• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی فوج کے کیپٹن ہمایوں خان عراق میں سڑک کے کنارے نصب بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اُن کے والد، خضر خان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک جلسے میں اپنے بیٹے کی ہلاکت کو یاد کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ نے اپنے وطن کے لئے کچھ بھی قربان نہیں کیا، اور غالباً اُنھوں نے امریکی آئین بھی نہیں پڑھا۔ اس جملے نے سامعین میں گویا بجلی سی بھر دی۔ سی این این سے بات کرتے ہوئے خضر خان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’’سیاہ روح ‘‘ رکھتے ہیں، چنانچہ وہ اس ’’خوبصورت ملک ‘‘ کی قیادت کے لئے موزوں نہیں۔
وطن کی خاطر ہلاک ہونے والے ایک فوجی کے والد ، خضر خان کا دکھ قابل ِفہم ، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اُن کے غصے کا رخ ریپبلکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار، ٹرمپ، کی طرف کیوں ہے ؟ٹرمپ کا عراق جنگ سے کیا تعلق، بلکہ اُنھوں نے اُس کی حمایت میں ایک کبھی لفظ تک نہیں کہا۔ عراق جنگ کی بنیاد ایک عقربی غلطی پر تھی۔ اگر تمام مضمرات اور عوامل کو ذہن میں نہ رکھا جائے تو درست جواز پر لڑی جانے والی جنگوں میں بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں، مگر عراق جنگ مکمل طور پر ایک شیطانی کارروائی تھی، اس کی بنیاد جھوٹ پر تھی اور اسے چھیڑنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے نیوکانزجنگجوئوں کا ٹولہ مشرق ِوسطیٰ کے نقشے کی تشکیل ِ نو چاہتا تھا۔ اس کا مقصد وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش نہیں تھی، یہ صرف ایک بہانہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ عراق کے پاس ایسے ہتھیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ جنگ پر تلے ہوئے تھے، اورپھر اُن کا خیال تھا کہ چونکہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے ، کوئی بھی اسے چیلنج نہیں کر سکتا ، اس لئے وہ عراق پر چڑھ دوڑے۔اُنہیں یقین تھا کہ اُنہیں اس کے کوئی نتائج نہیں بھگتنے پڑیں گے ۔
تاہم حالات نے بتایا کہ اس کے سنگین نتائج نکلے۔صرف عراق کے لئے نہیں، جہاں بے پناہ ہلاکتیں ہوئیں، جس کے معاشرے کی بنیادوں کو تباہ کردیا گیا، لاکھوں شہری دیگرعلاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ، تو امریکہ کے بھی 4,500 فوجی ہلاک ہوئے، اور اُن میں کیپٹن ہمایوں خان بھی تھے ۔ اس کے علاوہ بہت سے سروس مین زخمی، ممکن ہے زندگی بھرکے لئے معذور ہوئے ۔بہت سے دوسرے شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئے ۔ ایک ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ وسائل ضائع ہوگئے ۔ اس تمام ہوشربا نقصان کا کوئی مقصدتھا نہ وجہ۔ عراق جنگ کی ادا کردہ صرف یہی قیمت نہ تھی۔ جنگ اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی مزاحمت نے اُس عفریت کو جنم دیا جسے آج مغرب مذہبی انتہا پسندی قرار دیتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ، ایک قسم کی انتہا پسندی نے دوسری قسم کی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ فوج کشی امریکی انتہا پسندی تھی، اس کے نتیجے میں عراق میں القاعدہ ابھرآئی۔ اس سے پہلے وہاں القاعدہ کا وجود نہ تھا۔ اس کے بعد اُس خونی بلانے سراٹھایا جسے دنیا آج داعش کے نام سے جانتی ہے ۔ داعش نے عراق کی کٹھالی سے جنم لیا۔ جنوبی عراق کا کیمپ بوکا(Camp Bucca) اس کی نرسری تھی۔ اس کیمپ میں اس کے زیادہ تر بانی رہنما ئوں، جیسا کہ نام نہاد خلیفہ، ابوبکر البغدادی ، کو رکھا گیا تھا۔ یہ کیمپ ایک نام نہادجہادی یونیورسٹی ثابت ہواجہاں اُنھوں نے اپنے نظریات اور تصورات کو مہمیز دیتے ہوئے ایک ایسا اشتراک پیدا کیا جو آگے چل کر خلافت کا روپ دھارنے والا تھا۔
لیکن اگر ہم عراق جنگ کے پس ِ منظر اور اس کے نتائج کو سامنے رکھیں تو کیا داعش کے حقیقی خالق وہ نہیں جنھوں نے عراق جنگ شروع کی، جیسا کہ ڈک چینی، رمزفیلڈ اور ولف وٹز(Wolfowitz) ؟آج دنیا جس مذہبی بنیادپرستی کا سامنا کررہی ہے ، کیا اس کا آغاز ان ماہرین کی کلاکاری(عراق جنگ) سے نہیں ہوا تھا؟تو یہ بات طے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اس تمام معاملے میںکوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ہیلری کلنٹن کا یقیناً کردار تھا۔ بطور سینیٹر، اُنھوں نے عراق جنگ پر قرارداد کی حمایت کی تھی۔ اس وقت کچھ سینیٹرز، جیسا کہ ہیری بائرڈ نے قرار داد کے خلاف جذباتی تقریر کی تھی۔ سینیٹر باراک اوباما نے بھی اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم ہیلری کلنٹن امریکی میڈیا کی طرح جنگی جذبات کی ہوا کے رخ چلتی دکھائی دیں۔
تو آج، اگرچہ میں خضر خان سے اُن کے بیٹے کی ہلاکت، چلیں آپ شہادت کہہ لیں، پر ہمدردی محسوس کرتا ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اُن کے غصے کی سمت درست نہیں ۔ ٹرمپ پر برسنے کی بجائے اُنہیں مس کلنٹن کو مورد ِ الزام ٹھہرانا چاہئے تھا کہ وہ صورت ِحال کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے اُس الائوکو بھڑکانے میں شامل ہوگئیں جس نے ہماری دنیا تاریک کردی۔ آپ کو سینڈی شی ہان یاد ہوں گی؟ اُس کا بیٹا Casey Sheehan عراق جنگ میں ہلاک ہوگیا تھا۔ سینڈی شی ہان نے ٹیکساس میں صدر بش کے فارم کے سامنے عارضی احتجاجی کیمپ لگا لیا تھا۔ اُس کی غصے کی سمت درست تھی کیونکہ صدر بش ہی جنگ کے ذمہ دار تھے ۔ چنانچہ مس کلنٹن عراق جنگ کے حوالے سے غلطی پرتھیں۔ اندازے کی غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے لیکن ایک مرتبہ پھر اُنھوں نے بطور سیکرٹری آف اسٹیٹ لیبیا کے بارے میں غلط فیصلہ کرڈالا۔ صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کا سب سے غلط فیصلہ لیبیا کے معمر قذافی کو ہٹانے کے لئے کی جانے والی کارروائی تھی۔ اس کے نتیجے میں لیبیا میں جمہوریت کیا آنی تھی، وہاں افراتفری پھیل گئی اور وہ پرسکون ریاست داعش کے لئے ایک محفوظ جنت بن گئی ۔ بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں امریکی سفارت کار ہلاک ہوئے کیونکہ قذافی اور ان کی حکومت کی تباہی کے بعد یہاں دہشت گرداپنا کھیل کھیلنے کے لئے آزاد تھے ۔
