ملت ِ اسلامیہ پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پرآپریشن شروع کردیا ہے۔ آپریشن کا آغازہوتے ہی پوری پاکستانی قوم اپنے عساکر کے شانہ بشانہ کھڑی ہوچکی ہے۔ ملک کی دھرتی کاکوئی ایک ذرہ بھی ان سے جدا نہیں۔ موت اور بدامنی کے ان پیغامبروں نے ان گزرے برسوں میں ہمارے فوجی جوانوں سمیت پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بیگناہ ہلاکتوں سے دوچار کیا۔ تاریخ کے اس موڑ پر صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت تھی جس کی قیادت نے طالبان کےساتھ اس جنگ میں اپنی جانیںجاں آفریں کےسپرد کرنے والے پاکستانی فوجیوں، دیگر ریاستی اہلکاروںاور عوام کو شہید قرار دینے سے انکار کیا۔ اس انکارپر للکارنے کے انداز میں اصرارکیا۔ آج جبکہ عساکر پاکستان اور عوام ایک بنیان مرصوص کی شکل میں اپنے وطن اور معاشرے کی سلامتی کے لئے بالآخر جبر کی اس تگ و تاز کے سرخ میدانوں میں اتر چکے ہیں یہ واحد جماعت ہے جس نے خود کو ملک کے دفاعی ادارےاور عوام سے متوازی مقام پر رکھتے ہوئے اس قومی آپریشن کے معاملے میں علیحدگی پسندانہ تحفظات کا اعلان کیاہے۔ خدانخواستہ یہ جنگ پاکستان کےگلی کوچوں میں پھیلنےپریہ جماعت، اس کے کارکن، اپنے ہی ہم وطنوں کےخلاف ان طالبان کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔ ان کے ’’تصور ِ اسلام‘‘ نے ’’اقامت دین‘‘ کے سلسلے میں انہیں ایسی ہی اپروچ سے ہمکنار کر رکھا ہے!
اخباری تجزیئے کے مطابق ’’ضرب ’’ عضب‘‘ بہت احتیاط و باریک بینی سے تیار کردہ آپریشن ہے۔ شمالی وزیرستان کا 4707 کلومیٹر کا علاقہ حملے کی زد میں نہیں۔ شمالی وزیرستان ایجنسی کی مقامی آبادی بھی آپریشن کا ہدف نہیں ۔ اس کے اہداف میں ازبک دہشت گردی، تحریک ِ طالبان پاکستان، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور پاکستان مخالف القاعدہ عناصر ہیں۔ ابتدا میں میرعلی اور میراں شاہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوںکامحاصرہ کیاگیا۔ ہتھیار ڈالنے والوں کے لئے سرنڈر پوائنٹس قائم کئےگئے۔ فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے مقامی افراد کے محفوظ انخلا کے لئے پناہ گزیں کیمپوں کی تشکیل کردی ہے۔ رجسٹریشن سینٹروں اور ٹرانسپورٹ سہولتوں کی فراہمی کا کام ہر وقت جاری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، ازبک موومنٹ اور پاکستان مخالف القاعدہ عناصر کے دو واضح مقاصد ہیں۔پاکستان کو باقی دنیا سے کاٹ دینا ور ریاست پاکستان کو ناجائز ثابت کرنا! غیرملکی جنگجوئوں کے سازشی پروگرام کا مقصدتمام غیرملکی فضائی کمپنیوں کی پاکستان آمد ختم کرنا اور تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرنے سےہے۔ آپریشن کا ایک مقصدان عناصر کو اپنے ان مقاصد کے قریب پہنچنے سےروکنا بھی ہے۔‘‘
طالبان کے خلاف جنگ میں عساکر پاکستان کے ساتھ پاکستانی قوم اور لیڈرشپ کا طرز عمل ہمیں اپنی تمام تر کوتاہیوں اور قومی جرائم کے باوجود ماضی کے ایک کامیاب اور بابرکت تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے، یہ کہ کسی بھی دشمن کے خلاف جنگ میں ہم واقعتاً ہمیشہ ایک Page پر اسی طرح رہے ہیں جیسے رہنے کا حق ہوتا ہے۔ گو عمران خان نے قومی اسمبلی میں میاں نوازشریف کی تقریر کے بعد کچھ اعتراضات کئے مگر نہ تو خود ان پر زیادہ توجہ صرف کی نہ سامعین کو زیادہ توجہ صرف کرنے کی ترغیب دلائی۔ یہاں پر ہی قصہ ختم کردیا کہ ’’آپریشن کے فیصلے سے پہلے پوچھ لیا ہوتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔‘‘
طالبان کے خلاف آپریشن کے اس لمحے کی ایک نہایت ہی جامع گہرائی سے جڑت بھی بنتی ہے یعنی آئندہ دو تین ماہ کے اندر اندر نوازشریف حکومت عملی زوال پذیری کے بھنور میںپھنسنے سےمحفوظ نظرآتی ہے۔ یہ بھنور ایسا تھا جس نے عمران خان کی 2013کے قومی انتخابات کو ’’جعلی‘‘‘قرار دینے کی مہم میں حد درجہ برق رفتاری سے اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا تھا۔ ہر گزرتے دن نوازشریف حکومت کی آئینی Valadity بھُرتی جارہی تھی کہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ نے اسے اپنے سانس ہموار کرلینے کی غیرمتوقع گنجائش فراہم کردی۔ وہ جو نوازشریف کے بارے میںمقدر کے سکندر کا ایک واہمہ سا معروف ہے، کچھ اتنا غلط بھی نہیں مگر اس گنجائش سے نوازشریف حکومت کے باطن میں پیدا شدہ مکمل زوال پذیری بلکہ اختتام کے ’’ٹیومر‘‘ کا قطعی اختتام نہیں ہوا۔ بس آپریشن کی ’’کیموتھراپی‘‘ نے اسے وقتی طور پر ’’سلا‘‘ دیا ہے ’’جلایا‘‘ نہیں!
