٹر بائيں سے دائيں منتقل ہواہے۔ اب سارا عذاب مسلم دنیا کے مسلمان ملکوں اور قوموں پر اترا ہوا ہے یا اتارا گیا ہے جس سے نہ ان کے میزمان ممالک محفوظ ہیں اور نہ ہی دنیا کا امن اور سلامتی۔ کراچی ائيرپورٹ پر گزشتہ خونی اتوار کو جو کچھ ہوا وہ آپ میڈیا سرکس کے اسکرینوں پر دیکھ چکے ہیں ، سن چکے ہیں، جو غالباً آپ نے نہیں سنا ہوگا وہ کارگو چاہے مسافر طیاروں (ملکی چاہے غیر ملکی) کا نقصان ہے جو لگتا ہے دہشت گردوں کا اصل ہدف تھے۔
پاکستان سول ایوی ایشن کے اندرونی ذرائع کے مطابق اتوار کے دہشت گرد حملے میں ایئر انڈس کے دونوں طیاروں کو گولیاں لگيں، پی آئی آے کے دو طیارے جن میں ائیر بس تین سو دس اور ایک سیون فور سیون بوئنگ بھی شامل تھا کو نقصان پہنچا اب یہ طیارے گرائونڈ کر دیئے ہیں اور زیر مرمت ہیں۔ ان طیاروں کی باڈی میں گولیاں پیوست ہوئی ہيں۔ ذرائع کے مطابق حملے کے وقوعہ پر مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر کی کمپنی کے طیارے بھی کھڑے تھے لیکن یہ اتفاق تھا کہ ان کو نقصان نہیں پہنچا اور وہ محفوظ رہے۔ مال بردار یا کارگو ہینڈلنگ کمپنی گیریز ڈیناٹا کی کمپلیکس عمارت پر حملہ ہوا ہے جس میں آگ لگنے سے مکمل تباہ ہو گئی۔ اس کارگو کمپنی سے نیٹو کو رسد کا سامان جاتا تھا۔ پی آئی اے کے طیارے بھی نیٹو کی مال برداری کیلئے استعمال ہوتے تھے لیکن آج کل نیٹو کی رسد نہیں جا رہی تھی۔ گیریز ڈیناٹا کے کارگو کمپلیکس میں ڈیناٹا کے مال بردار طیارے میں ’’ڈی ار آے‘‘ یا’’ خطرناک سامان‘‘ موجود تھا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا پرائمری ہدف کارگو طیارے تھے لیکن ان طیاروں کی نقل و حرکت، تفاصیل اور آمد و رفت سمیت دہشت گردوں کو کس طرح ہاتھ لگی۔ ظاہر ہے کہ مہران بیس کی طرح یہاں بھی کتّی چوروں سے ملی ہوئی تھی یعنی گھر کے بھیدی شب خون مارنے والے کیساتھ ہی تھے۔ ریاستی دعووں کے برعکس یہاں نقصان بہت بڑا تھا۔ جانی و مالی دونوں نقصانات بڑے تھے۔ عالمی سطح پر اس دہشت گردی کے سین پارٹ انیس سو انہتر میں بلیک ستمبر کی طرف سے تل ابیب ایئرپورٹ پر اے ون ای ون پر حملہ جس میں کئی بیگناہ مسافر قتل ہوگئے تھے اور انیس سو بہتر میں جرمنی کے میونخ میں ہونے والے عالمی اولمپک کھیلوں کے موقع پر کئے جانے والے حملوں سے ملتے جلتے تھے۔ دہشت گردی بائيں بازو کی ہو یا دائيں کی مذہبی شدت پسندی یا سیکولر ریڈیکلز دونوں کا مقصد بندوق کے بل بوتے پر نہتی سویلین آبادی کو یرغمال بناکر خوف و دہشت پیدا کرنا اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہاں تو میڈیا کے کئی بھائی لوگ اس طرح رننگ کمنٹری کر رہے تھے جس طرح یہ کوئی دہشت گردی نہ ہو بلکہ ٹیسٹ سیریز ہو،جسے دو نمبر سگریٹ بیچنے کا مقابلہ ہو۔ ابھی کراچی ائیرپورٹ پر خون و آگ کا کھیل جاری ہی تھا کہ بھائی لوگوں کو معلوم ہو ہی چکا تھا کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔ ان کااسلحہ غیر ملکی ساخت کا اور بھارتی ساخت کا تھا۔ بس صرف ان کے ختنے ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق باقی رہ گئی۔ مجھے لگا سول اور فوجی تعلقات والی دراڑ یہاں بھی موجود تھی یعنی بظاہر آزاد میڈیا حقیقت میں سیکورٹی اداروں کے ترجمانوں اور جاسوسوں کی ڈوروں سے بندھی تھی جو بتا رہے تھے کہ یہ سب غیر ملکی سازش تھی۔ جیسے روایتی طور پر پولیس والے کسی سنگین واردات ان کی حدوں میں ہو جانے پر یہ واردات تھانوں کی حدود یا جیورسڈکشن کے تنازعے میں قریبی تھانے کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ جس طرح سندھ کے وزیراعلیٰ نے یہ سارا معاملہ وفاق کا سردرد بتا دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس عمر او رات کے پہر بھی شاہ صاحب ائیرپورٹ پر خون و آگ کی دہشت گردی مانیٹر کرنے کو پہنچے تھے۔ مجھے شاہ صاحب کے ہی ہم شہر لیکن سندھی زبان کے عظیم افسانہ نگار نسیم کھرل کا شاہکار افسانہ ’’چـونتیسواں دروازہ ‘‘ یاد آیا۔ جس میں کس طرح سکھر بیراج کے دروازوں میں سے ایک کے نیچے صبح پھنسی ہوئی لاش کو اہل کار سارے دن کی متھا ماری کے بعد اسے چپ چاپ سکھر بیراج کے چونتسیویں دروازے کی طرف بہا دیتا ہے کہ یہ دروازہ اب دوسرے تھانے کی حد تھی- اسی طرح بھائی لوگوں نے کراچی ائیرپورٹ کی دہشت گردی بھی غیر ملکی کھاتے میں ڈال دی یعنی غیر ملکی ہاتھ صاف نظر آ گیا۔ اگرچہ پولیس اور رینجرز یا دیگر سیکورٹی ادارے دہشت گردوں سے اس شب بڑی بے جگری سے لڑے، اپنی جانیں نچھاور کیں۔ وہ بڑی تعداد میں سویلین کا جانی نقصان جس میں کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے والے سات افراد اور جواں سال فلائٹ انجینئر، فخرل ایچ خان جو ہماری دوست اور نیویارک کی معروف خاتون سماجی رہنما اور مختار مائی کے میزبان بازہ روحی کا دیور تھا کی ہلاکتیں عظیم المیے ہیں۔ غیر ملکی ہاتھ والا افسانہ بہت ہی پرانا ہے اتنا شاید جتنا پاکستان اور جتنی کراچی ائیرپورٹ کی خونی تاریخ۔ غلام محمد سے لے کر اب نواز شریف تک۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف سے لے کر پچھلے عہد میں غلام محمد تک کے پاس ایک ہی قسم کی رزمیہ خطابت سے بھرپور تقریر یا بیانیہ ہے جسے اپنے اپنے دور میں محض ری سائیکلڈ کیا جاتا رہا ہے۔ متن ایک ہی ہے۔ غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ جس طرح سید قائم علی شاہ نے کہا ’’کراچی والے بڑے بہادر ہیں‘‘۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر جن کی جمہوری ملکوں میں کوئی ضرورت نہیں ہوتی (سوائے پاکستان کہ) الطاف گوہر سے لیکر شرجیل میمن تک (اسکرپٹ کی ری رسائیکلنگ کیساتھ) وہی ایک متن ہے۔ ہر بھٹو کے زوال کے پیچھے ایک کوثر نیازی ہوتا ہے یعنی لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر بے نظیر بھٹو تک سب کے قتل کے پیچھے ’’غیر ملکی‘‘ ہاتھ کار فرما تھا تو ائیرپورٹ پر بھی غیر ملکی ہاتھ تھا۔غیر ملکی ہاتھ کا تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن عالمی سطح پر ایک دفعہ پھر ہم بدنام ہو گئے یعنی پاک سرزمین کا نظام کشور حسین شاد باد بن چکا۔
تیئس زائرین کی تفتان میں ہونے والی دہشت گردی کو کوریج کیلئے میڈیا کے پاس ٹائم نہیں تھا پھر وہی مقتولین کی میتوں کا دفن کرنے سے انکار، دھرنے، احتجاج۔ قبروں کی قطاریں۔ لبیک یاحسین کی صدائيں۔ یہ خون خاک نشینان تھا، رزق خاک ہوا۔ اگلی نسل کشی تک قاتلوں کو پھر اجازت۔ یہاں صرف حامد میر اور بلوچوں کی نہیں ہزاروں کی بھی حب الوطنی مشکوک ہے۔ عالمی طور پر یہ پہلی بار ہی تھا کہ پاکستان اس طرح بدنام ہوا ہے لیکن ہوابازی کی صنعت میں اب شاید غیر ملکی ہوائی مسافر و کارگو کمپنیاں شاذ ونادر اپنے جہاز پاک سرزمین کے ہوئی اڈوں پر لینڈ کریں۔ اب تو پرندوں کے بھی اترنے کو یہ دھرتی سیف لینڈنگ والی نہیں رہی۔
تازہ ترین