عراق جنگ پر قرار داد کی حمایت کے لئے ڈالے گئے ووٹ کو آپ تھیوری کے اعتبار سے اندازے کی غلطی کہہ کر نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن لیبیا پر مس کلنٹن بطور سیکرٹری آف اسٹیٹ کلیدی کردار ادا کررہی تھیں۔ موجودہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران کہا جارہا ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نسبت عوامی عہدوں کا زیادہ تجربہ رکھتی ہیں۔ کئی کی گئی فاش غلطیوں اور ان کے ہولناک نتائج کو دیکھتے ہوئے اس مبینہ تجربے کی کیا اہمیت ہے ؟اور صدر اوباما نے شام پر غلطی کی، اور جب وہاں شورش پھیلی تو امریکہ نے بشار الاسد کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔آپ کا اندازہ درست ہے کہ ایک مرتبہ پھر سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن ہی تھیں۔ یقینا شامی صدر بھی کوئی فرشتے نہیں ، اُنھوں نے جمہوریت کے حامیوں کو کچلنے کے لئے وحشیانہ قوت استعمال کی، لیکن اُن کے استعفے کا مطالبہ کرتے اور قطر اور اہم عرب ریاستوں ، جو خود اسد کی مخالف ہیں ، کی حمایت کرتے ہوئے اوباما انتظامیہ نے شام کو ایسے بحران سے دوچار کردیا جس میں اُن کے پاس نہ کوئی متبادل تھا اور نہ کوئی حل۔
جارج بش نے عراق، ایران اور شمالی کوریا کے لئے ’’شیطانی طاقتوں کے محور‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، لیکن ہم دنیا میں جس شیطانی طاقت، انتہا پسندی، کی کارفرمائی دیکھ رہے ہیں، وہ ان ریاستوں سے شروع نہیں ہوئی۔ اس کا محور امریکہ کی عراق، لیبیا اور شام کی حماقت ہے ۔اسی شیطانی محور سے داعش نے جنم لیا، اسی کی وجہ سے یورپ کو متاثر کرنے والا مہاجرین کا بحران پیدا ہوا ۔ امریکی تقریر نویس بہت ماہر ہیں۔ وہ زمین وآسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں۔ مشیل اوباما نے ڈیموکریٹک کنونشن میں بہت متاثر کن تقریر کی۔ ہیلری کلنٹن کی تقریر بھی اچھی تھی لیکن اُن کا ریکارڈ اُن کے ابلاغ سے لگا نہیں کھاتا۔ اس دوران ٹرمپ ، جسے ’’شیطانی روح‘‘ قرار دیا گیا ہے، امریکی خارجہ پالیسی پر زیادہ حقیقت پسندانہ موقف رکھتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ دوسروں کو لیکچر دینے کا حق نہیں رکھتا ، اسے پہلے اپنا گھر صاف کرنا چاہئے ۔ شاید ہی کوئی اور امریکی رہنما یہ بات کہنے کی جرات رکھتا ہو۔۔۔’’جب دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ میں کتنی خرابیاں ہیں تو ہم شہری آزادیوں کی بات شروع کردیتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم کوئی اچھا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔‘‘اس دوران اُنھوں نے طیب اردوان کی تعریف کی کہ اُنھوں نے کس طرح حالیہ فوجی بغاوت کو کچل دیا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بشار الاسد برے ہیں لیکن حقیقی خطرہ داعش ہے ۔ زیادہ تر امریکی رہنمائوں کے برعکس ٹرمپ ولادیمر پیوٹن کو شیطانی قوت کے طور پر نہیں دیکھتے ۔
یہ درست ہے کہ ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے، غیر قانونی تارکین وطن کو اُٹھا کر باہر پھینکنے اور مسلمانوں کو امریکہ سے باہر رکھنے جیسی متنازع باتیں کی ہیں، لیکن وہ بہت سے دیگر موضوعات پراکثر امریکی سیاست دانوں سے زیادہ واضح اور معقول پالیسی رکھتے ہیں۔ اور وہ برنی سندرس کے بعد صرف دوسرے امریکی ہیں جو انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی لابی کی طاقت سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
تازہ ترین