• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اخبار پڑھ رہا ہوں۔چھوٹی بڑی خبروں اور اداریوں سے لے کر ہر طرح کی کمزوریوں کے علاج کے اشتہاروں تک کیا نہیں پڑھا ہے میں نے۔ میرے سامنے ہر صبح ایک دنیا کھلی ہے ۔میرے شعور نے ہر روز بھانت بھانت کے منظر دیکھے ہیں۔ میں نتیجوں پر نتیجے نکالتا رہا ہوں اور فیصلوں پر فیصلے کرتا رہا ہوں۔ کبھی حیران ہوا ہوں، کبھی پریشان، کبھی تنگ اور کبھی عاجز۔ کبھی یقین نہیں آیا اور کبھی اندر سے کوئی بولا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ بارہا طے کیا کہ دل دکھانے والی خبریں نہیں پڑھوں گا مگر کوئی کیا کرے کہ نہ نگاہ نے میری بات مانی نہ نظر نے۔ سانحے پڑھے، حادثے پڑھے، ظلم کی وارداتیں اور بے رحمی کے قصّے پڑھے اور اکثر یوں ہوا کہ دل تھام کے بیٹھ رہا اور اپنی بے بسی پر آنسو بھی بہائے اور خود کو اتنا لاچار پایا کہ ان لوگوں پر رشک آیا جنہیں پڑھنا نہیں آتا۔ خیال آیا کہ بے خبر رہنے میں بھی کتنے فائدے ہیں اور دیوانہ پن میں کتنا چین۔ سوچا تھا کہ یہ کیفیت بھی گزر جائے گی۔ خیال آیا کہ دل اور دماغ، دونوں ہی اس وحشت کے عادی اور اس اذیّت کے خوگر ہو رہیں گے۔ بس پھر چین سے جئیں گے لمبی تان کر۔ مگر ،اور بہت بڑا مگر،یوں نہ تھا۔ میں نے فقط چاہا تھا ۔
آج یوں لگتا ہے کہ اخباروں نے میرا محاصرہ کر لیا ہے۔ میرے شعور میں کوئی دروازہ ہے اور نئے زمانے کی خبریں میرے ذہن پر یلغار کے لئے اس دروازے کو بے رحمی سے پیٹ رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ چٹخنی ٹوٹے اور وہ سیلاب کی طرح میرے وجود پر حملہ آور ہو جائیں۔ اور اِدھر بھڑے ہوئے دروازے کے اندر وہ عرصۂ دراز پہلے کی خبریں سہمی بیٹھی یوں تھر تھر کانپ رہی ہیں جیسے جاڑے کی بارش میں بھیگا ہوا چڑیا کا ننھا سا بچّہ۔ باہر نئے زمانے کے اخباروں کا ہجوم ہے اور اندر اُس زمانے کے اخباروں کا ذخیرہ بوسیدہ ہو رہا ہے جو کہیں دور جا کر اجنبی ہو چکا ہے۔ میرے سامنے دو زمانے ہیں،ایک دوسرے سے مختلف، ایک دوسرے سے بالکل جُدا۔ دونوں زمانوں کو دیکھوں تو لگتا ہے کہ پہلے میں کوئی اور تھا۔ اب میں کوئی اور ہوں۔ سوچتا ہوں کیا انسان جیتے جی بھی جنم لیتا ہے اور روپ بدل بدل کر پیدا ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ گزرے ہوئے زمانے سب ہی کو اچھے لگتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کس کے گزرے ہوئے زمانے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گزرے ہوئے زمانوں کو گزار ہی نہیں رہے تھے مگر بات زمانوں کی نہیں، بات زمانے کے رویّوں کی ہو رہی ہے۔
