• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب علامہ نے درست فرمایا کہ ’’آئین جوان مرداں حق گوئی و بے باکی‘‘وطن عزیز گزشتہ چند سالوں سے جس آزمائش سے گزر رہا ہے اس میں پاکستانیوں کے اعصاب پر کیا اثر ڈالنا تھا کہ یہ جری اور نڈر قوم کسی سے ڈرنے والی نہیں ۔’’سو بار کرچکا تو امتحان ہمارا‘‘۔
میں نے جب یہ خبر سنی کہ اب کی بار کراچی ائیرپورٹ پر کچھ عاقبت نا اندیش ہمارے زور بازو کو آزمانا چاہتے ہیں مگر حسب سابق انہوں نے منہ کی کھائی۔ یہ حق ہے کہ ایئرپورٹ سیکورٹی فورس، رینجرز ،پولیس اور فوج سب ایک ہی جذبے سے سرشار ہو کر ان دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ بزدل دہشت گرد رات کی تاریکی میں کراچی کے بین الاقوامی ہوائی مستقر پر شب خون مارنے آئے مگر منہ کی کھانی پڑی۔ان کے پاس سے برآمد ہونے والا بارود ،گولی ،سکہ یہاں تک کہ ہندوستانی ساختہ ادویات ان کے مائی باپ کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ بزدل پاکستانیوں کے زور بازو آزمانے آئے وہ بھی ہندوستانیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر۔کیا کیجئے ہماری آلو، پیاز ڈپلومیسی کااور جناب وزیر اعظم کی تازہ ترین ہندوستان یاترا کی خوب مٹی پلید ہوئی۔نہ جانے ہماری وزارت داخلہ کے مطلق العنان وزیر باتدبیر کہاں سو رہے تھےکہ وزیر اعظم بھی ان کو نہ جگا سکے۔کہا جاتا ہے کہ گرین لائن سے لے کر ذاتی ملازم کے فون تک جناب وزیر 18گھنٹوں تک وزیراعظم کو دستیاب نہیں تھے۔ان کی اس بے ساختہ سادگی پر کم از کم میں تو قربان ہونے پر تیار نہیں،جو برملا اسی طرح کے ایک قومی سانحے پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ ’’مجھے تو صبح میرے عملے نے بتایا کہ رات فلاں قیامت گزر گئی‘‘ اب تو ان کے دوست جناب وزیر اعظم کے بھائی نے بھی ان سے معذرت کی ہے کہ آپ کی کارکردگی مسلسل سوالیہ نشان ہے۔
جناب وزیر اعظم میں تو بارہا آپ سے ملتمس ہوا کہ آپ اچھی ٹیم منتخب فرمالیں اور آپ نے عملاً ایسا کیا بھی لیکن اس معاملے میں اس قدر بے بسی کی کیا وجہ ہے؟خدمت آپ کی،اقتدار آپ کا،فی الوقت تو سکّہ آپ کا چلتا ہے پھر یہ بے بسی کیوں؟قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ خاموشی کس قیامت کا پیش خیمہ ہے۔اے بھائی دانشمند جو اسلام کے ازلی پیغام،امن محبت کو نہ سمجھے ایسے مردان ناتواں تو وہی زبان سمجھتے ہیں ۔جو مجاہد کی زبان ہوتی ہے۔قوم ،ملک کے بدترین دشمن کسی رعایت کے حق دار نہیں۔ معصوم اہلکار جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے والے امداد کے لئے پکارتے رہے مگر حکمران اپنے محلوں میں جون کی تمازت سے دور محو آرام تھے۔ان تک مظلوموں کی آہ نہ پہنچی اور جب وہ مہربان ہوئے تو وہ مظلوم رب ذوالجلال کے حضور پہنچ گئے۔میری قوم سوال پوچھتی ہے کہ ان بے گناہوں کا خون کس کے سر ہے؟ حکمران ان کے کاسہ لیس چرب زباں، عیار ، گماشتے کبھی یہ نہیں سمجھیں گے کہ ملک کی سالمیت، حرص، سیاست سے مبرا ہوتی ہے۔ ملک کی سالمیت، عزت، حرمت اور تقدس ہر چیز پر فائق ہے۔اس کو ترجیح ہے اور آپ نے کبھی کسی ایسے سانحے سے سبق نہیں سیکھا۔ بے کار کی جملے بازی افسوس کس کام کا۔حکمرانوں کو قوم نے اگر منتخب کیا تو اس کی کیا اتنی کڑی سزا ہو گی کہ وزیراعظم وزیرداخلہ کو کراچی ارسال کریں اور آکر رینجرز سے بریفنگ لیں۔جو بات بھی کی خدا کی قسم لاجواب کی۔ جب دہشت گردوں سے مذاکرات شروع ہوئے تو کیا آپ نے اپنے حواریوں کو صرف اس لئے مذاکرات کے لئے بھیجا کہ نشستند ،گفتند،برخاستند سے آگے بات نہ بڑھے۔جو ہمارے جری جوانوں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں ،معصوم بچوں ،خواتین اور عام شہریوں سب کو جب چاہیں گولیوں سے بھون ڈالیں ۔ان کے مکروہ افعال ،بارود کی بو اور دھواں کیا معنی رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس اقتدار ہے تو حکمت کیوں نہیں؟