نواز حکومت کو مگر خود پر نظرثانی کرنے کا ایک سنہری چانس بھی ملا ہے جس سے اسے نئی زندگی ملنے اور سیاسی موت ٹلنے کا یقین کی حد تک فائدہ ہوسکتا ہے۔نظرثانی؟ کن مسائل پر؟ کس طرز عمل پر؟ کن حقائق پر؟ مثلاً نوازشریف کے کم از کم چار سے چھ وفاقی وزرا ایسے ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو غیر مطلوب داخلی ریاستی بحران کے اندر تک دھکیلنے میں کنکارڈ طیارے جیسی سپیڈ کا کام دیا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، اک عالم اس سے باخبر ہے۔ ان حضرات نے عوامی سطح پر ہر متعلقہ مسئلے یا مسائل پہ گفتگو کے دوران میں متوازن انداز کے بجائے غیرضروری جارحیت کو اپنی حکمرانی کا ایک مضبوط معیار سمجھا، عوام کے عمومی احترام کے بجائے ان کے مسائل پر اپنے انداز ِ خطابت میں اک لاپرواہ سے رعب کو اپنا پیدائشی حق اور عوام کو پیدائشی غلامی کے دوپلڑوں میں رکھ کے ڈیل کیا، لوڈشیڈنگ کے بحران پر، مشکلات اپنی جگہ لیکن اپنے ’’بڑوں‘‘ کے دعوئوں کی پوزیشن پہ سر جھکانے کے بجائے چھوٹے صوبوں اور عوام کو ایک ایسی حکمرانی کے طریق سے دھمکیاں دیں جسے صرف اورصرف ذہنی کم نگاہی جنم دیا کرتی ہے، اگر ان وفاقی وزرا کی آپس میں بول چال نہیں تب اس سے پاکستانی رائے عامہ کوکیافرق پڑتاہے؟ کیا یہ ان کے خدانخواستہ آئیڈیلز ہیں جنہیں سامنے رکھ کر ا نہوں نے اپنی آل اولاد کی پرورش کرنی ہے؟ اگر کوئی انا پرست ہے، کیا اس کی عمر 5000برس ہے، وہ دنیا میں ابدیت کا پٹہ لکھوا کر لایا ہے؟ کیا اسے دوسرے اربوں انسانوں کی طرح مٹی سے مٹی نہیں ہونا؟ لوگ، جو ان کے بارے میں اس وقت تک اپنی یاد کو تکلیف دینا بھی گناہ کبیرہ جانتے ہیں جب تک ان سے ’’کام‘‘ نہ پڑے پھر ان جیسی اتھری طبیعتوں کے لوگوں کو عوام کے مسائل یا نازک قومی موضوعات پر اپنی حدوں سے باہر نکل جانے کی جرأت کیونکر ہوتی ہے؟ محض ایک وزارت کے ہاتھوں، یہ اپنے دماغی محور سے ہٹ کے کسی دماغی اختلال میں مبتلا ہو جاتے ہیں،بہرحال یہ سب میاں نوازشریف ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے، لوڈشیڈنگ سے لے کر عوام کی تمام بنیادی ضروریات اور معاشرتی امن وامان کی غارت گری نے نواز حکومت کے محفوظ ہونے کی راہیں تقریباً مسدود کردی ہیں۔گزرے ایک برس میں نوازشریف حکومت نے دو قومی اور بین الاقوامی واقعات کے تناظر میں عدل او ر توازن کے قدرتی پہلوئوں کے بجائے بے انصافی اور عدم توازن کے غیرقدرتی قوانین کو اپنا زاد ِ راہ بنایا جس نے اسے ریاستی سطح کی گہری ترین کھائی میں گرا دیا ہے جس سے اس کا باہر نکلنا، سوائے تقدیر کی سرفرازی کے، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پہلے کا تعلق مشرف کے مقدمے اور دوسرے کا پنجاب میں طالبان کی حقیقی پوزیشن کے اخفا سے ہے۔ دونوں معاملات میں نواز حکومت نے تدبر سے عاری، جرأت اور چالاکی کی ایک دنیا بسائی، اب یہ دنیا اسے مکافات ِ عمل کے قوانین سے باہر نہیں جانے دے گی۔ نواز حکومت کے پروٹوکول کرّوفر نے پاکستانی عوام میں بے بسی اور تذلیل کے احساس کا پیالہ بھر دیا ہے، اسے چھلکنے سے ان کے فرشتے بھی نہیں روک سکتے!بلاشبہ فی الوقت نواز حکومت کے خلاف کامیابی سے ابھرنے والی تحریک کو جھٹکا لگتا محسوس ہوتا ہے لیکن نہ جانے کیوں اس جھٹکے کے پردے سے کوئی انہونی صدا دے رہی ہے؟
پاکستان اور پاکستانی قوم کی بقا کی اس جاںگسل آزمائش میں پاکستان پیپلزپارٹی اوراس کی قیادت، اپنے ماضی کی تاریخ کے عین مطابق حب الوطنی کےعظیم ترین استعارہ کے طور پرموجود ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کی صدائے حق پاکستانیوں کا حوصلہ اور پیپلزپارٹی کی جمہوریت کے لئے سیاسی استقامت، افواج پاکستان سمیت پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر ر ہی ہے!