• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کئی سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے اور وزیراعظم نواز شریف کا یہ کہنا بجا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بے مثال قربانیوں، پوری قوم کے غیر متزلزل عزم اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سعی مسلسل سے انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر ملک سے بھاگ رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک میں انتہا پسندانہ نظریات کی مکمل طور پر بیخ کنی نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے کونے کھدروں میں چھپے ہوئے شدت پسند اب بھی اپنی شرپسندانہ کارروائیوں کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تحت سیکورٹی اداروں کے چھاپوں کے دوران ان میں سے بعض کے پکڑے جانے اور ان کے خفیہ ٹھکانوں سے بھاری تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود اور خود کش آلات برآمد ہونے کی اطلاعات روز مرہ کا معمول ہیں۔ اسلام آباد میں ملک کی داخلی سلامتی کی صورت حال اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے مختلف پہلوئوں پر غور و خوض کے لئے ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نےدرست کہا ہے کہ انتہا پسند نظریات پوری دنیا کے لئے خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کے تحت ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں سکیورٹی کی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے جس کا پوری دنیا نے اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سکیورٹی اداروں کی ان کامیابیوں کو مربوط اور مشترکہ کوششوں کے ذریعے مستحکم بنا کر ملک کو ہر نسل اور ہر مذہب کے لئے محفوظ بنایا جائے گا تاکہ یہاں ہر شخص مضبوط اور خوشحال پاکستان کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکے۔ وزیراعظم نے دہشت گردوں کے خلاف صوبوں کی مدد کا لائحہ عمل واضح کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کو وفاقی ایجنسیوں کے ذریعے موثر رابطے اور خفیہ معلومات کے تبادلے سے انسداد دہشت گردی کے بارے میں ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی، وزیراعظم کی علالت کے سبب قدر ے طویل وقفے کے بعد اس نوعیت کا یہ پہلا اجلاس تھا جو ان کی صدارت میں ہوا۔ اس میں وزیر خزانہ، وزیر داخلہ، مشیر قومی سلامتی اور آئی ایس آئی اور آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل بھی شریک ہوئے۔ چند روز بعد اسی سلسلے میں وزیراعظم اور آرمی چیف کی براہ راست ملاقات بھی متوقع ہےجہاں تک عملی محاذ پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلح افواج اور دوسرے سیکورٹی اداروں اورایجنسیوں کی کارروائیوں ، قربانیوں اور کامیابیوں کا تعلق ہے وہ ہر شخص پر روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ عساکر پاکستان نے دو سال کے مختصر عرصے میں شمالی وزیرستان اور دوسرے ملحقہ علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر کے وہ کام کر دکھایا جو افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج افغان فورسز کے ساتھ مل کر جدید ترین ہتھیاروں اور ڈرون طیاروں کی مدد سے دو عشروں میں بھی نہیں کر سکیں۔ تاہم دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اس کے پیچھے کارفرما انتہا پسندانہ سوچ اور نظریے کی شکست کے بغیر ممکن نہیں۔ محض شدت پسندوں کو مارنے سے شدت پسندی ختم نہیں ہو سکتی۔ عالمی را ئے عامہ انتہا پسندانہ نظریات کی قائل نہیں۔ پاکستان میں بھی ایک محدود طبقہ ہی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے لیکن وہ دوسروں پر زبردستی اپنے عقائد مسلط کرنا چاہتا ہے جس سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔ ایسے عناصر کو راہ راست پر لانے کے لئے اولاًآئین اور قانون کی پاسداری یقینی بنائی جانی چاہئے۔ دوسرے، جمہوریت اور جمہوری قدروں کو فروغ دینا چاہیئے اقلیتوں سمیت ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے ، تیسرے، انتہا پسندانہ نظریات جو بعض مخصوص اداروں کے نصاب کا حصہ ہیں، کی تدریس تبلیغ اور تشہیر روکی جانی چاہیئے اور علماء و مشائخ کی مشاورت سے ان کا سدباب کرنا چاہئے۔ چوتھے، دہشت گردوں کو راہ راست پر لانے کے لئے عملی کارروائی ناگزیر ہو تو وہ بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیئے۔ حکومت کو اس سلسلے میں واضح لائحہ عمل اپنانا چاہئے تاکہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات دونوں کا خاتمہ ہو سکے۔
تازہ ترین