• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نریندر مودی کے نام وزیر اعظم نواز شریف کا خط پڑھ کر اور دفتر خارجہ کی ترجمان کا بیان کہ ٹھوس شواہد اور تحقیقات کے بغیر کراچی ائیر پورٹ پر ملنے والے اسلحہ کے حوالے سے کسی پر الزام نہیں لگاتے، شاعر مشرق یاد آئے؎
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
نواز مودی ملاقات کا جو احوال بھارتی، عالمی اور پاکستانی میڈیا نے بیان کیا بھارتی سیکرٹری خارجہ سجتا سنگھ نے ملاقات کے فوری بعد بریفنگ میں مودی کی طرف سے چارٹر آف ڈیمانڈ کی تفصیلات بیان کیں وہ کوئی مخفی راز نہیں اور وزیر اعظم نواز شریف کی بھارتی سرمایہ کاروں ، تاجروںاور فلمسٹارز کی ملاقاتیں بھی میڈیا کا مرغوب موضوع ہیں۔ اب یہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا، سرتاج عزیز کی بات ہم مان لیتے ہیں کہ مودی نے کوئی چارج شیٹ نہیں دی مگر مذاکرات کو بعض مطالبات سے مشروط تو کیا ۔اس کے باوجود میاں صاحب بات چیت سے مطمئن ہیں اور ترجمان دفتر خارجہ کو کراچی ائیر پورٹ سے ملنے والے بھارتی اسلحے اور بھارتی فوج کے زیر استعمال انجکشن کے بارے میں ٹھوس شواہد درکار ہیں، حیراں ہوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔
جب سے نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے بھارت میں مسلمانوں کا جینا حرام ہوچکا ہے۔ سرکاری اداروں، محکموں، کمشنوں میں چن چن کر آر ایس ایس کے انتہا پسند، اسلام و مسلمان دشمن کا رکن دھڑا دھڑ بھرتی کئے جارہے ہیں۔ مسلمانوں پر حملوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ پونا میں محسن شیخ کا قتل اس سلسلے کی کڑی ہے مگر وزیر اعظم ہر طرف سے مطالبات کے باوجود محسن شیخ کے خاندان سے اظہار ہمدردی پر آمادہ نہیں۔ انہوں نے گودھراورا لٰہ آباد کے واقعات پر بھی مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کبھی نہ کیا۔ کہا تو صرف اتنا کہ کتے کا پلا کچلا جائے تو بطور انسان افسوس ہوتا ہے۔
دو دن سے نکیال اور راجوری سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری جاری ہے جبکہ کراچی ائیر پورٹ پر حملہ آوروں سے بھارتی اسلحہ ملا، بھارتی فوج کے زیر استعمال زخمی حصے کو فوری سن کرنے والے انجکشن بھی۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کو خط لکھتے ہیں ،دوران ملاقات بات چیت سے مطمئن نظر آتے ہیں اور فراخدلانہ مہمان نوازی پر شکر گزار۔
ہم کے ٹھہرے دوسرے تیسرے درجے کے شہری اِذن کلام کے محتاج ،کس سے پوچھیں کہ حضور! بھارتی اسلحہ اور انجکشن کیا ٹھوس ثبوت نہیں؟ کیا دہشت گرد بھارتی بھارتی فوج اور’’را‘‘ کی طرف سے جاری کردہ مصدقہ سرٹیفکیٹ موقع پر چھوڑ جاتے کہ’’یہ سامان ہم نے فراہم کیا اور کسی دورے کی ہرگز کارستانی نہیں‘‘ یا اب ازبکستان موومنٹ ،تحریک طالبان پاکستان کو نوٹری پبلک کا تصدیق شدہ بیان حلفی دفتر خارجہ روانہ کرنا چاہئے تاکہ یہ ٹھوس شواہد عالمی برادری اور بھارتی دفتر خارجہ کو پیش کئے جاسکیں۔
ظاہر ہے کہ بھارتی ا سلحہ نہ تو درہ آدم خیل سے بن کر جاتا ہے جو دہشت گرد وں نے راستے سے اچک لیا نہ بھارتی فوج کے زیر استعمال فیکٹر ایٹ انجکشن سہراب گوٹھ میں تیار ہوتے اور کراچی کے میڈیکل سٹورز پر بکتے ہیں کہ دو چار درجن انجکشن حملہ آور وں نے خرید لئے۔ ممبئی حملہ کے وقت پاکستان پر الزام لگانے سے پہلے بھارتی حکومت نے تحقیقات کیں نہ آج تک ٹھوس شواہد دئیے مگر کئی برس سے پاکستان عالمی برادری کے سامنے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔
سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایک فائل دی جس میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت تھے، امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ چک ہیگل پاکستان میں’’را‘‘ کی مداخلت پر بیان چکے ہیں۔ موجودہ وزیر مملکت اور سابق بھارتی آرمی چیف وی کے سنگھ نے اپنی کتاب میں تربیت یافتہ تخریب کار پاکستان بھیجنے کا انکشاف کیا اور وسیع پیمانے پر فنڈز مختص کرنے کا اعتراف بھی ۔پاکستان کے خفیہ ادارے بار بار فاٹا سے کراچی اور بلوچستان تک بھارتی مداخلت اور ریشہ دوانیوں کا رونا رو چکے مگر پاکستانی دفتر خارجہ کو ٹھوس شواہد کی تلاش ہے جو شاید کبھی نہ مل سکیں۔ سرائیکی میں کہتے ہیں من پلیت تے حجتاں ڈھیر(جب نیت میں کھوٹ ہو تو بہانے بہت)
حکومت کی ترجیحات میں جب بھارت سے تجارت اور مفاہمت کو اولیت حاصل ہے اور وہ نریندر سنگھ کی جلی کٹی سن کر بھی بات چیت سے مطمئن اور فراخدلانہ مہمان نوازی پر مسرور نظر آتی ہے جس فیاضانہ مہمان نوازی کی تفصیل چارٹر آف ڈیمانڈ کی صورت میں بھارتی سیکرٹری خارنہ نے بیان کی تو ’’را‘‘ جو بھی کرے اس کا ہاتھ کون روک سکتا؟۔پشتو محاورے کے مطابق جب تنور گرم ہو تو ہر کوئی روٹی لگانے کی کوشش کرتا ہے صرف را نہیں، رام، خاد اور موساد بھی۔
جس ملک میں وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح کوسنے میں مشغول ہوں ، ائیر پورٹ کی سیکورٹی کے حوالے سے یدھ رچاہو وہاں بھارتی مداخلت کی بھلا کس کو فکر۔ دو تھانوں کی حدود پر منشیوں محرروں اور ڈائریکٹ حوالداروں کو لڑتے جھگڑتے اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے اکثر دیکھا۔ یہ نااہل، کام چور اہلکاروں کا وطیرہ ہے مگر ائرپورٹ کی حدود، سیکورٹی انتظامات اور دہشت گردوں کی روک تھام کے حوالے سے وفاق اور صوبہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کریں کبھی سنا، دیکھا نہ سنا۔
مرحوم عارف نکئی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو تخریب کاری کے ایک واقعہ پر سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے افسروں و اہلکاروں کو معطل کردیا کسی نے توجہ دلائی تو جواب دیا’’واقعہ میرے صوبے میں ہوا، ذمہ داری بھی میری ہے ایکشن بھی میں لوں گا‘‘ مگر وزیر داخلہ اور و زیر اعلیٰ میں سے کوئی ذمہ داری لینے پر تیار ہے نہ ایکشن کرنے پر آمادہ، توقع یہ ہے کی جاتی ہے کہ اس نالائق ،کام چور، غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ ٹولے کی موجودگی میں ہمارا کوئی اندرونی اور بیرونی دشمن اپنا لچ نہ تلے اور چارٹر آف ڈیمانڈ یا چارج شیٹ کے ذریعے فراخدلانہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے نہ کرے۔
رہی نکیال اور راجوری سیکٹر میں بھارتی فوج کی گولہ باری اور اندرون بھارت مسلم کش کارروائیاں بھارتی حکمران بآسانی اس کا ذمہ دار ہمارے دفاعی اور خفیہ اداروں کو قرار دے سکتے ہیں ہم ماننے اور اپنا گھر ٹھیک کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ کسی کو یقین دلانے، قسمیں کھانے کی ضرورت بھی نہیں؎
جھوٹی قسم نہ کھائیے، جائیے کرلیا یقیں
تم میں کچھ ایسی بات ہے، ہر بات بھول جائے د ل
تازہ ترین