• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جس عہدِ پُر آشوب میں ڈرتے ڈرتے سانس لے رہے ہیں ،اُس میں اِن عظیم شخصیتوں کا تذکرہ بہت ضروری ہے جنہوں نے اپنے کردار سے معاشرے میں درخشندہ روایات قائم کیں اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا بنے۔ گزشتہ ہفتے ایک ایسے مسیحا اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیںجن کی یادوں کے چراغ مسیحائی کے مقدس پیشے کو تابدار کرتے رہیں گے جس کے اندر بھی ہوسِ زر نے راستے بنا لئے ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر افتخار احمد کا نام سب سے پہلے آغا شورش کاشمیری (مرحوم) کی تقریروں میں سنا تھا۔ اُن دنوں ایوب خاں کی حکومت کے خلاف زبردست عوامی تحریک چل رہی تھی جس میں آغا صاحب بھی پیش پیش تھے۔ وہ کراچی پہنچتے ہی گرفتار کر لئے گئے۔ اُنہوں نے جیل میں بھوک ہڑتال شروع کر دی اور جب اُن کی حالت دگرگوں ہونے لگی ، تو وہ سول اسپتال منتقل کر دیئے گئے۔ وہ جس وارڈ میں رکھے گئے ،اُس کے انچارج ڈاکٹر افتخار احمد تھے۔ آغا صاحب ذیابیطس کے مریض تھے اور کچھ نہ کھانے کے باعث اُن پر بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے حکومت کی منشا کے خلاف گورنر مغربی پاکستان جنرل موسیٰ خاں کو اہم پیغام بھیجا کہ کسی وقت بھی ایک بہت بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ گورنر صاحب دوسرے ہی روز کراچی پہنچ گئے اور مشاورت کے لئے ڈاکٹر افتخار صاحب کو طلب کیا ،تو اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس فقط چند گھنٹوں کی مہلت ہے۔ گورنر صاحب نے اُسی وقت صدر ایوب خاں سے ٹیلی فون پر بات کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آغا صاحب رہا کر دیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہسپتال آئے اور آغا صاحب کو مژدہ سنایا ،مگر اُنہوں نے تحریری احکام وصول ہونے تک بھوک ہڑتال ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گورنر کے ملٹری سیکرٹری سے بات کی کہ فوری طور پر رہائی کے تحریری احکام ہسپتال پہنچنے چاہئیں۔ چنانچہ چھٹی کا دن ہونے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری ہوا اور آغا صاحب نے مرن بھرت ختم کر دیا۔ وہ بعد ازاں یہی کہتے تھے کہ ڈاکٹر افتخار کی بدولت میری موت سے واپسی ہوئی ہے ۔ یوں ڈاکٹر افتخار کا نام قومی حلقوں میں پھیل گیا۔
ڈاکٹر افتخار ایک زمانے میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں بھی کام کرتے تھے جہاں اُن کی غلام مصطفیٰ کھر سے دوستی ہو گئی۔ یہ کوئی اکتوبر 1970ء کا واقعہ ہے کہ کھر صاحب رات کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے اور اُن سے ایک مریض کو دیکھنے کے لئے ساتھ چلنے کی استدعا کی۔ ایک فرض شناس اور دردمند ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ ساتھ چلنے پر تیار ہو گئے۔ وہ مظفر گڑھ پہنچے ،تو معلوم ہوا کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو بیمار پڑے ہیں اور بات بھی نہیں کر پا رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد اُنہیں تین روز تک تقریر کرنے سے منع کر دیا اور دوائیں تجویز کیں۔ بھٹو صاحب نے فیس کے دو سو روپے پیش کیے جبکہ اُن دنوں ڈاکٹر کی فیس پچاس روپے ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے فیس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب آپ وزیراعظم بن جائیں گے ، تو میرے لئے حساب چکانا محال ہو جائے گا۔ اِس ملاقات کے بعد اعتماد کا جو رشتہ قائم ہوا ، وہ آخری وقت تک قائم رہا۔ ایک بار خوش ہو کر اُنہیں بہت سارے مربع الاٹ کر دینے کی پیشکش ہوئی جس پر ڈاکٹر صاحب نے سخت برہمی کا اظہار کیا ،البتہ یہ کہا کہ میرے وارڈ میں تمام جدید طبی سہولتیں فراہم کر دی جائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں ایک مطمئن قلب عطا کیا تھا اور اُنہوں نے اپنا دامن دولت کی حرص و ہوا سے داغ دار نہیں ہونے دیا۔
