• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر عامر عزیز نے زخموں سے چور، شکستہ ہاتھ پائوں، کمر اور سینے کی ہڈیوں والے درد سے کراہتےاپنے انجام سے خوفزدہ مریضوں کو ٹوٹی سڑکوں، ناہموار پگڈنڈیوں اورکھڈوں، کھائیوں پر اچھلتی بیل گاڑیوں ،کھوتا ریڑھیوں، چنگ چی رکشوں اور ویگنوں میں پڑا سپائن سنٹر کی طرف آتا دکھایا تو بہت سوں کی ا ٓنکھیں نم ناک ہوگئیں۔
غریبوں کی جو سواریاں اور ان کے زیر استعمال راستے صحت مند انسان کا انجر پنجر ہلا دیتی ہیں ان پر سفر کرنے والے مریضوں کا کیا حال ہوتا ہے بالخصوص جن کی کمر ٹوٹی ہو، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوچکی ہوں یا جو کسی مہلک و موذی مرض میں مبتلا ایک سانس لینے کے بعد دوسری سانس لینے کی امید نہ کرتا ہو، اندازہ ہر ایک کرسکتا ہے مگر جانتا صرف وہی ہے جس پر بیتے۔
دعوے اپنی جگہ مگر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرح پنجاب میں طبی سہولتوں کا حال پتلا ہے۔ دو تین بڑے شہروں کو چھوڑ کر ہر جگہ طبی سہولتوں کا مستحق صرف وہی ہے جس کی جیب اجازت دیتی ہے یا تگڑی سفارش رکھتا ہے۔ عام آدمی کا حال ڈھور ڈنگروں سے مختلف نہیں جو کسی حادثے کا شکار ہوں یا مہلک بیماری سے دو چار، خود ساختہ جراحوں، ہڈی جوڑ ماہرین، ناتجربہ کار حکیموں، عطائی ڈاکٹروں اور جعلی عاملوں کے سوا ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی ایمبولینس کی سہولت محدود ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے 1122 کی صورت میں ایک اچھی سہولت عوام کو فراہم کی جو اب بھی دستیاب ہے مگر اس کا دائرہ دیہاتوں تک وسیع ہوا نہ 1122 سے وابستہ اہلکاروں کی مراعات اور سہولتوں میں اضافہ۔ مجبوراً لوگ اپنے مریضوں، زخمیوں کو ان سواریوں پر لاد کر ہسپتالوں تک پہنچاتے ہیں جو مہذب دنیا میں سازوسامان کی نقل و حمل کے لئے بھی استعمال کرنا ممنوع ہیں۔ انسداد بے رحمی حیوانات کا محکمہ اجازت دیتا ہے نہ لوگ اپنے سازو سامان کی توڑ پھوڑ کا رسک لیتے ہیں، مگر پاکستان میں یہ مریض کو ہسپتالوں تک لانے کا آسان ذریعہ ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 95 فیصد آبادی لائف کا تحفظ چاہتی ہے ہمارے حکمران اور فیصلہ سازوں کی ترجیح اول لائف سٹائل ہے، عام آدمی کو بالخصوص جو شہروں سے دور دو وقت کی روٹی، صاف پانی اور ڈسپرین کی گولی کو ترستے ہیں ،گدھا گاڑی، چنگ چی رکشہ اور وین دستیاب نہیں، مل جائے تو غنیمت سمجھتے ہیں مگر اسلام آباد، کراچی، پشاور اور لاہور کے بادشاہ اور شہزادے انہیں زبردستی میٹرو بس ،بلٹ ٹرین اور موٹر وے کی طرف دھکیلتے ہیں، انہیں سکول، ہسپتال، صحت مرکز، استاد، مستند ڈاکٹر اور دو ائی فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں جو ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے۔
ثبوت اس کا یہ ہے کہ کسی حکومت نے آج تک ہر بستی اور گائوں میں ایک کمرے کا سکول، ایک ڈاکٹر پرمشتمل صحت مرکز اور اس تک رسائی کے لئے ا یمبولینس کی سہولت فراہم کرنا تو درکنار اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز دینے کے بجائے یہ کثیر رقم مہلک بیماریوں کے خاتمے اور یہ بیماریاں پیدا کرنے والے آلودہ پانی کی جگہ صاف پانی کی فراہمی کے لئے وقف کرنے کی منصوبہ بندی اب ہوئی نہ آئندہ ہوگی، البتہ میگا پراجیکٹس کے لئے اربوں کھربوں مختص ہیں۔
