• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی بجٹ سے ملک کا ہر صوبہ، ہر طبقہ، ہر ادارہ اور ہر فرد براہ راست یا بلاواسطہ متاثر ہوتا ہے۔ اچھے سے اچھا بجٹ بھی سب کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ بجٹ کو قابو میں رکھنے کیلئے آمدنی اور اخراجات میں شماریاتی توازن نہیں بلکہ حقیقی توازن ہونا چاہئے مگر بالعموم خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، اخراجات کو پورا کرنے کیلئے قرض لینا پڑتا ہے، قرض کی اصل رقم اور سود کی ادائیگی سے آمدنی اور گھٹ جاتی ہے اور اس طرح ملک ایک دلدلی چکر میں پھنس جاتا ہے، جتنا اس سے نکلنے کیلئے ہاتھ پیر مارتا ہے اتنا ہی اور نیچے چلا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور روایت ہے کہ بجٹ کے بعد منی بجٹوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے مگر اس مرتبہ معاملہ الٹ گیا بجٹ سے ایک ہفتہ قبل نیپرا نے کراچی الیکٹرک سپلائی کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام سے نومبر، دسمبر 2013ء اور جنوری تا مارچ 2014ء پانچ ماہ کیلئے 1.39 روپیہ فی یونٹ کے حساب سے رقم وصول کرنے کی اجازت دے دی، ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ کس ماہ کے بل میں اس رقم کو شامل کیا جائے گا۔ مزید برآں نومبر سے مارچ تک ٹیرف میں تبدیلی کی درخواست ابھی نیپرا کے زیر غور ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ملک میں بجلی تقسیم کرنے والی کراچی الیکٹرک سمیت 11 کمپنیاں ہیں ہر ایک کے اپنے نرخ ہیں، سب سے کم نرخ پر حکومت سبسڈی دیتی ہے اس لئے صارف کو یہ فرق ادا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کو صرف فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ادا کرنا ہوتے ہیں، ٹیرف کو یکساں بنانے کیلئے ٹیرف کی شرحوں میں تبدیلی ضروری ہے، یہ بھی واضح کردیا گیا کہ 1.39 روپے کے چارجز صرف ایک مرتبہ ادا کرنا ہوں گے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ جو لوگ کوئلے سے سستی توانائی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان کو یہ خوشخبری مبارک ہو کہ ماہرین ماحولیات کے ایک حالیہ سیمینار میں متفقہ طور پر یہ انکشاف کیا گیا کہ کوئلے سے حاصل ہونے والی توانائی بحری مواصلات کو تباہ کردے گی۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ بھی کہا کہ بجٹ کی آڑ میں قیمتوں کو بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ 4 جون سے ان کو اضافے کی اجازت ہوگی کیونکہ بجٹ کی منظوری سے پہلے اس کی مجوزہ سفارشات پر عمل غیر قانونی ہے۔ اضافہ نہ کرنے والے نہ تو اجازت کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور نہ وہ 4 جون کا انتظار کریں گے انہوں نے پہلے ہی اشیائے صرف جیسے گھی، آٹا، دودھ (خصوصاً پائوڈر والا)، گوشت، پیاز، آلو ٹماٹر وغیرہ کی قیمتیں بڑھادیں۔ اب کس میں دم خم ہے کہ ان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کردے۔
اس سال خود حکومت نے بجٹ کا روایتی روٹین ختم کردیا۔ بجٹ ہمیشہ جمعرات کو پیش ہوتا تھا تاکہ اراکین اسمبلی کو اس پر غور کرنے کیلئے تین روز مل جائیں تو راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ پطرس بخاری کی میبل کی طرح بیشتر اراکین اسمبلی کے بجٹ کے پیکٹ بھی نہیں کھلتے۔
