• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں یہ خبر پڑھ کر حیران ہوا۔ خبر بھی بہت دلچسپ تھی۔ اخبار میں یہ خبر ہمارے وزیراعظم کی پتری مریم نواز کے فرمان کے حوالہ سے ہے۔ ’’شہباز شریف نیند میں بھی ترقیاتی منصوبے بناتے اور بولتے رہتے ہیں‘‘ عام حالات میں خادم اعلیٰ کی مصروفیت کا انت نہیں۔ خادم اعلیٰ انقلابی طور طریقے تو رکھتے ہونگے مگر ان میں عوامی پن نظر نہیں آتا۔ ان کے سیاسی نظریات کی جانکاری بہت مشکل ہے۔ ایک طرف ترک ان کو گرماتے ہیں۔ وہ ہماری سیاست اور ریاست میں قدم جما رہے ہیں دوسری طرف عظیم ہمسایہ چین ہے جو گرم پانیوں کی رسائی کے لئے آپ کے ہاں اپنے قدم جما رہا ہے اور خادم اعلیٰ ان کے نزدیک بڑے کام کے آدمی ہیں۔ مریم نواز بھی خادم اعلیٰ سے متاثر لگتی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر وزیراعظم اور خادم اعلیٰ کے افکار کا پرچار کرتی ہیں۔ وہ آجکل اسٹیبلشمنٹ (نوکر شاہی) کے زیر تربیت ہیں۔
مریم نواز ایک پڑھی لکھی بالغ نظر خاتون ہیں اور آجکل نوجوانوں کے تعلیمی مسائل اور معاملات کے حوالہ سے قرضہ حسنہ اسکیم کی پردھان اور سرپرست ہیں۔ نوجوانوں کو قرض پسند بنا کر ووٹ بنک کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے جب وزیراعظم بھارتی وزیراعظم کی رسم حلف برداری پر بھارت جارہے تھے تو خبریں گرم تھیں کہ مریم نواز بھی ہم رکاب ہونگی۔ جب پاکستان کا سفارت خانہ وزیراعظم پاکستان کے دوستوں کے ساتھ ان کے پروگرام کو ترتیب دے رہا تھا تو مریم نواز کا نام ڈراپ کرنا پڑا۔ جس طریقہ سے مریم نواز کی تربیت ہورہی ہے اس سے لگتا ہے کہ وزیراعظم ایک پرانے انقلابی وزیراعظم سے بہت متاثر ہیں۔ ایک زمانہ میں ان کا پورا پریوار متاثرین میں تھا پھر خوش قسمتی سے جنرل ضیاء مرحوم نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ سابق گورنر پنجاب جنرل جیلانی کو حکم ملا پنجاب میں سیاسی قیادت تشکیل دی جائے۔ جیلانی صاحب کی نظر جناب شریف پر پڑھی۔ پہلی ہمدردی تو ان کی املاک کی واپسی کے تناظر میں کی۔ جو سابقہ حکومت نے قومی ملکیت میں لے لی تھیں۔ جناب محمد شریف نے اپنے دونوں سوپوتوں کو جنرل جیلانی کی زیر سایہ تربیت کے لئے پیش کردیا۔ پھر چل سو چل۔ قسمت کے دھنی شریف برادران، مرکز اور صوبے کے حاکم بن گئے۔ اتنا عرصہ حکومت کرنے کے باوجوداب کی بار بھی ان کی سرکار کو سکون نہیں۔
اس بے سکونی کے باوجود انہوں نے جو منصوبے بنا رکھے ہیں ان سے انحراف ممکن نظر نہیں آتا۔ پنجاب میں بنیادی جمہوری اداروں کی تشکیل سے اجتناب برتا جارہا ہے اور کچھ ایسا ہی حال دیگر صوبوں کا ہے۔مریم نواز کی تربیت بے نظیر کی شخصیت اور تربیت کو مدنظر رکھ کر کی جارہی ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔ مگر بے نظیر کی سیاسی تربیت بھی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ (نوکرشاہی) نے کی تھی اور بیرون ملک کی تعلیم اور تجربہ ضرور کام آیا۔ مگر بے نظیر کو اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی، والد کو نظام کے جبر کی وجہ سے سولی پر چڑھنا پڑا اور پھر اپنےہی پیاروں نے اپنی بقا کے لئے اس کو شہادت کا رتبہ دلانے کے لئے سازباز کی اور کامیاب رہے اور آج تک اپنی ہی صفوں میں جو لوگ مشکوک ہیں ان پر کون ہاتھ ڈالے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔جب بھی پاکستان کے معاملات پر بات ہوتی ہے تو سب کچھ اردگرد بے بسی کا احساس دلاتا ہے۔ ملک مکمل طور پر دہشت گردی کی زد میں ہے شہری ادارے اپنی حیثیت اور وقار کھوتے جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب ملکی ترقی کے لئے حالت نیند میں بھی بے چین اور بے کل رہتے ہیں۔ مگر ان کی ناک کے نیچے نوکر شاہی اپنی من مانی کرتی نظر آتی ہے۔
