لوڈشیڈنگ کا مسئلہ موجودہ حکومت کے لئے اس اعتبارسے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ اس باب میں پچھلی کئی حکومتوں کی ناکامی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف لوڈشیڈنگ کے خاتمے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا بلکہ وزیراعظم نواز شریف 2018 تک اس مسئلے کو بہرصورت حل کرنے کے عزم کا بار بار اعادہ کرتے رہے ہیں۔ 2013میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے وہ نہ صرف اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں صورتحال کا مسلسل جائزہ لیتے رہے ہیں بلکہ اس دوران کئی منصوبوں کی داغ بیل بھی ڈالی جاچکی ہے۔ منگل کے روز وزیراعظم نے اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ بات دہرائی کہ موجودہ حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے سے پہلے توانائی بحران پر پوری طرح قابو پالیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صارفین کو بجلی مناسب قیمت پر فراہم کرنا بھی ان کی ترجیح ہے۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ توانائی کا مسئلہ موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا ہے۔ عشروں سے جاری اس مسئلے کو حل کرنے میں نہ صرف کئی حکومتیں ناکام رہیں بلکہ یہ مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا رہا ہے ۔ 2013کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد اس باب میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کوششوں میں تیزی لائی گئی۔ دوست ملک چین کی مدد سے دو سویلین ایٹمی ری ایکٹروں پر کام کا آغاز ہوا ہے اور وژن 2050کے تحت جوہری توانائی سے 42ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ جبکہ ’’تاپی‘‘ سمیت تیل اور گیس کے حصول کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ قطر سے گیس کی درآمد کا سلسلہ بھی جلد ہی شروع ہوگیا۔ ایران کی جوہری صلاحیت کے حوالے سے واشنگٹن اور تہران کی کشیدگی ختم ہونے کے بعد پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی ہے مگر ایران پر عائد امریکی پابندیاں پوری طرح نہ ختم ہونے کے باعث پاکستانی سرحد کے اندر گیس پائپ لائن کی تعمیر پر تاحال کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر سمیت کئی دیگر منصوبے بھی روبہ عمل لائے جارہے ہیں جن کی تکمیل کے مدتیں مختلف ہیں۔ سورج کی توانائی، ہوائی قوت اور سمندری لہروں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے جو برقی پیداوار اور ترسیل کا نظام بہتر بنانے میں بھی معاون ہوگا۔ بجلی کا مسئلہ درحقیقت کئی سنگین حقیقتوں کے ساتھ جڑ ا ہوا ہے جن پر اس حد تک کامیابی کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ہمسایہ ملکوں سے بجلی کے حصول کے علاوہ تیل اور گیس کی درآمد کی راہیں کھلی یا ہموار ہوئی ہیں مگر اپنی صنعتی، زرعی، کاروباری اور گھریلو زندگی کو رواں رکھنے والی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے بھارت کو سندھ طاس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد و امادہ کرنا اور اندرون ملک آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ دینا بھی اشد ضروری ہے۔ کالا باغ ڈیم کے متنازع بننے کے بعد اگر بھاشا ڈیم اور مختلف چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر فوری توجہ دی جاتی تو اب تک نہ صرف بجلی کی قلت دور ہوچکی ہوتی بلکہ بنجر زمینوں کو آباد کرنے ، فصلوں کا معیار بڑھانے ، لائیواسٹاک اور ڈیری کے کئی منصوبے بھی مکمل ہوجاتے۔ تھر میں پائے جانے والے دنیا بھر میں کوئلے کے تیسرے بڑے ذخیرے سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں بھی خاصی تاخیر ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے دعوے کے مطابق 2018میں لوڈ شیڈنگ ختم کرکے اپنے منشور میں کئے گئے ایک اہم وعدے کی تکمیل کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی اگلے 22مہینوں میں اپنے اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر پوری توانائی صرف کرنا ہوگی کیونکہ آئندہ انتخابات میں یہ سوالات ضرور سامنے آئیں گے کہ کس پارٹی نے اپنے منشور پر کس حد تک عمل کیا۔ عام آدمی کا شعور اب شخصیتوں کے سحر اور کھوکھلے نعروںکو قبول نہیں کرے گا۔ لوگ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے وعدوں کی تکمیل میں کتنی سچی ہیں۔