• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے کچھ لوگ بہت جلدی میں ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انتہائی سخت گرمی میں بھی سیاسی جلسے اور احتجاجی دھرنے منعقد کئے جا رہے ہیں ۔ پورے ملک میں اس قدر گرمی پڑ رہی ہے کہ پرندے بھی اپنے گھونسلوں سے نہیں نکلتے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے جلسے اور دھرنے مسلسل ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان عوامی تحریک کے رہنما ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی 23 جون 2014ء کو پاکستان واپس آنے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ وہ پاکستان میں ایک ایسا ’’انقلاب‘‘ برپا کر سکیں ، جس کی منصوبہ بندی انہوں نے کینیڈا میں بیٹھ کر کی ہے ۔ شیخ الاسلام نے بھی اپنے انقلاب کے لئے انتہائی سخت موسم کا انتخاب کیا ہے ۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے موسم کی سختی کم ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا، آخر یہ عجلت کس بات کی ہے ۔
سیاسی طاقت کا مظاہرہ یا احتجاج کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے لیکن تحریک پاکستان کے دوران بھی اور پاکستان کے قیام کے بعد تمام اہم سیاسی اور جمہوری تحریکوں کے لئے وقت کے انتخاب میں موسم کا ضرور خیال رکھا گیا۔ اس خطے میں گرمی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ سیاسی سرگرمی تو کیا، کوئی کام بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ممتاز امریکی دانشور ول ڈیورنٹ 1930ء کے عشرے میں ہندوستان آئے تھے اور انہوں نے اپنے اس دورے کا ذکر اپنی کتاب ’’ ہندوستان کی تاریخ ‘‘ میں بھی کیا ہے ۔ ان علاقوں کے موسم کے بارے میں انہوں نے تفصیلی طور پر لکھا ہے جو اس وقت پاکستان میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کی سستی اور کاہلی کا بنیادی سبب سخت گرمی ہے اور لوگوں نے گرمی کا صرف ایک ہی علاج ڈھونڈا ہے ۔ وہ علاج یہ ہے کہ کوئی کام نہ کرو ، یہاں تک کہ سوچو بھی نہیں ۔ ول ڈیورنٹ اگر زندہ ہوتے اور انہیں یہ بتایا جاتا کہ پاکستان کے دو سیاسی رہنماؤں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے مئی اور جون کا انتخاب کیا ہے تو اس پر وہ جو تبصرہ کرتے ، وہ تاریخی ہوتا ۔ بڑا آدمی جزئیات میں الجھے بغیر کل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پاکستان میں بھی اصل بات سمجھنے والے موجود ہیں مگر وہ کہہ نہیں سکتے۔ ویسے تو اس خطے میں عوامی مزاحمت کی کوئی بڑی تحریکیں نہیں چلی ہیں ۔ جن نام نہاد تحریکوں میں زیادہ لوگوں کو جمع کیا گیا ہے وہ بدقسمتی سے سامراجی اور جمہوریت دشمن قوتوں کی تحریکیں تھیں۔ حقیقی عوامی تحریکیں فوجی حکومتوں کے خلاف چلیں۔ ان میں یو ڈی ایف، ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی تحریکیں شامل ہیں ۔ یہ ایسی تحریکیں ہیں، جن پر سامراجی اور آمرانہ قوتوں کے مقاصد پورے کرنے کا الزام نہیں ہے ۔ ان تحریکوں میں بھی موسم کا خیال رکھا گیا لیکن شیخ الاسلام اور عمران خان کو اس بات کی پروا ہی نہیں ہے کہ ان لوگوں کا کیا ہو گا جو سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں ’’انقلاب‘‘ برپا کرنے آتے ہیں ۔ پاکستان میں عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ہوں، کبھی بھی اس طرح کی گرمیوں میں منعقد نہیں ہوئے ۔ ہمیشہ انتخابات اکتوبر اور نومبر یا فروری اور مارچ میں ہوتے ہیں ۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ انتخابات سے پہلے لوگ سیلاب یا بارشوں سے متاثر نہ ہوئے ہوں اور فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے موسم کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ شیخ الاسلام تو اپنا خصوصی سیلون تیار کراتے ہیں ، ان کے لئے موسم کا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ عمران خان صاحب تو عقل سے کام لے سکتے ہیں ۔
عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگلے انتخابی موسم سے پہلے کچھ غیر مرئی قوتیں بے موسمی تحریک شروع کرا دیتی ہیں ۔ 1988ء سے 1999ء کے ’’جمہوری وقفے‘‘ کے دوران ایسی ’’بے موسمی‘‘ سیاسی سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اس قدر عوامی پیمانے پر نہیں۔ بعد میں تاریخ نے ان بے موسمی اور نام نہاد سیاسی تحریکوں کو بے نقاب کر دیا اور پتہ چلا کہ اس زمانے میں جو لوگ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نام پر انقلاب کے نعرے لگا کر آئے تھے وہ خریدے ہوئے لوگ تھے اور ان کے منہ سے جاری ہونے والے بیانات دراصل ان کے ضمیر کی آواز نہیں تھے بلکہ ان کے گلے میں لگائی ہوئی ’’کیسٹ‘‘ کے ریکارڈ تھے جو ’’اسٹیریو ٹائپ‘‘ میں بجتے رہتے تھے ۔ ماضی کے یہ ’’انقلابی‘‘ بھی موسم کا خیال رکھتے تھے۔ شاباش ہے شیخ الاسلام اور عمران خان پر جو گرمی شرمی کو خاطر میں بھی نہیں لا رہے ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اس وقت پاکستان میں’’انقلاب‘‘ لانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جب اسلامی دنیا کے کچھ ممالک میں لائے گئے انقلابات کا فراڈ بے نقاب ہو چکا ہے اور پوری دنیا کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اسلامی ممالک میں حقیقی قومی، تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی شناخت کا خاتمہ کرکے وہاں مصنوعی قیادت لانا چاہتے ہیں تاکہ ان ملکوں میں بنیاد پرست حکومتیں قائم کردی جائیں اور آئندہ ایک یا نصف صدی تک امریکہ اور مغربی ممالک اپنے لوگوں کو ’’بنیاد پرست اسلامی بلاک‘‘ سے ڈراتے رہیں اور ان اسلامی ملکوں میں بظاہر اپنے مخالف لیکن اندرونی طور پر اپنے کارندے حکمرانوں کے ذریعہ ان ملکوں کی دولت لوٹتے رہیں۔ دنیا کو یہ اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ تحریر اسکوائر اور اس طرح کے بڑے عوامی طاقت کے مظاہرے دراصل متعلقہ ملکوں کے اندر حقیقی عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لئے تھے۔ یہ راز بھی کھل گیا ہے کہ امریکہ مخالف بنیاد پرست سیاسی رہنما بھی امریکی کارندے تھے اور ان کے مقابلے میں لائے جانے والے فوجی حکمران بھی امریکی کارندے ہیں۔ اس کے لئے کسی ایک خاص ملک کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پوری دنیا کو اس بات کا بھی ادراک ہو گیا ہے کہ تیسری دنیا خاص طور پر اسلامی ملکوں میں بڑے بڑے عوامی جلسے منعقد کرانے کے لئے کس طرح ’’ اداراتی‘‘سطح پر منصوبہ بندی کی گئی۔ دینی مدارس کے طلبا و طالبات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے انہیں وسیع تر عوامی طاقت کا نام دیا گیا یا لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر پیسے خرچ کئے گئے۔ اس کے باوجود کوئی بھی اجتماع عوام کے مختلف طبقات اور علاقوں کی نمائندگی نہیں کر سکا ۔ یہ ہتھکنڈے اور حربے بہت پہلے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو یہ توقع بھی بہت پہلے سے تھی کہ اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک میں جو عدم استحکام پیدا کیا گیا ہے یا جعلی انقلاب برپا کئے گئے ہیں ویسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہ دیگر ملکوں میں بعض لوگ پہلے کر چکے ہیں اور یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ جو کچھ دیگر ملکوں میں ہوا وہ حقیقی عوامی تبدیلی نہیں تھی پھر بھی سب کا بنیادی حق ہے کہ وہ احتجاج کریں، دھرنے دیں یا انقلاب برپا کریں لیکن موسم کا خیال نہ کرکے یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ بہت زیادہ جلدی ہے ۔
تازہ ترین