• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہوں جو حال، تو کہتے ہو،’’مدعا کہیے‘‘
تمہی کہو کہ جو تم یوں کہو، تو کیا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پر آلگا غالب
خدا سے کیا ستم و جور ناخدا کہیے
پرویز مشرف کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کا متوقع فیصلہ آگیا اور عدالت نے خود ہی پندرہ دن کے لئے اپنے حکم پر عمل درآمد روک دیا تاکہ اگر کسی فریق کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہے تو وہ کرے، اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے کہ آیا وہ اپیل کرنا چاہتی ہے یا نہیں، فیصلہ کے بعد پی ایم ایل این کا ایک اجلاس اسلام آباد میں وزیر اعظم جناب نواز شریف کی سربراہی میں ہوا تو الیکٹرونک میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ شاید یہ اجلاس اس عدالتی حکم پر غورخوض کے لئے بلایا گیا ہے، مگر جب رات کو میں نے ایک ٹاک شو میں جناب صدیق الفاروق سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ میٹنگ پہلے سے طے تھی اور اس میں عدالتی فیصلے یا مشرف کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، خود صدیق الفاروق کا لہجہ کافی دھیما تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ چونکہ پرویز مشرف نے حلف نامہ واپس آنے کا داخل کیا ہے اور ان کی والدہ کی طبیعت بھی خراب ہے اور خود ان کی بھی کمر، ریڑھ کی ہڈی کے علاج کی ضرورت ہے تو باہر جانے میں کوئی حرج نہیں، گویا کہ آثار یہ ہیں کہ شاید حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل داخل نہ کرے، مگر ایک کردار مولوی اقبال حیدر کا بھی ہے جو کہ ہر وقت اس طرح کے کاموں میں مستعد نظر آتے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق حکومت اپیل کرے یانہ کرے مولوی اقبال حیدر اپیل ضرور کریں گے، بطور وکیل اور سابق جج میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی اپیل کسی طرف سے کی بھی گئی تو بھی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے برقرار رہنے کی توقع ہے کیونکہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اس موضوع پر کیس لا کی روشنی میں کیا گیا ہے لہذا اس کے کالعدم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، آپ کو یاد ہوگا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں الطاف بھائی کی لندن میں ضمانت کی پیشگوئی کی تھی اور وہ سچ ثابت ہوئی اور الطاف بھائی کو لندن پولیس نے خودہی ضمانت پر رہا کردیا، عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آئی، اب مشرف کیس میں بھی میرا خیال ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا اور مشرف پندرہ دن کے بعد دبئی اور پھر لندن علاج کے لئے روانہ ہوجائیں گے، پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں فوج نے ان کو گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا تھا، وہ لندن میں رہ رہے تھے اور پھر خود ہی پاکستان آگئے، اب آتے جاتے رہیں گے۔ کراچی ایئرپورٹ پر شرپسندوں کے حملے میں جانوں کا زیاں انتہائی قابل مذمت ہے۔ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد اس قسم کی کارروائیوں کی توقع تھی لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ پیش آگیا، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیکورٹی کی کمزوری سے یہ واقعہ پیش آیا، ہوسکتا ہے کہ ان کا خیال درست ہو لیکن میرے خیال میں جس طرح ہماری فوج، رینجرز اور پولیس نے اس حملے کے بعد کارروائی کی ہے انتہائی قابل ستائش ہے تمام کے تمام دہشت گردوں کو ٹھکانے لگادیا۔ ASF کے جوانوں اور پی آئی اے کے عملے اور ایئرپورٹ پر کام کرنے والے افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اس طرح دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو ناکام بنادیا۔
ایئرپورٹ کے رن وے پر دو طیارے مسافروں سے بھرے کھڑے تھے اگر سیکورٹی اداروں کی طرف سے ذرا سی بھی سستی ہوتی تو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا تھا، میں اپنی اور پورے پاکستانیوں کی طرف سے شہید ہونے ہوالے اے ایس ایف کے جوانوں، پی آئی اے کے عملے اور دوسرے ایئرپورٹ پر کام کرنے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اللہ پاک سے ان کے لئے جنت الفردوس میں اعلٰی مقام کی دعا کرتا ہوں، شہید تو ویسے بھی جنت میں سیدھا جاتا ہے اور ان لوگوں نے جام شہادت نوش کرکے کتنے لوگوں کی جانوں کو بچایا ہے اور طیاروں اور دوسری تنصیبات کو بچایا ہے یہ لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں، اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان بچائی ہے، اب اس واقعے کے بعد طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کی جبکہ دو دن کے بعد ایک دوسری تنظیم نے باقاعدہ دہشت گردوں کی تصویروں کے ساتھ بیان جاری کیا، اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ اصل میں کون سی تنظیم اس واقعہ میں ملوث ہے اور وہ کون لوگ ہیں جن کے ساتھ ہماری حکومت کے مذاکرات جاری تھے، مسئلہ کافی گمبھیر ہے اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا اب انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کام ہے تاکہ وہ ان دونوں تنظیموں کے نیٹ ورک تک پہنچ کر کوئی موثر کارروائی کریں تاکہ آئندہ اس طرح کے حملوں سے نجات مل جائے، ایک طرف حملوں اور شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف عمران خان کی سونامی سیالکوٹ میں پہنچ کر ایک اور عظیم الشان جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، اب شیخ رشید اپنے ٹرین مارچ پر روانہ ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور مولانا طاہر القادری کی آمد آمد ہے، ادھر رمضان المبارک بھی آئندہ دو ہفتوں میں انشا اللہ آرہا ہے آج شب برات ہے اور قوم رات بھر عبادت میں مصروف رہنے کے بعد روزے سے ہے، بیشتر افراد شب برات کے اگلے روز شعبان کا نفلی روزہ رکھتے ہیں اور اس طرح ماہ رمضان کی آمد کا استقبال کرنے کی تیاری کرتے ہیں، اللہ خیر کرے، کراچی کا گرم موسم، ملک میں چلنے والی گرمی کی لہر اور اس پر طویل لوڈشیڈنگ کے دورانیے رمضان کے روزوں کو مسلمانوں کے لئے امتحان بنادیں گے مگر خوشی ہے کہ ہمارے لوگ ہمیشہ اس امتحان میں سرخرو ہوکر کامیاب ہوتے ہیں اور گرمی کی شدت، لوڈشیڈنگ اگرچہ مشکلات ضرور پیدا کرتے ہیں مگر آڑے نہیں آتیں اور مسلمان اپنے روزے اور تراویح حسب معمول مکمل کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ رمضان کا مہینہ امن و سکون سے گزر جائے اور لوگ اپنی عبادت اطمینان سے کرلیں آخر میں مرزا غالب کے اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالہ بلبل کو بے اثر؟
پردے میں گل کے، لاکھ جگر چاک ہوگئے
تازہ ترین