میری اُن سے ملاقات میرے ایک نہایت عزیز دوست جاوید نواز کے ذریعے ہوئی جو اُن کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ڈاکٹر صاحب ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اور علمائے دین کے بڑے قدردان تھے۔ جناب حفیظ جالندھری ، جناب حبیب جالب ،جناب طفیل ہشیارپوری، جناب مظفر شمسی ،مولانا عبدالرحمٰن اشرفی اور جناب مجیب الرحمٰن شامی سے اُن کے بڑے دوستانہ روابط تھے۔ میری درخواست پر اُنہوں نے اُردو ڈائجسٹ میں قارئین کی صحت کے بارے میں ہر ماہ ایک صفحہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ صحت ِعامہ کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ مجھے اُنہیں 1976ء کے اوائل میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار ہوئے ، تو ٹریبونل نے ہمیں دو سال قید کی سزا سنا دی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب محمد حنیف رامے ، راجہ منور اور نواب خاکوانی بھی ہمارے ساتھ جیل میں تھے۔ ایک روز میں نے سینے میں شدید تکلیف محسوس کی۔ مجھے 1964ء میں انجائنا کا حملہ ہوا تھا۔ جیل کے ڈاکٹر نے مجھے میو ہسپتال ریفر کر دیا۔ڈی ایم ایس نے میرا کیس جناب ڈاکٹر افتخار کو بھیج دیا۔ اُنہوں نے تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد مجھے اپنے وارڈ میں داخل کر لیا۔ جیل کی ناقص غذا نے میری صحت پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اور بوریوں کا بستر استعمال کرنے سے جلد کے امراض بھی پیدا ہو گئے تھے۔ چار ماہ کے دوران مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے مریضوں کا بہت خیال رکھتے اور اُن کی تکلیف دور کرنے میں بڑی تگ و دو اور زیرِ تربیت طلبہ پر بھی بڑی محنت کرتے ہیں۔مجھے اُن کے ہمراہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ اُن کی اوّلین کوشش ہوتی تھی کہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اُن میں تحقیق اور جستجو کا شوق پیدا کیا جائے۔ اُن کا اپنے شاگردوں کے ساتھ رویہ ایک شفیق باپ کا سا تھا اور اُنہیں ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ گرتے ہوؤں کو تھامتے ہیں اور بڑی خاموشی سے حاجت مندوں کی دستگیری کرتے ہیں۔
وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث 1976ء میں پنجاب کے سیکرٹری ہیلتھ تعینات ہوئے ، تو اُنہوں نے ڈاکٹروں کے کیڈر کو بڑی وسعت دی۔ اُن کے عہد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی اسامیاں پیدا ہوئیں اور سینئر ڈاکٹر آگے چل کر بائیس گریڈ تک پہنچ گئے جو زیادہ تر انیس گریڈ تک ہی پہنچ سکتے تھے۔ اُن کے زمانے میں علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال کی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور اُنہوں نے ینگ ڈاکٹرز کو ایک اچھا سکیل دلوایا۔ وہ نوجوان ڈاکٹروں سے بڑی اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے اور اُن کے تعینات شدہ نوجوان ڈاکٹر آگے چل کر کالجوں کے پرنسپل بنے۔ اُن کی عظمت یہ تھی کہ کبھی کسی پر احسان جتایا نہ صلے کی تمنا کی۔ وہ یہی کہتے تھے کہ اِس نوجوان میں اپنی صلاحیت بہت زیادہ تھی۔ اُن کا کلینک آج بھی ریواز گارڈن میں موجود ہے جسے اب اُن کے چھوٹے بیٹے آصف چلا رہے ہیں جبکہ بڑے بیٹے عارف گنگا رام ہسپتال میںکام کرتے ہیں۔ اُن کا اصول یہ تھا کہ پرانے مریضوں سے صرف پچاس روپے فیس وصول کرتے تھے اور آج بھی اُن کی زیادہ سے زیادہ فقط فیس تین سو روپے تھی۔ غریبوں کا علاج مفت کیا جاتا رہا۔ وہ بہت کھلے دل کے انسان تھے اور چھوٹے اور بڑوں سے بڑی محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔ اُن کی رفیقۂ حیات زاہدہ بھی ڈاکٹر ہیں جو سلیقہ مندی اور معاملہ فہمی کی ایک خوبصورت مثال ہیں جن کا تعلق جموں ریاست سے ہے۔ اُن کے والد اِس ریاست میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل تھے جن کے شیخ عبداﷲ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ جناب حفیظ جالندھری نے یہ رشتہ تجویز کیا تھا کیونکہ وہ جالندھر میں ڈاکٹر صاحب کے والد نیاز الدین احمد کے ہمسایہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تقاریر اور گفتگو میں بالعموم بلھے شاہ کے اشعار سناتے جن میں امن ، سلامتی ، بھائی چارے اور خیر خواہی کا پیغام ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی قبر پر شبنم افشانی کرے اور اُن کے ورثاء کو اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اُن کی یادوں کے چراغ روشن رہنے سے ذہن منور ہوں گے۔ اُن کے لاکھوں شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے اور اپنے شاگردوں میں ولولۂ تازہ پھونکتے اور بڑی حکمت سے بگڑے ہوئے طلبہ کی اصلاح کرتے تھے۔
تازہ ترین