کینسر کا مرض دیگر امراض کی طرح روز بروز بڑھ رہا ہے، یہ اذیت ناک مرض ،مریض کے علاوہ اس کے اہلخانہ کی زندگی بھی اجیرن کردیتا ہے مگر پنجاب بھر میں علاج معالجے کے لئے انمول ہے یا شوکت خانم ہسپتال جبکہ مریضوں کی تعداد پونے دو لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ حد یہ ہے کہ پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتالوں کی تعداد(سرکاری شعبے میں) 16 ہے مگر ان میں سے صرف چار میں ریگولر ٹیچرز کی تعداد صرف8 ہے، کنگ ایڈورڈ کالج میں ڈاکٹر شہریار کے بعد کوئی ریگولر پروفیسر تعینات نہیں ہوا۔ جنوبی پنجاب کے لئے نشتر ہسپتال غنیمت ہے مگر وہاں صرف اس شعبے کا ایک ڈاکٹر موجود ہے ۔ لوگ مہلک بیماریوں سے بچائو چاہتے ہیں اور اپنے پیاروں کا بہتر علاج معالجہ مگر حکمران انہیں میٹرو بس پر بٹھا کر اپنا شوق رعایا پروری پورا کرنے کے درپے ہیں۔
خدا بھلا کرے عبدالستار ایدھی ،عمران خان، ڈاکٹرادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر عامر عزیز، ڈاکٹر امجد ثاقب، حاجی انعا م الٰہی کوثر، ڈاکٹر شہریار اور دیگر سینکڑوں سوشل ورکرز کا جو اپنے اپنے طور پر غریب، بے وسیلہ اور انسانی ہمدردی کے مستحق لوگوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں جنہیں ریاست اور اس کے وسائل پر قابض حکمرانوں نے قطعی فراموش کردیا ہے۔
ڈاکٹر شہریار نے میو ہسپتال سے ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم ہسپتال کی طرز پر کینسر کیئر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر بنانے کا منصوبہ ترتیب دیا۔173 کنال اراضی خریدی ،ارادہ یہ ہے کہ ہسپتال کو وہ عوام کے عطیات ،زکوۃ ، صدقات سے بنائیں گے مگر چلائیں گے اس انداز میں کہ ہر سال انہیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہ پڑیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ان سے تیس کروڑ روپے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو بیوروکریسی کی مہربانی سے تاحال پورا نہیں ہوا مگر مخیر حضرات ان کی بڑھ چڑ ھ کر مدد کررہے ہیں۔
ڈاکٹر عامر عزیز کا قائم کردہ گھر کی ہسپتال میں سپائن سنٹر پاکستان کا پہلا اور سٹیٹ آف دی آرٹ طبی مرکز ہے جہاں ہر مریض کا علاج وہ مفت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عامر عزیز کا رول ماڈل ڈاکٹر ادیب رضوی ہیں جو مریض سے ہرگز نہیں پوچھتے کہ وہ غریب ہے یا مالدار۔ اس ہسپتال میں روزانہ 16 آپریشن ہورہے ہیں اور وزیرستان، بلوچستان، روجھان اور بلتستان سے آنے والے مریض اپنے پائوں پر چل کر ہنسی خوشی گھروں کو لوٹتے ہیں۔
ہم سب کو سوچنا چاہئے کہ اگر معاشرے میں ڈاکٹر عامر عزیز، ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے مسیحا نہ ہوں، مخیر حضرات و خو انین اپنے عطیات ،زکوۃ، صدقات سے مستحق ، بے وسیلہ اور بے ا ٓسرا افراد کی دستگیری نہ کریں اور کسی نہ کسی سطح پر لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام نجی رفاعی ادارے نہ کررہے ہوں تو ہمارے فیصلہ ساز، منصوبہ ساز اور نمود و نمائش، شعبدے بازی، سرکاری وسائل پر آرام و آسائش کے رسیا حکمران، ان کے ہمنوا، وفادار، تابعدار بیوروکریٹس اس قوم اور معاشرے کا کیا حشر کریں۔ کس قدر بدقسمت ہے وہ قوم جس کے دو ہزار افراد کی حفاظت کے لئے ایک پولیس اہلکار دستیاب ہو مگر حکمران اشرافیہ کے ایک ایک فرد کے لئے دو ہزار کی نفری تعینات۔ ایلیٹ فورس رینجرز اور فوج کی کمک بھی۔
غریب کی کمر ٹوٹی ہو یا دل کی حرکت بے ترتیب ہسپتال پر پہنچے کے لئے بیل گاڑی، کھوتا ریڑھی اور زیادہ سے زیادہ چنگ چی رکشہ مگر امیر اور سرکاری خرچ پر پلنے والے خاندانوں کے لئے ائیر ایمبولینس ۔ یہ میٹرو بس، بلٹ ٹرین اور موٹر وے کے منصوبے نہ بنائیں تو کیا کریں۔ آخر چند شہروں کے عوام کو خوش بھی تو رکھنا ہے جو بے چارے نہیں جانتے کہ کس حال میں ہیں یاران وطن۔
تازہ ترین