• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خُدا کے پاک پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا ’’ تم قسطنطنیہ فتح کرو گے ، اِس کو فتح کرنے والی سپاہ اورکمانڈر برتر ہو گا ‘‘ ۔یہ سعادت سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد فاتح کے حصے میں آئی ۔ طویل عرصے سے عیسائیوں کے قبضے میں قسطنطنیہ کوسلطان نے صرف ایک ماہ 23 دن ( 6 اپریل تا 29 مئی 1453 )کے جہاد کے ذریعے فتح کرکے وہاں اسلام کا بول بالا کیا اسی لئے ، اس شہر کا نام ’’ اسلام بول ‘‘ رکھا گیا ، مگر بعد ازاں تبدیل کر کے استنبول رکھ دیا گیا۔آج جب مسلمان ہر طرف سے آزمائش کا شکار ہیں تو زبوں حالی کے اس دور میں استنبول سے آنیوالی خبریں ہوا کا تازہ جھونکا ہیں ، ترکی کی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ نے نعروں نہیں عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ، ترکی میں پہلے نجم الدین اربکان مسلمانوں کی پہچان بنے۔طویل جدوجہد کے بعد وزارت عظمیٰ تک پہنچے مگر فوج نے کچھ ہی عرصہ بعد انہیں اقتدار سے باہر کردیا۔ اربکان کے دور میں طیب اردگان استنبول کے میئربنے اور انہوں نے شہر کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ استنبول دنیا کے چند بڑے شہروں میں شامل ، مگر صفائی ستھرائی اور خوبصورتی کے اعتبار سے دنیا کا کوئی بڑا شہر اس کے مماثل نہیں ۔ استنبول کی خوبصورتی اور دنیا میں اسے ممتاز مقام دلوانے میں ’’میئر طیب اردگان‘‘ کا کردار تھا۔
2001 ء میں انہوں نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی قائم کی اور ایک مختصر عرصے کی جدوجہد کے بعد 2002 ء کے انتخابات میں دو تہائی نشستیں حاصل کیں دوسرے انتخاب میں 41فیصد اور2011ء میں تیسرے انتخابات میں کامیابی کا گراف مزید بلند ہو گیا اور یہ تناسب49فیصد تک چلا گیا ۔350کے ایوان میں اس وقت ان کی پارٹی کے327ممبران ہیں ۔ طیب نے اقتدار سنبھالا تو ترکی کی فی کس اوسط آمدنی تین ہزار امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی۔طیب کی بیدار مغزی ، سادہ طرز زندگی اور شفافیت کے سبب ورلڈ بنک کی4جون 2014ء کی رپورٹ کے مطابق فی کس آمدن 15578 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔طیب اپنے رخشندہ ماضی کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو ایک بار پھر بلندی پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں جب یو ٹیوب پر پابندی لگائی تو اہل مغرب نے انہیں آمر اور انسانی حقوق کا قاتل تک قرار دیدیا۔ گزشتہ سال تقسیم اسکوائر کے واقعے کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا گیا۔ تقسیم پلان میں ناکامی پرطیب اردگان پر’’ منی اسکینڈل ‘‘ قائم کر دیا گیا اور انکے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ پھیلانے میں دن رات ایک کر دئیے گئے ۔ لیکن طیب نے قبل از وقت لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرا کے 46 فیصد ووٹ حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ترکی کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔
ان کے مقابلے میں بڑی اپوزیشن جماعت CHS صرف23فیصد ووٹ حاصل کر سکی ۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے طیب نے کہا کہ یہ کامیابی کا دن ہے اور ہم نے نئے ترکی کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ امریکی اور مغربی قوتیں اپنے مہروں کے ذریعے خدمت اور تعلیم کے نام پر ایسے نیٹ ورک قائم کرا دیتی ہیں جن کو وقت آنے پر ان ملکوں میں UP-SET کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح کی بہترین منظم قوت ایک معروف شخصیت کے اردگرد جمع ہے اور ترکی میں یہ ’’ فریضہ‘‘ایسی ہی ایک شخصیت کے ’’ ذمے ‘‘ لگایا گیا ہے جن کے نہ صرف ترکی بلکہ باہر کے ممالک میں بھی تعلیم کے نام پر بڑے بڑے ادارے قائم ہیں ان کی پہچان مذہبی ا سکالر اور مبلغ کی بھی ہے وہ اردگان کے اتحادی بھی تھے ۔
مگر طیب کے خلاف حال ہی میں اٹھنے والے طوفان کے پیچھے جو قوت سب سے زیادہ منظم تھی، وہ انہی کی تھی ۔ شروع میں یہ کام خفیہ انداز میں کیا گیا مگر جب جادو سر چڑھ کر بولا تو وال اسٹریٹ جنرل ، بی بی سی اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کو گولن نے کھل کر بتایا کہ اب ان کا کردار حزب اختلاف کے رہنما کا سا ہو گا ۔ وہ اصلاح ترکی میں چاہتے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی اس کی طرح ڈوریاں باہر سےہلتی نظر آتی ہیں ۔ ترک حکومت کو درپیش چیلنج پر بیرونی دنیا میں ان کے بہی خواہ تشویش میں مبتلا تھے جن میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سےان میں کمی تو ضرور آئی ہے مگر یہ تشویش ختم نہ ہو سکی ہے۔ راقم کی گزشتہ ماہ کے دورہ ترکی کے دوران جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں ان کا اظہار یہ ہے کہ اردگان ’’ خدمت بحران ‘‘ پر قابو پا چکے ہیں اور اگست میں ہونے والے پہلے براہ راست صدارتی انتخابات میں طیب پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دینگے۔
ایک انٹرویو میں ترکی کے وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے مشکلات کا نہیں بلکہ بغاوت کا سامنا تھا جس پر الحمدللہ میں قابو پا چکا ہوں ہم نے جو عہد کیا تھا وہ نبھا رہے ہیں اور سرکاری خزانے سے ایک پائی کی بھی بددیانتی نہیں ہونے دینگے ۔ انہوں نے کہا جو 230GDP بلین ڈالر تھی وہ اب 800بلین ڈالر ہے ۔ برآمدات کا حجم 36 بلین سے بڑھ کر 152 بلین ڈالر ہو چکاہے ۔ GDP واجبات 73 فیصد سے کم ہو کر 36فیصد رہ گئے ہیں کیا بددیانت حکومت یہ کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے ؟۔ترکی کے سینئر صحافیوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم ملکی بحرانوں سے نکل چکے ہیں اور اگست میں صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد طیب اردگان نہ صرف ترکی بلکہ مسلمان اُمت کے ایک مدبر رہنما کا کردار ادا کرینگے ۔ ترک صحافی پاکستان اور ترک حکومت کے معاہدات اور دوستانہ تعلقات پر خوش نظر آ رہے تھے ایک صحافی نے تو اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ میاں نواز شریف اس آزادی سے لاہور میں نہیں گھومتے جیسے وہ استنبول میں گھومتے گھومتے ’’ کبابچی ‘‘ کے ہاں کباب کھانے چلے جاتے ہیں ۔ ترکی والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ترقی کی منزل کا سفر اختیار کرنے کیلئے میاں صاحب کا پہلاہدف کوئی اور نہیں صرف معیشت کی بہتری ہونا چاہئے ۔ مگر ملک میں انہیں ایسا صائب مشورہ دینے والے نظر نہیں آتے کاش ہمارے ہاں بھی شاگردان رشید کے ساتھ ساتھ کوئی ایسارجل رشید بھی ہوتا ؟۔
تازہ ترین