• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #NRC (space) message & send to 8001
سفارت کاری خرگوش کی لاحاصل سبقت کے برعکس کچھوے کی رفتار سے چلنے والا ایک ایسا عمل ہے جو جلد بازی کے بجائے مقاصد اور اہداف کے حصول پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ ہمارے بعض حلقے ابھی سے نواز مودی ملاقات کو بے نتیجہ نمائشی سرگرمی اور فوٹو سیشن سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تحائف کے تبادلوں اور ایک دوسرے کو لکھے جانے والے خطوط پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ شکوہ اور ناراضی یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جو اپنے بھارتی ہم منصب کی حلف برداری کی تقریب میں دہلی گئے تھے وہاں انہوں نے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دوٹوک بات کیوں نہیں کی، سرکریک کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیوں نہیں سنایا اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کے تناظر میں نریندر مودی سے جنہوں نے محض 24 گھنٹے قبل وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا، احتجاج کیوں نہیں کیا۔ ہم جلد باز تو ہیں لیکن اہم اور حساس معاملات میں بھی نتائج کی توقع ایسے مشینی عمل کی مانند رکھتے ہیں جس طرح ’’A.T.M‘‘ میں کارڈ ڈال کر پیسے آنے کی‘‘۔دنیا بھر میں دو دشمن یا مشترکہ معاملات پر اختلافات رکھنے والے پڑوسی ممالک کے درمیان سفارت کاری کے پیچیدہ اور طویل عمل سے سفارتی تاریخ بھری پڑی ہے خود چین اور بھارت کے درمیان حل طلب تنازعات پر ماضی میں سفارت کاری کے حوالے سے جو عمل شروع ہوا تھا اور چواین لائی اور جواہر لال نہرو کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی تھی وہ کئی سال سے زیادہ عرصے پر محیط تھی لیکن ہم مصر ہیں کہ ملاقات کو تین ہفتے ہونے کو آئے ہیں لیکن کوئی ٹھوس پیشرفت سامنے نہیں آ رہی بس تحائف کے تبادلے اور خط و کتابت ہی ہو رہی ہے۔
ڈیئر پرائم منسٹر ’’میں آپ کے اور آپ کی حکومت کے ساتھ تشدد اور محاذ آرائی سے پاک ماحول میں باہمی رشتوں کے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ باہمی رشتوں پر ہمارے درمیان جو بات چیت ہوئی ہے اور اس میں نظریات کی جو مماثلت سامنے آئی ہے میں اس سے بہت خوش ہوں خاص طور پر اس بات سے کہ اگر بھارت اور پاکستان سے تعلقات امن دوستی اور تعاون کی بنیاد پر قائم ہوں تو ہمارے نوجوانوں اور پورے خطے کے لئے خوشحالی اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے‘‘۔ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ گجرات کے سابق وزیراعلیٰ نریندر مودی پاکستان کی قیادت اور عوام کے بارے میں ایسے خیالات کا بھی اظہار کر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ماضی میں پاکستان کو سبق سکھانے کی تنبیہ بالخصوص اپنی انتخابی مہم میں ہر موقع پر پاکستان کے لئے جارحانہ عزائم کا اعلان کرنے والے نریندر مودی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت بھی کریں گے اور کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعے پر پاکستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے معصوم لوگوں کی ہلاکتوں پر افسوس بھی۔ نریندر مودی نے اپنے ان خیالات اور جذبات کا اظہار بھارت کے وزیراعظم کی حیثیت سے کیا ہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے لئے یہ خیالات یقیناً اس لئے بھی ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند ہے کیونکہ یہ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا سرکاری بیان نہیں بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کے جذبات ہیں۔ ایک مخصوص سوچ کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم کے ان جذبات کو مصلحت اپنے منصب کے متقاضی طرز عمل یا پھر کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا ہے لیکن بظاہر ایسا کچھ نظر نہیں آتا کہ اس بیان یا ان خیالات کو بھارتی وزیراعظم کی مجبوری سے تعبیر کیا جائے۔
یہ درست ہے کہ اس مرتبہ بھی وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد بھارت سے خوشگوار تعلقات کی ابتدا وزیراعظم نواز شریف نے ہی کی لیکن یہ ماحول بنانے کا موقع بھارتی وزیر نے بھی فراہم کیا۔ پاک بھارت تعلقات ممبئی حملوں کے بعد جمود کا شکار تھے پھر لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی فضا کو خاصا الارمنگ بنا دیا تھا اور اس ماحول میں جب گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے بھارت کا وزیراعظم بننے کی خبروں کی تصدیق ہونے لگی تو پاکستان میں ان خبروں سے خاصی تشویش پائی جاتی تھی پھر پاکستان بھارت تعلقات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک خاص پس منظر بھی تھا۔ پاکستان میں ایک عام تاثر یہی تھا کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد اور افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کے برسراقتدار آنے کے بعد اگر بھارت میں نریندر مودی کی حکومت بنتی ہے تو پاکستان کے لئے خاصی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اپنے منصب کے حلف برداری کی تقریب میں نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان کو مدعو کر کے ایک مثبت پیشرفت کی جانب ایک چھوٹا سا قدم اٹھایا۔ ہرچند کہ اس موقع پر دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی پچاس منٹ دورانئے پر محیط ملاقات میں بظاہر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ بعض حلقوں نے اس ملاقات کو بھارت کی سفارتی چال بھی قرار دیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ میاں نواز شریف نریندر مودی کو مبارکباد دینے گئے تھے لیکن چارج شیٹ لے کر واپس آ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں مضبوط مینڈیٹ حاصل کرنے والی حکومتوں کے وزرائے اعظم کے مابین یہ ملاقات انتہائی اہم تھی جس میں ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں کے سربراہوں نے حل طلب معاملات پر بالمشافہ گفتگو کی۔
کسی بھی واقعہ‘ منظر یا معاملے کے بارے میں اگر پہلے سے ذہن بنے ہوں تو اس حوالے سے جب تک ٹھوس اور قابل اعتماد تبدیلی کے عملی شواہد سامنے نہ آ جائیں ان ذہنوں کو تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پاکستان سے تعلقات بڑھانے کے لئے اب تک جو بھی پیشرفت کی ہے اسے اعتماد کی نظروں سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اس پر تذبذب اور خدشات کا اظہار کیا گیا اور یہ صورت حال دونوں طرف ہی موجود ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی اور میاں نواز شریف نے شرکت کی ان کی طرف سے مودی کی والدہ کے لئے محبت کے اظہار کے طور پر ساڑھی بھیجی گئی تو دوسری طرف نواز شریف کی والدہ کے لئے شال کا تحفہ آیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت سے واپسی پر اپنے ہم منصب کو اعلیٰ میزبانی کے حوالے سے تحریر کئے گئے خط میں دوطرفہ مجوزہ اقدامات کے حوالے سے اس یقین کا اظہار کیا کہ’’ہماری مشترکہ کوششوں سے دونوں ملکوں میں خوشحالی اور بہتری آ سکتی ہے‘‘۔ تو اب اس کے جواب میں نریندر مودی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تشدد اور کشیدگی سے پاک دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں۔ تحائف اور خوشگوار جملوں کے تبادلوں اور خیالات و جذبات کے تحریری رابطے کو بعض حلقے COSMETIC اور قلمی دوستی سے موسوم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بعض سیاسی جماعتوں کے زعماء اس صورت حال کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بھارت کے ساتھ دوستی میں جلد بازی اور اسے عوام کی خواہشات سے منافی اقدام قرار دے رہے ہیں اور ایسی ہی صورت حال بھارت میں بھی ہے بلکہ وہاں بھارتی وزیراعظم کو زیادہ مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے لیکن تنقید کرنے والوں کے پاس اس کا حل موجود نہیں ہے وہ کوئی قابل عمل تجویز بھی دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ امریکہ ہو یا بھارت ہم سب سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنے اور برابری کی سطح پر بات کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں اور خواہش بھی رکھتے ہیں لیکن کن شعبوں میں؟ اور کن حوالوں سے؟ اس کے جواب میں جذباتی اور ’’خواہشات پر مبنی دلیلوں‘‘ کے سوا کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ بھارت میں بالخصوص حکومتی سطح پر بھی اور متعصب اور انتہاپسندوں کی جانب سے بھی پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ بھارت نے ماضی میں کبھی بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جس سے پاکستان کو کسی نہ کسی حوالے سے زک پہنچتی ہو لیکن اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت جس طرف پیشرفت کر رہی ہے اور دوسرا حل ؟؟؟؟؟
کیا ہم کسی دوسرے حل کے متحمل ہو سکتے ہیں بالخصوص جب ہم داخلی سطح پر ہونے والے ایک ایسے انتشار کا شکار ہیں جو ہم پر کئی سال سے مسلط ہے؟؟؟؟؟
اگر نریندر مودی کے انتخابی نعروں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو انہوں نے حالیہ انتخابات میں جو واضح کامیابی حاصل کی تھی وہ اپنے معاشی پروگرام اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے کی تھی انہوں نے بھارتی عوام کو ایک خوشحال ہندوستان کا خواب دکھا کر ووٹ حاصل کئے تھے اور اب انہیں اپنے عوام کو اس خواب کی تعبیر بھی دینی ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالخصوص پاکستان سے خوشگوار اور تجارتی تعلقات کو سرفہرست رکھیں گے۔دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف بھی ملک میں تیزرفتار ترقی اور پڑوسی ملکوں سے بہترین تعلقات کے حامی ہیں۔ خطے کے اہم اور ایٹمی طاقت کے حامل دو ممالک کے سربراہان کی دہلی میں ہونے والی ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا اور اگر اس ملاقات کو ایک بڑے مقصد اور ہدف کی جانب پیشرفت کا ابتدائیہ قرار دیا جائے تو شاید یہ غلط نہ ہو۔
تازہ ترین