ایسے میں مریم نواز جیسے لوگوں سے لوگ امید لگا لیتے ہیں۔ ان کی قرضہ حسنہ اسکیم اتنی مقبول ہوئی کہ ضرورت مندوں کے لئے قرعہ اندازی کروانا پڑی۔ اس قرض حسنہ اسکیم کا ملک کو کس طرح فائدہ ہوگا اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس قسم کے منصوبے عمومی طور پر نوکرشاہی کا زرخیز ذہین تیار کرتا ہے۔ کاش ایسا ہی کوئی منصوبہ ان کی سیاسی جماعت شروع کرکے مشاورت کرتی۔ مگر جب سب سیاسی لوگ نوکر شاہی کے تابع ہوں تو کون سر پھرا ایسا سوچ کر بھی اپنی حیثیت اور اہمیت گنوائے یہ صرف ایک سیاسی جماعت کا المیہ نہیں ہے۔ دوسرے صوبوں میں جو سیاسی ابتری ہے وہ معاشرت اور معیشت کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ سندھ میں ہاری جوہیں وہ بھارت کے دلتوں کے برابر ہیں۔ وڈیرے ان پر جبر اور حکومت کررہے ہیں شہروں میں بھی یہ فرق نظر آتا ہے۔ کراچی مکمل طور پر حالت جنگ کا شہر ہے۔ تمام قانونی ادارے بے بسی کی تصویر ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال بلوچستان اور صوبے کے پی کے کا ہے۔ عمران خان کا بھرم اپنی حیثیت کمزور کررہا ہے۔ صوبے میں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ تحریک انصاف کی سرکار نوکر شاہی کے سامنے مکمل بے بس نظر آرہی ہے۔
ایسے میں عوام کس پر اعتبار کریں۔ ایسے میں عمران حکومت گرائو، سیاست اور ریاست کے لئے اپنی قیمت لگا چکے ہیں بس غیب کی آمد کا انتظار ہے۔ چند دن پہلے کراچی سے ایک دوست تشریف لائے۔ صاحب علم اور صاحب ذوق نظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک نشست میں اخباری دنیا کے مشہور فوٹو گرافر چوہدری اقبال بھی تھے۔ جو حال ہی میں لندن یاترا سے واپس آئے ہیں۔ وہ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے ساتھ علامہ قادری سے بامقصد مذاکرات کرنے گئے تھے۔ وہ آنے والے دنوں کی عجب کہانی سناتے ہیں وہ عوامی نجومی پنڈی والوں کی طرح قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہیں اور جو دوست کراچی کے پیر ہیں ان کا وجد ان کہتا ہےآنے والے دنوں میں سب کچھ اس طرح نظر نہیں آتا ۔ کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ مگر دعویٰ ضرور ہے کہ سب کچھ ایسے نہیں چل سکتا۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے فرشتوں کی ضرورت پر سب ہی متفق نظر آتے ہیں۔
پیر صاحب کا دعویٰ ہے کہ ستمبر تک سب کچھ بدل سکتا ہے۔ تیل کے کنواں کا بھی ذکر ہورہا ہے جو خاصی بڑی مقدار میں ہے مگر ایسےوسائل چند دن میں تو تقدیر بدلنے سے رہے۔ کچھ ہونے جارہا ہے اور کچھ ہوسکتا ہے۔ چلو جو کچھ بھی ہو پاکستان کی قیادت کے لئے چند لوگ ضرور دستیاب ہیں اور بلاول کی تربیت تقریباً مکمل ہے۔ وہ رضاکار بھی بن سکتے ہیں ، مریم نواز بھی میدان عمل میں موجود ہیں۔ سیاسی نوجوان لوگ بھی مل جائیں گے۔ مگر یہ سب کچھ کیسے ہوگا کیا اس کے لئے عوام تیار ہیں اس پر معاملہ اٹکا ہے کہ عوام کی نبض کا معلوم نہیں۔ وہ کب کس کے ساتھ مل جائیں دلوں کا حال فرشتے جانتے ہیں۔
تازہ ترین