• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک بار پھر انقلاب اور احتجاج کی سیاست کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ ایک زاویہ تو یہ ہے کہ گزشتہ برس منعقد ہونے والے انتخابات شفاف نہیں تھے اس لئے حکومت کا آئینی جواز ہی مشکوک ہے دوسری طرف بتایا جا رہا ہے کہ منتخب حکومت ملکی حالات کو سنبھالنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس صورت حال میں پشتینی نمک خواروں کو بھی سیاسی قیادت کو ’لتاڑنے‘ کا اچھا موقع ہاتھ آیا ہے۔ دشنام کی اس فہرست میں کچھ ایسی ندرت نہیں ہے۔ ’’سیاسی رہنما نااہل ہیں۔ عوام میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے ہیں۔ اقربا پروری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں میں تال میل نہیں ہے۔‘‘ یہ الاپ گزشتہ ساٹھ برس میں بڑے تسلسل سے دہرایا گیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عمل کا انحطاط مختلف مراحل سے گزرتا ہوا گزشتہ پچیس برس میں گویا اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے، تاہم جمہوری مکالمے اور سیاسی عمل سے انکار کا رویہ ہماری تاریخ کے تاروپود میں گندھا ہوا ہے۔ اگر آپ نے کبھی نمایاں تعلیمی کامیابی حاصل کرنے والے طالب علموں کے اردو اخبارات میں انٹرویو پڑھے ہیں تو شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ ان نونہالوں سے ایک سوال سیاست دانوں کے بارے میں ضرور پوچھا جاتا ہے اور ان ہونہاروں نے ہمیشہ ایک ہی جواب دیا: ’ہمیں سیاست سے نفرت ہے؛ ڈاکٹر، انجینئر یا سول سرونٹ بن کے قوم کی خدمت کریں گے۔ ‘ گویا سیاست میں حصہ لے کر قوم کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی سانس میں مثالی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ ہونہار بِروا قائداعظم محمد علی جناح کا نام لینا نہیں بھولتے۔
ہم عصر جنوبی ایشیا پر سند کا درجہ رکھنے والے اسٹینلے والپرٹ نے زلفی بھٹو آف پاکستان کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں جہاں جہاں بھٹو صاحب کے کسی ناقابلِ دفاع یا ناقابلِ توجیہہ روئیے کا ذکر آیا ہیٖ مصنف رومن اردو میں ایک لفظ ’’سیاست‘‘ لکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ والپرٹ صاحب سیاست کے انگریزی مترادف سے آگاہ نہیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ اردو زبان میں اس لفظ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ انگریزی زبان میں کسی شخص کو سیاسی کہنا گویا اس کے باشعور اور ذمہ دارانہ سماجی روئیے کا اعتراف ہوتا ہے۔ ادھر ہمیں کسی کو عیار، دھوکے باز اور کائیاں قرار دینا ہو تو ہم سلیس اردو میں کہتے ہیں، بھئی وہ شخص بڑا سیاسی ہے، یا پھر کہتے ہیں، میاں سیاست نہ کرو، کام کی بات کرو۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان تعلیمی، سماجی اور معاشی اعتبار سے خاصا پسماندہ تھا چنانچہ اس خطے میں سیاسی ثقافت بھی کمزور تھی۔ مسلم لیگ میں عوامی رابطے، تنظیم اور جدوجہد کی تاریخ زیادہ مضبوط نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تحریکِ پاکستان کے کارکن تو بے شمار ہیں لیکن چند مستثنیات کے ساتھ تحریکِ آزادی کا کارکن نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا۔ اس پر مستزاد تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ تھی۔ پاکستان بننے کے ایک ہفتے بعد ہی ڈاکٹر خاں صاحب کی وزارت برطرف کردی گئی۔ لیاقت علی خاں سیاسی مخالفت پر ایسے سٹپٹائے کہ فروری 1948میں دستور ساز اسمبلی کے فلورپر سہروردی کے خلاف قابلِ اعتراض زبان استعمال کی۔ سیاسی عمل کا آغاز غداری کے الزام سے ہو تو الٹے پاؤں کا یہ سفر جمہوریت کی بجائے آمریت پہ ختم ہوتا ہے۔ ریاست کے جدید نمونے میں آئینی اور جمہوری عمل سے انحراف اندھیری رات میں دروازہ کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے۔ ایسے گھر میں چور اور درندے گھس آتے ہیں۔ افسر شاہی نے سوچا کہ اگر آئین، زبان اور قومیتوں پر لڑتے جھگڑتے سیاست دانوں نے عوامی تائید کے بغیر ہی حکومت کرنا ہے تو پھر انتظامی مہارت اور تجربے سے بہرہ ور افسر شاہی کیوں نہ حکومت کرے۔ پھر جلد ہی بابوصاحبان کی انگلی پکڑے فوج اقتدار میں چلی آئی۔ دلیل یہ کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جو پارلیمانی ہلڑبازی کی بجائے مستعدی سے مسائل حل کرکے ملک کو سیدھے راستے پر ڈال دے گا۔ اس میں اڑچن یہ ہے کہ اگر غیر جمہوری اور غیر سیاسی تدابیر سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو پھر اقتدار دوبارہ سیاستدانوں کے سپرد کیوں کیا جائے؟ چنانچہ مداخلت کار قوتوں کا ایک اہم منصبی فریضہ جمہوریت کی مذمت اور سیاستدانوں کی کردار کشی قرارپایا۔ 1958کے بعد سے نادیدہ قوتیں کل وقتی بنیادوں پر یہ کام تندہی سے کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کشمکش کا حتمی نتیجہ سیاسی عمل سے اجتماعی برگشتگی کی صورت میں برآمد ہوا۔ جمہوریت کی طرف پیش رفت سیدھی شاہراہ پر مسلسل سفر نہیں ہے۔ جمہوری عمل طویل، صبرآزما اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ معاشرتی ارتقا میں ہزار رکاوٹیں آتی ہیں لیکن جمہوریت کا لطیف دودھ تیربہدف صدری نسخوں کی ملاوٹ قبول نہیں کرتا۔ سیاسی کار کنوں کو پختگی تک پہنچنے کیلئے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ ہوتا رہا کہ جتنی دیر میں سیاسی قیادت کی ایک نسل تیار ہوتی ہے اگلی فوجی حکومت دھڑن تختہ کرنے کو آن موجود ہوتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد تو گویا اس رہزنی کا کھٹکا بھی نہیں رہا۔
تمدنی قوتوں پر ریاستی اداروں کی بالا دستی کا تسلسل دیکھتے ہوئے صحافیوں، وکلا، سول افسروں اور متوسط طبقے کی بڑی تعداد نے گویا ماورائے آئین مداخلت کے تصور سے ان کہا سمجھوتہ کر لیا ہے۔ کہنا چاہئے کہ طویل خشک سالی کے باعث پانی کی سطح اتنی نیچے چلی گئی کہ مستقل بنجر پن نے آلیا۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابات شخصی سیاست کا نقطۂ آغاز تھے۔ ذات پات اور شخصی اثر و نفوذ کی بنیاد پر سیاست کا نقطۂ اختتام 2002کے انتخابات میں سامنے آیا جب کسی سیاسی جماعت نے منشور تک پیش کرنے کی زحمت نہیں کی۔ حتیٰ کہ پورے ملک میں ایک بھی بڑا جلسہ منعقد نہیں ہوا۔ آج پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یا رہنما ایسا نہیں جس نے کہیں نہ کہیں غیر جمہوری یا غیر آئینی سلسلہ جنبانی یا سمجھوتے نہ کیے ہوں۔ ٹریڈ یونینوں، صحافتی تنظیموں، بار کونسلوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سیاسی شعور کی جڑیں کھوکھلی ہوگئی ہیں۔ سیاسی بیداری کے ان سرچشموں کو یا تو سایۂ عاطفت میں لے لیا گیا ہے یا ان کے پرکاٹ دئیے گئے ہیں۔ پاکستان میں منتخب حکومتوں نے اول تو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی یا پھر انہیں خود ساختہ بحرانوں کی مدد سے اس قدر مفلوج کر دیا جاتا ہے کہ انہیں ہمہ وقت حکومت کی بقا کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ اگر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر غور کیا جائے تو پھر یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ اس دھاندلی کا الزام کس پر لگایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابی عمل کو غیر اعلانیہ مسودے کے تابع سمجھنے کی نفسیات اس قدر مضبوط ہے کہ جن انتخابات میں کوئی متحارب فریق اقتدار میں نہیں تھا، رائے دہندگان کو تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان دیکھی مقتدر قوتوں کی جانب سے کس جماعت کو اذنِ اقتدار ملا تھا۔
سیاسی ثقافت تو معاشرے کے گلی کوچوں سے جنم لیتی ہے۔ ہمارے سیاسی منظر پر سیاسی کارکن نام کی جنس معدوم ہے۔ جماعتی وابستگی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ بیشتر انتخابی حلقوں میں روایتی حریف خاندانوں کو نمائشی طور پر کسی سیاسی جماعت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مقابلہ صرف یہ ہے کہ کون حکومتِ وقت کی سرپرستی جیتنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ دوسرا حریف سیاسی بقا کے لئے وقتی طور پر حزبِ اختلاف کا رخ کر لیتا ہے۔ جن معاشروں میں ریاستی ادارے خود کو ’حساس‘ قرار دیں، وہاں رائے عامہ بے حس ہو جایا کرتی ہے۔ جاندار رائے عامہ کی عدم موجودگی میں سیاسی عمل اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور سیاسی قیادت نہیں پنپتی۔ کسی قوم کا، خاص طور پر اگر وہ انیس کروڑ محنتی، باصلاحیت اور بنیادی طور پر دیانتدار انسانوں پر مبنی قوم ہو، تمدنی، علمی اور جمہوری امکان مردہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن موجودہ مایوس کن تصویر کی جڑیں ایک ہی بنیادی علت سے جڑی ہوئی ہیں کہ پاکستان میں ریاستی اداروں نے سماج پر تحکمانہ بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ ایسے میں سیاسی قیادت کی نا گفتہ بہ کارکردگی کا پھلکا اڑانا تو زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
تازہ ترین