اس سال ایک طرف تو وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرنے کا روایتی انداز تبدیل کر دیا دوسرے اخبارات نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں ایک دو روز قبل ہی کچے پکے اعداد شائع کرنا شروع کردیئے جن کا حقائق سے بہت ہی کم تعلق تھا دراصل حکومت کا بجٹ جس کی تفصیل بھی شائع ہوئی۔ 3.936 ارب روپے کا تھا یا ہے وزیر خزانہ نے 4.05 ارب کی وہ رقم بھی شامل کردی جو 230 ارب متوقع اضافی ٹیکسوں سے 120 ارب گیس کی سبسڈیز میں تخفیف سے اور 58ارب کے قریب گیس ڈیولپمنٹ انفرااسٹرکچر گیس (GLDC) سے حاصل ہونے کی توقع ہے یوں بجٹ کا مجموعی حجم 4.3 کھرب روپے کا ہوگیا جس میں 1.4 کھرب کا خسارہ شامل ہے۔ 3.936 ارب جس کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس میں سب سے بڑی خرچ کی رقم قرضوں کا سود اور زر اصل کی واپسی ہے جو 1.325 ارب روپے ہے، دوسری 700 ارب روپے کی رقم دفاعی امور و خدمات کی ہے۔ 1175 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے مخصوص کئے گئے ہیں جس میں وفاق 525 ارب اور 650 ارب روپے صوبے صرف کریں گے۔ گو تعلیم اور صحت کے شعبے صوبائی حکومتوں کو منتقل کئے جاچکے ہیں تاہم تعلیم پر جس میں اعلیٰ تعلیم شامل ہے 64 ارب روپے اور صحت پر 26 ارب 80 کروڑ صرف کئے جائیں گے۔
جہاں بقول وزیر خزانہ ملک کی نصف آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں اس کے معیار کو بلند کرنے کیلئے اربوں روپے درکار ہوں گے جو ایک بجٹ میں فراہم نہیں ہوسکتے پھر بھی حکومت نے عوامی بھلائی کے حسب ذیل اقدامات کئے ہیں۔
-1وفاق کے سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی پنشنوں اور بنیادی تنخواہوں میں دس فیصدی اضافہ۔
-2 گریڈ 1 سے 15 تک کے سرکاری ملازمین کے میڈیکل الائونس میں 20فیصد اور سواری خرچ کے الائونس میں 5 فیصد اضافہ۔
3۔ سپرنٹنڈنٹ کا گریڈ 16 سے بڑھا کر 17 کردیا جائے گا۔
-4 عام مزدور کی تنخواہ دس ہزار سے 12 ہزار ماہانہ ہوگی۔
-5 کم از کم پنشن 5 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار روپے ماہانہ کردیا (ای او بی آئی کی پنشنوں میں اضافے کا وعدہ)
-6 بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 1500 ماہوار وظیفہ۔
-7 ہر اس حاملہ خاتون کو جو سرکاری ڈسپنسری سے یا مخصوص کردہ نجی اسپتال میں رجسٹر کرائے 2,700 روپے کی امداد اقساط کی شکل میں چار مرتبہ کے ہر چیک اپ پر 300 روپے بچے کی پیدائش پر ہزار روپے اور چند روز بعد 200 روپے۔ 8۔ کم آمدنی والے افراد کے گھر کی تعمیر کیلئے دس لاکھ روپے تک رقم قرض دی جاسکے گی۔
-9 غرباء کیلئے ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اجراء جس کیلئے فی الحال ایک ارب روپیہ مختص کیا گیا ہے۔
-10 تمام دیہی مراکز صحت اور مخصوص اسپتالوں میں تپ دق کی مفت تشخیص اور علاج۔
-11 کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے 47 ارب روپے کی رقم مخصوص۔
ٹیکسوں، ڈیوٹیز وغیرہ کی وجہ سے جو چیزیں مہنگی ہوں گی ان میں اسٹیل کی مصنوعات، ریفریجریٹر، جنریٹر، اے سی، ٹی وی، سی این جی، سیمنٹ کی وغیرہ شامل ہیں۔ جائیداد کی فروخت یا منتقلی پر ٹیکس، پرچون فروشوں پر 5فیصد سیلز ٹیکس، ہوائی سفر کے ٹکٹ مہنگے، پی ایم ہائوس پر قصر صدارت سے زیادہ اخراجات، جن چیزوں پر رعایت دی گئی ہے ان میں ٹریکٹر، زرعی مشینری، ہر قسم کا گوشت اور دودھ شامل ہیں، گوشت اور دودھ میں قیمتوں کا کم ہونا نظر نہیں آتا، شادی ہالز کی فیس میں رعایت غیر مناسب تھی۔ قومی اسمبلی میں بحث و مباحثے کے دوران ٹیکسوں میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔ میری رائے میں موجودہ حالات میں بجٹ برا نہیں۔
تازہ ترین