کراچی کے ارباب و اختیار سانحہ کراچی پر جواز پیش کرتے ہیں کہ ائیرپورٹ سول ایوی ایشن کے ماتحت ہے اور سول ایوی ایشن وفاقی ادارہ ہے اس لئے اس سانحہ کی اصل ذمہ داری سول ایوی ایشن پر عائد ہوتی ہے۔میں پوچھتا تو شاہ جی سے جو ہر سوال کا جواب ہاں جی سے دیتے ہیں کہ کیا قائم علی شاہ اپنے صوبے کے چیف ایگزیکٹو نہیں ہیں۔جب ایسے سانحے ہوتے ہیں تو کوئی صوبائی یا وفاقی بندش نہیں رہتی بلکہ ایسی صورت حال میں سب کو مل کر نپٹنا ہوتا ہے۔قائم علی شاہ صاحب وزیر اعلیٰ سندھ ہیں۔ عوام آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے آپ عوام کے حقوق ،جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
خدارا آپ اپنی جماعت کے ماضی سے سبق سیکھیں۔ وہ جماعت جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ جس کا ووٹر آج بھی ملک کے ہر کونے کھدرے میں موجود ہے مگر صرف انہی لاپروائیوں کی وجہ سے پی پی پی ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ آپ سنبھل جائیں ۔
ملکی سالمیت سے بڑھ کر کیا اہم ہے ۔ہمارا ازلی دشمن ہمیں نقصان پہنچانے سے کبھی نہیں چوکتا۔تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی اسلحہ ،ادویات اور دیگر اشیاء کی موجودگی کے باوجود ہم ہندوستان کو اس کا مکروہ چہرہ بھی دکھانے کو تیار نہیں۔ کم ازکم جناب وزیراعظم اپنی چٹھی میں ہی مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیتے۔
یہ بھی درست ہے کہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ہمسایہ ممالک کے معاملات میں دخل اندازی بند کردیں ۔جب افغانستان کے داخلی معاملات میں ہم ٹانگ اڑائیں گے اور پشت پناہی کریں گے تو اس کا جواب کراچی جیسے حملوں کی صورت میں ہی ملے گا۔کاش ہمارے اداروں کو یہ بات سمجھ آجائے۔امریکہ تو بالآخر افغانستان سے چلا جائے گا مگر دہشت گردی کی جنگ طویل چلے گی۔ قومی سلامتی کے اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ آپ صرف اپنے ملک کو سنبھال لیں۔ بھارت یا افغانستان میں کارروائیوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ۔میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اگر ہماری پالیسی یہ ہوگی تو ہم بہتری کی طرف سفر جاری رکھ سکیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کے لئے بھی حالات کوئی ایسے سازگار نہیں ہیں کہ وہ آرام و سکون سے ملک کا نظام و انصرام چلائیں۔ اس لئے میری قومی اداروں سے اپیل ہے کہ اپنے چیف ایگزیکٹو کو کمزور کرنے یا ان کی مشکلات میں اضافے کرنے کے بجائے وطن عزیز کے بہتر مستقبل کی خاطر میاں نواز شریف کے لئے راہ ہموار کریں۔ اگر وزیراعظم مضبوط ہوگا تو بالواسطہ ملک مضبوط ہوگا۔باقی رہا ہمسایہ ملک کے مسخ کردار کا سوال تو یاد رہے کہ یہ خاموشی کیوں ؟کیوں اگر سجاتا سنگھ آداب مہمان نوازی سے بےبہرہ ہوکر پاکستان پر الزام تراشی کرتی ہے تو ہمارے دفتر خارجہ کے بابو کس مرض کی دوا ہیں۔کیوں بھارت کو اس کی زبان میں جواب نہیں دیتے۔یہ بات تمام دنیا کو واشگاف الفاظ میں بتانی چاہئے کہ غیرت اور حمیت کا یہی شیوہ ہے۔
سانحہ کراچی ہمیں خبردار اور چوکس رہنے کا سبق دے رہا ہے ۔ایسے شیاطین کو آہنی ہاتھوں سے نیست و نابود کرنا اہم ملی فریضہ ہے۔کاش ہمارے حکمران حجاج بن یوسف کی وہ صدا سن لیں جو اس نے بحری قزاقوں کے نرغے میں آئی مسلمان بہن کی صدا پر لبیک کہا تھا۔میری قوم کی بہنیں، مائیں اور بیٹیاں دہائی دے رہی تھیں۔اپنے پیاروں کو دیکھنے کے لئے بے تاب جن میں سے بہت سے بارود، دھوئیں اور غبار کے ان مرغولوں میں چھپ گئے۔ حکمرانوں! حیف صد حیف۔
تازہ ترین