• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں چالیس سال سے آباد ہوں۔ یہ چالیس برس طرح طرح کے منظر دیکھتے ہوئے گزرے ہیں۔ جس طرح زندگی کا سفر جاری رہتا ہے، اُسی طرح یہ منظر آتے رہتے ہیں، جاتے رہتے ہیں۔ کبھی روپ بدل بدل کر اور کبھی وہی پرانے انداز لئے لیکن ان تمام منظروں میں ایک خوبی مشترک ہے۔ یہ ایسا آئینہ ہیں جن میں ایک چہرہ نہیں، ایک پورا معاشرہ نظر آتا ہے۔ اب میں ایک پچھلی اتوار کا منظر بیان کرتا ہوں۔
میں ذرا دیر سے جاگا بلکہ یوں کہئے کہ نیچے گلی میں کچھ زیادہ ہی چہل پہل سے آنکھ کھلی۔ پردہ اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میلہ لگ رہا ہے۔ ایک شامیانہ لگا ہے، لوگ اپنے گھروں سے میز کرسیاں لا رہے ہیں۔تمام پڑوسی کھانے پینے کا سامان اٹھائے چلے آرہے ہیں۔ میری بیوی بھی سموسے سے بھری قاب لے کر جا پہنچی۔ تب یاد آیا کہ یہ تو میری گلی میں اسٹریٹ پارٹی کا دن ہے۔ اوپر سے اس جشن میں موسم اور خاص طور پر برطانیہ کا ملائم سورج بھی شریک ہو گیا۔ دیکھتے دیکھتے موسیقی گونجنے لگی۔ گلی سے تمام کاریں ہٹا دی گئی تھیں۔ انتظامیہ کے اشتراک سے گلی ٹریفک کے لئے بند کردی گئی اور بچّوں کے لئے کشادہ علاقہ کھلا چھوڑ دیا گیا۔ لوگ اپنے اچھے لباس پہن کر آنے لگے اور دیکھتے دیکھتے رونق، چہل پہل، دھوم دھام اور دھوپ یکجا ہوئے تو میلہ سج گیا۔ یہی برطانیہ جہاں کسی زمانے میں لوگ خاموش رہا کرتے تھے، اُس روز جو سو ڈیڑھ سو لوگوں نے ایک ساتھ گفتگو شروع کی تو چالیس سال سے خاموشی کا عادی ذہن دنگ رہ گیا۔اس ملک میں جہاں کوئی کسی کے معاملے میں بولتا نہیں، دخل نہیں دیتا، آنکھ بچا کر نکل جاتا ہے، اس معاشرے میں میری کھڑکی کے راستے یہ کیسا انقلاب نظر آیا جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔ کسی فلسفے میں الجھنے سے پہلے یہ بتادوں کہ اس روز مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میری گلی میں چار ڈاکٹر، دو پروفیسر، ایک موسیقی کی استاد ، ایک اکاؤنٹنٹ، ایک ریسٹورنٹ کی مالک، ایک مصور اور ایک مارکیٹنگ کا ماہر یہ سب خدا جانے کب سے آباد ہیں۔ دنیا کی مشہور کتاب ’دی گریٹ گیم‘ کے مصنف پیٹر ہاپ کرک تو اس گلی میں مجھ سے بھی پہلے آکر بسے تھے۔ میں صرف اتنا جانتا تھا کہ ایک بڑے میاں کے گھر کے سامنے چیری کا درخت لگا تھا جس پر ہر سال چیری کے گچھّے لٹکا کرتے تھے اور میں آتے جاتے آنکھ بچا کر مٹھی بھر چیری نوچ لیا کرتا تھا پھر یہ ہوا کہ بڑے میاں نے راہ چلتے ندیدوں اور ٹھونگیں مارنے والے پرندوں سے تنگ آکر وہ درخت جڑ سے کٹوا دیا۔ اُس روز میں بہت خفا ہوا تھا اور کہا تھا کہ یہ انگریز بھی عجیب مخلوق ہیں، نہ خود کھاتے ہیں نہ محلے داروں کا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ اس دور کے اتنے بڑے مورّخ پیٹر ہاپ کرک تھے۔ ابھی حال ہی میں اپنا وہ چھوٹا سا عام سا گھر بیچ باچ کر کہیں اور چلے گئے۔ اگر موجود ہوتے تو ممکن ہے باپ دادا کی روایات توڑ کر اس اسٹریٹ پارٹی میں آجاتے اور سارے محلے والے ان سے باتیں کرتے۔ وہ نہ سہی، جو لوگ آئے، خوب ملے جلے ، ایک دوسرے کو جانا اور خود کو شناخت کرایا۔ میری بیوی نے اتنی دیر میں سب کے نام اور پتے ٹھکانے معلوم کر لئے اور پہلی بار ہماری اہل محلہ سے دوستی یاری ہوئی۔ اس بے تکلفی کا ایک سبب اور بھی ہے۔ ہوا یہ کے وہ ہمارے پرانے محلّے دار یا تو دنیا سے یا اس علاقے سے سدھار گئے۔ اب یہاں سارے کے سارے نوجوان اور کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ لوگ آئے ہیں۔ یوں تو اکثر انگریز ہیں لیکن وہ پرانے اور دقیانوسی نہیں۔ ورنہ یہ تو وہ لوگ ہے کہ ریل گاڑی میں بیٹھے ہوں تو ایک دوسرے سے باتیں نہیں کرتے، ذرا ہٹ کر اور سرک کر بیٹھتے ہیں کہ ان کا شانہ برابر والے کے شانے سے چھو نہ جائے، جب تک تعارف نہ ہوجائے،نہ ہیلو کہتے ہیں،نہ گُڈ مارننگ اور نہ ہاتھ ملاتے ہیں۔ حالانکہ پرانے انگریز ایسے نہ تھے۔ مجھے یاد ہے جب ہم اس ملک میں نئے نئے آئے تھے، ہمارے پڑوس میں ایک بوڑھا انگریز رہا کرتا تھا، مجھے دیکھ کر گڈ مارننگ کہتا تھا لیکن میری بیوی کو دیکھ کر اپنا ہیٹ اتار کر اسی طرح سلام کرتا تھا جیسے لیڈیز کو سلام کرنے کی پرانی روایت تھی۔
