عالمی سطح پر سمندروں اور دریاؤںمیںپانی کی سطح کی بلندی، آب و ہوا کی شدید تبدیلیوں اور برف پگھلنے کے عمل میں تیزی سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل دو سال قبل لگائے گئے اندازوں اور اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اسی طرح اخراج سطح سمندر میں لگ بھگ چار میٹر اضافہ کر دئیگا اور اس اخراج کے ماحولیات پر ایک ہزار سال تک اثرات ہونے کا امکان ہے ہالینڈ کے سائنس دانوں نےکہا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلیوں کا عمل ماہرین کے اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے جاری ہے 2099ءتک مغربی انٹارٹیکا میں برف کی چادر تباہ کن طور پر پھٹنے کا خطرہ ہے ۔ ماہرین کے مطابق سطح زمین کا مجموعی درجہ حرارت اس صدی کے اختتام تک لگ بھگ چار سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا اور اس کی ایک اہم وجہ کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے جو سب سے بڑی گرین ہاؤس گیس ہے اور تیزی سے فضا میں بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات 95 فیصد تک درست ہے کہ سطح زمین پر حدت میں اضافے کی وجہ قدرتی تغیرات کی بجائے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا میں تباہ کن طوفانوں کا سبب بن رہا ہے اور سیلابوں ،دریاؤں اور سمندری طوفانوں اور خشک سالی کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہو جائیں گے اور یہ کرہ ارض ایک ایسا حیاتیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے 65 ملین سال قبل اس وقت دیکھا تھا جب اس دھرتی سے ڈائنا سارز کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ آئندہ عشرہ کے دوران ماحولیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے جنوبی حصے کے پانچ کروڑ انسانوں کو شمالی حصوں کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیں گی ـ اس بڑے پیمانے پر ہجرت کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور انکے نتیجے میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی غذائی قلت ہوگی۔ ہالینڈ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نقصان دے گیسوں کے اخراج پر قابو پا لیا جائے تو بھی دنیا میں قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہوگا کہ جنگلی حیات کی نصف سے زیادہ پناہ گاہیں اور اہم جنگلات تباہ ہونے سے 40کروڑ لوگ بھوک سے دو چار ہو جائیں گے کہ کرہ ارض کے شمالی منطقے میں درجہ حرارت میں جتنااضافہ پچھلی آٹھ دس دہائیوںمیںہوا ہے اُتنا گزشتہ 1500برس میں نہیں ہوا ۔ جنگلی حیات کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ عالمی حدت میں اضافہ اور تیزی سے ختم ہوتے جنگلات سے جانوروں کی کئی نسلیں ختم ہو سکتی ہیں جنگلی حیات کے ماہر ڈاکٹر رچرڈ لیکی جوکینیا میں وائلڈ لائف سروس کے سابق ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو محفوظ کرنے کیلئے آئندہ پانچ برسوں میں کچھ کرنا ہوگا ورنہ پرندوں، ممالیہ، رینگنے والے جانوروں اور ابا بیلوں کی نسلیں ختم ہو جائیں گی کہ جنگلات کے خاتمے اور آبادی کے پھیلاؤ کے باعث جانوروں کیلئے نقل مکانی کے امکانات بھی کم ہیں۔ دوسری جانب مختلف وجوہات کی بنا پر مغربی افریقہ جنوبی یورپ اور امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں خشک سالی کا خدشہ ہے علاوہ ازیں افریقہ کے علاقے جو خشک سالی کا شکار ہیں وہ آئندہ برسوں میں مزید خشک اور گرم ہو جائیں گے۔ درجہ حرارت بڑھنےمیںکارخانوں گاڑیوں، گھروں ،جہازوں اور فیکٹریوں میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اہم رول ادا کرتی ہے اسلئے اسکے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ اقوام متحدہ کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی پرفارمنس انڈکس کی رپورٹ ہے۔ اسی طرح ایک دوسری روپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس 2024 ءدنیا بھر میں 950 قدرتی آفات ریکارڈ کی گئیں اس طرح گزشتہ سال 1924ءسے لیکر اب تک کا بدترین سال ثابت ہوا، اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات سے 2016ءکے دوران 235بلین کا نقصان ہوا تھا اور یہ نقصان 2019 ءکے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے آخر پہ آپ سے گزارش ہے کہ مجھے ’’نقاد‘‘ مت سمجھیںمیں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ عالمی ماحولیات اور آب و ہوا میں حقیقی تبدیلی اور سنگین حالات واقع ہو چکے ہیں اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس میں ہونے والے اضافے کو ابھی تک روک نہیں سکےـ ایسا کیونکر ہوا؟ میں بھی سوچتا ہوں..... آپ بھی سوچیے۔ چلتے چلتے اس موضوع پر میرا ایک شعر حاضر خدمت ہے۔
زمین کو میں نے بچھایا بڑے سلیقے سے
اب اس کیساتھ سمٹنا مجھے قبول نہیں