• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک تازہ ترین خبر کے مطابق 20 برس کی تحقیق کے بعد بھی سائنس دان ایڈز کی ویکسین بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ امریکن ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی جس کا سالانہ بجٹ تین بلین ڈالرز سے زیادہ ہے کے صدر بالٹی مور نے تنظیم کے سالانہ اجلاس میں کہا ہے کہ سائنس دان اس سلسلے میں خاصی مایوسی کا شکار ہیں تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنس یا سائنس دانوں نے ہار مان لی ہے یا ہم نے اپنی کوششوں کو ترک کردیا ہے تاہم ہمیں ایڈز پر قابو پانے کیلئے کچھ نئے طریقے اپنانے پڑیں گے ورنہ یہ موذی مرض ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ انہوں نے اجلاس میں بتایا کہ ایچ آئی وی ایڈز نے خود کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام سے بچائے رکھنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ مدافعتی نظام کی بنیاد پر ایڈز کو شکست دینے کیلئے سائنس دانوں کو فطرت کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ گزشتہ صدی جہاں بہت سی ایجادات اپنے جلو میں لائی وہاں دنیا کو ایک ایسے لاعلاج بھیانک اور خوفناک مرض کے بارے میں آگاہ کیا جس کو ایڈز کا نام دیا گیا۔ ایڈز مخفف ہے ان چار لفظوں کا ACQUIRED IMMUNE DEVICIENCY SYNDROME اس خوفناک مرض نے دریافت ہونے سے لے کر اب تک تقریباً تین کروڑ سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ 2009ء میں تیس لاکھ افراد کی ایڈز کی وجہ سے موت واقع ہوگئی۔ اس کے علاوہ آج چار کروڑ سے زائد افراد (HIV.Po) ایچ آئی وی پازیٹو کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے 20لاکھ افراد کا تعلق جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔ یہ اطلاع عالمی یوم ایڈز کے موقع پر UNAID یو این ایڈ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری رپورٹ میں دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحارا سے ملحق افریقی علاقوں میں جہاں ایڈز موت کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے وہاں عالمی سطح پر یہ بیماری دنیا کی چوتھی بڑی بیماری ہے۔ ایک تہائی لوگ 14 سے 24 برس کی عمر کے ہیں جن میں سے بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ اس موذی مرض کی جکڑ میں آچکے ہیں۔ دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ایڈز کے بارے میں ’’معمولی معلومات‘‘ بھی نہیں ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ایڈز سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 15 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ مشرقی یورپ، وسطی افریقہ، مشرقی ایشیا اور خطرہ بحرالکاہل میں ایسے لوگوں کی تعداد 13 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ شمالی امریکہ میں پانچ لاکھ، مغربی یورپ میں چھ لاکھ، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں 5 لاکھ اور کریبین علاقوں میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں صرف بیس ہزار افراد اس مرض سے متاثر ہیں۔ میرے حساب سے ایڈز اور ایچ آئی وی کی بیماری اور وبا جہاں تیزی سے پھیل رہی ہے وہاں یہ لاعلاج مرض بھی ہے اب تک جتنا بھی علاج دریافت ہوچکا ہے اس سے مریض کی زندگی میں بہت کچھ طوالت آسکتی ہے مگر اس کی دوائیں بہت مہنگی ہیں اگرچہ دعائوں پر کچھ خرچ نہیں آتا تاہم ایک ماہ کی دوا پر کم از کم دس ہزار روپے سے بیس ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں جن میں امریکہ سرفہرست ہے مختلف امراض کیلئے آئے دن نئی نئی دوائیں ایجاد ہوتی رہتی ہیں چونکہ مقامی بازاروں میں نہ تو ان دوائوں کی بہت زیادہ کھپت ہے کہ لوگ صحت مند ہیں اور نہ ہی دواساز کمپنیاں اپنی مرضی کے مطابق منافع کماسکتی ہیں اس لئے انہیں بیرونی منڈیوں کی تلاش رہتی ہے اس لئے دوسری اور تیسری دنیا کو سب سے بڑی منڈی ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے۔ یہاں میں عالمی معاشی نظام وغیرہ کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امریکی دوا ساز کمپنیاں اپنی سرکاری مشینری اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے اپنے حق میں ماحول کو سازگار بنانے کیلئے اتنا زبردست پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ تھرڈورلڈ کے باسیوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ انہیں جو کچھ بتایا جارہا ہے وہ سچ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تپ دق سے لے کر دمہ تک ملیریا سے لے کر دماغی بخار تک، برڈ فلو سے لے کر ڈینگی بخار تک میں مبتلا ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد تھرڈ ورلڈ میں پائی جاتی ہے۔ یہی حال کینسر اور امراض قلب کا ہے لیکن چند برسوں میں جس ایک بیماری کا سب سے زیادہ چرچا ہے اور جسے کینسر سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک قرار دیا جارہا ہے وہ ہے ایڈز۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس مرض کا کوئی حتمی علاج یا دوا موجود نہیں ہے اور صرف اس کے پھیلنے کو روکنے اور حفظ ماتقدم اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ایڈز کوئی متعدی مرض نہیں ہے تاہم یہ بات باعث تشویش ہے کہ 14 سے 44 سال کی عمر کے افراد اس میں تیزی سے مبتلا ہوتے جارہے ہیں ایسے نوجوان جو ’’بے راہ روی‘‘ کی زندگی گزارتے ہیں اور جو شادی بیاہ کو ’’قید‘‘ کہتے ہیں اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کیلئے ناجائز راستے اپناتے ہیں وہ اس مرض الموت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مرض موروثی بھی بن گیا ہے اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کیلئے عمر اور جنس کی بھی کوئی قید نہیں رہ گئی جہاں نوزائیدہ اس مرض کا شکار ہیں وہاں پچاس تا ساٹھ برس عمر کے مرد اور خواتین بھی اس میں مبتلا ہیں۔ اس کی وجوہات میں اب صرف ’’ناجائز جنسی اختلاط‘‘ ہی نہیں بلکہ خون کی منتقلی کے دوران خراب خون کے شامل ہوجانے اور انجکشن کی خراب سرنج سے بھی یہ مرض منتقل ہورہا ہے۔ ایک اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ مرض ایڈز کے متعلق ان دوسری وجوہات کے منظر عام پر آنے سے وہ لوگ جو شرم کے مارے مرض کو چھپائے پھرتے تھے اب علاج پر مائل ہو رہے ہیں۔ شہرت کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور ایڈز کے مریضوں میں گھل مل جانے سے بھی اس مرض کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں پھر بھی ہم مشرقیوں میں کچھ تعداد ایسی ہے جو اس مرض کا انکشاف کرنے کو برا محسوس کرتی ہے۔ آخر میں پھر امریکی سائنس دان پروفیسر بالٹی مور کا بوسٹن میں دیا ہوا ایک انٹرویو کا اقتباس پیش کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
’’ہمیں ایڈز کو شکست دینے کیلئے کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا جو گزشتہ چار ارب سال کے ارتقاء کے دوران انسانی جسم نے نہ سیکھا ہو، ہم آج کل یہی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
بس اتنی عمر تھی اس سرزمینِ دل پر میری
پھر اس کے بعد اسے وہم و خواب ہونا تھا
تازہ ترین