مجھے خوب یاد ہے کہ ریل گاڑی چاہے مسافروں سے بھری ہو، بلا کا سنّاٹا ہوا کرتا تھا۔ صرف اخبار کے صفحے پلٹنے کی آواز آتی تھی۔ اب تو یہ حال ہے کہ سارے کے سارے باتیں کر رہے ہوتے ہیں، کچھ آپس میں اور کچھ فون پر۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لندن شہر میں انگریز کم رہ گئے ہیں، یورپ اور دوسرے علاقوں کے لوگوں کی اکثریت ہو گئی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ پرانی انگلستانی روایات بدل رہی ہیں۔ لوگ اب اپنے خول میں بند نہیں رہتے۔ اڑوس پڑوس کا خیال رکھنے کی نئی عادت اختیار کر رہے ہیں ورنہ مشہور تھا کہ صبح سویرے گھر کے دروازے پر دودھ کی بوتل چھوڑنے والا مِلک مین اگر دیکھتا کہ دو دن کی بوتلیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں تو اندازہ ہو جاتا تھا کہ بڑی بی یا بڑے میاں دنیا سے سدھار گئے ہیں۔اس نفسا نفسی کا لوگوں کو خود بھی احساس ہو چلا تھا۔ اس احساس نے شدت اختیار کی تو طے کیا گیا کہ انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق اس برف کو پگھلایا جائے۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے ملکہ کی تاج پوشی کی جوبلی منائی گئی تو جشن میں شرکت کے خیال سے لوگوں نے اپنے اپنے گلی محلّوں کو قومی پرچموں سے سجا کر دعوتیں اور پارٹیاں کیں۔ یہ لوگ تو ٹھہرے سدا کے بادشاہ پرست، جشن کے بہانے پڑوسیوں کا ملنا جلنا ہوا۔ اس پر کسی کو خیال آیا کہ ایسے میلے کبھی کبھی لگائے جائیں تو معاشرے کا وہ حال ختم ہو جو پھٹے ہوئے دودھ کا ہوتا ہے ۔چنانچہ دو تحریکیں چلیں جن کو اسٹریٹ لائف اور بِگ لنچ کا نام دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ ملیں جلیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوں، ضرورت ہو تو ایک دوسر ے کے کام آئیں، خبر گیری کریں،خیالات جانیں، ہم خیال لوگوں سے ملیں، باہم مشورے کریں،رائے دیں اور ممکن ہو تو ایک دوسر ے کے سازو سامان میں ، اوزار ، کل پرزے، گھاس کاٹنے کی مشین، جھاڑیاں کاٹنے کی قینچی سے لے کر اونچی کھڑکیاں صاف کرنے کے لئے المونیم کی سیڑھی بھی عاریتاً لیں یا دیں۔ اس کا عملی مظاہرہ ابھی موسم گرما کے شروع میں ہم نے اپنی اسی گلی میں دیکھا۔ مکانوں کے پچھواڑے جو گلیاں ہوتی ہیں ان میں لوگ فالتو چیزیں ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے والے گھروں کے باشندوں نے، جن میں بڑی بڑی کمپنیوں کے افسر بھی شامل ہیں، ایک روز کباڑ اٹھانے والا ٹرک منگایا۔ اس کے بعد سارے چھوٹے بڑے لوگ مل کر جُت گئے، سب نے پچھلی گلی کے کباڑ کے انبار اٹھائے اور سامنے لاکر ٹرک میں بھر دیئے۔ تھوڑی دیر میں ٹرک سارا کاٹھ کباڑ لے گیا۔گلی صاف ستھری ہو گئی۔ یوں اس تحریک کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ محلے داروں کو جو ہنر آتے ہیں ان سے علاقے والوں کو فائدہ پہنچے۔ لوگ پڑوسیوں کے کام آئیں۔ قانونی مشورے دیں۔جرائم کی روک تھام میں مدد دیں۔ ایک ضروری کام اور ہو سکتا ہے۔ یہاں اکثر لوگ کتّے بہت شوق سے پالتے ہیں۔ ان کتّوں کو روزانہ کم سے کم ایک دفعہ ٹہلانا ہوتا ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک روز میں پڑوسی کے کتے کو ٹہلا لاؤں، دوسرے روز پڑوسی میرے کتے کو سیر کرائیں۔ مگرسناہے کہ جس گھر میں کتّا ہوتا ہے وہاں فرشتے نہیں آتے، اس لئے میں نے یہ بلا پالی ہی نہیں اور رہ گئے فرشتے تو وہ کسی کو ایسی کوئی زحمت نہیں دیتے۔
آخری بات۔ اسٹریٹ پارٹی کے لئے جب پوری سڑک خالی کرا کے محلے کے بچّوں کو کھیل کود کے لئے کھلا میدان دے دیا گیا تو بچّوں نے چاک لا کر سڑک پرکہیں ممی کی تصویر بنائی اور کہیں ڈیڈی کی۔ ایک بچّے نے فٹ پاتھ پر موٹا موٹا لکھ دیا۔’ ہر قدم ، خوشی کی جانب‘۔ ہماری گلی میں وال چاکنگ اس طرح ہوتی ہے۔
تازہ ترین