جب میں بڑا ہوا، سلطانہ ڈاکو کا کام تمام ہو چکا تھا۔ صرف اس کے قصّے رہ گئے تھے۔ مجھے کسی بڑے جرم کی خبر یاد نہیں۔ کبھی کبھار آندھی آتی تھی تو گھر کے بڑے کہا کرتے تھے کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ چوری چکاری، دھوکا دہی اور نقب زنی کی اکّا دُکّا خبریں چھپا کرتی تھیں۔ ایک اور خبر جو بار بار نظر آتی تھی وہ یہ کہ ناراض شوہر نے اپنی زنانی کی ناک کاٹ دی۔ جرّاح بازو کی بوٹی جوڑ کر اس کا علاج کردیا کرتے تھے۔ اب تو گھر کی عزّت لٹنا ناک کٹ جانے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ جس کی سزا دینے کے لئے بازو کی بوٹی نہیں، پستول کی اکلوتی گولی یا تیزاب سے بھری ایک بوتل کافی ہوتی ہے۔ پرانے وقتوں میں مقدمہ بازیاں زیادہ ہوتی تھیں۔ اسی دوران آزادی کی تحریک چلی اور نہ صرف توڑ پھوڑ بلکہ خون ریزی بھی شروع ہوئی۔ ان خبروں کو جرائم میں شامل کرتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ اس کے بعد جو ہوا اور لاکھوں افراد اپنے بسے بسائے گھر چھوڑ گئے اور بے شمار تو افق کے پار اتر گئے، سچ تو یہ ہے کہ اُن بھیانک خبروں کی اذیت ناک تفصیل شائع کرتے ہوئے اخباروں کے دل بھی دکھے ہوں گے۔ ایک بار ہم نے ایک دانشور کو دعوت دی کہ وہ پرانے اخباروں سے ان اسپیشل ٹرینوں کی خبریں تلاش کریں جو لاشوں سے بھری ہوئی آتی تھیں اور لاشوں سے لدی ہوئی جاتی تھیں۔ خیال تھا کہ ایک ضخیم کتاب بنے گی لیکن ایک کتابچہ ہی بن سکا۔ تاریخ کے اس سانحے پر چند ہی ناول لکھے گئے اور دو چار فلمیں بن کر رہ گئیں۔ شاید دنیا نے اسے بھلانے ہی میں عافیت جانی۔ ملک تقسیم ہوا اور آبادی گھر سے بے گھر ہوئی ۔بسے بسائے گھروندے چھوڑ کر آنے والوں کو سر چھپانے کے لئے جھونپڑیوں میں جگہ ملی۔ اس کے بعد جرائم کی نوعیت بدلی۔ مثال کے طور پر کباڑ کے ڈھیر پر نوزائیدہ بچّے کی لاش ملنے کی خبریں نظر آنے لگیں۔چوری چکار ی بڑھ گئی۔ املاک پر قبضہ کرنے کے قصّے عام ہوئے اور نظام یوں ہی چلتا رہا۔
پھر زمانے نے جست بھری ۔ آج کا دور آگیا۔ مجھے یاد ہے جب کراچی کے علاقے نیو چالی میں پہلا بینک لُٹا۔ ہتھیار آئے اور مجرم دلیر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں جن جرائم نے سر اٹھایا وہ بھی لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ کمسن بچیوں کی پاکیزگی پر مجرمانہ حملے کرنے کی وبا نے تو دماغ کو ماؤف کر دیا ہے۔ جوان لڑکیوں کی اجتماعی آبرو ریزی کے الفاظ اتنی کثرت سے لکھے جارہے ہیں کہ ان کی دہشت زائل ہونے لگی ہے۔ملک کے ایک علاقے میں مردوں نے سار ے کام چھوڑ کر لڑکیوں کو خوار کرنے کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ بچوں کو اٹھا کر لے جانا جیسے روز کا معمول بن گیا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر چوکیدار نے چھ برس کی ایک بچّی کو خاک میں ملایا اور مار کر گھر کے پیچھے پھینک دیا۔ اسی روز پکڑا گیا اوردو جوتے پڑے تو اس نے سب کچھ اگل دیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تمہیں کیا ہو گیا تھا۔ کہنے لگا کہ اخباروں میں آئے دن اس طرح کے قصے پڑھتا تھا، سوچا کہ آزما کر دیکھوں کیسا لگتاہے۔ حال ہی کی بات ہے کہ پولیس کے ایک اہل کار نے ایک نوجوان لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا اور اس کو پہاڑی سے نیچے پھینک کر فرار ہوگیا۔ زخموں سے چور لڑکی اپنی ماں کے ساتھ تھانے گئی۔ مجھے یقین ہے کہ اب دونوں سوچ رہی ہوں گی کہ تھانے نہ گئے ہوتے تو بہتر تھا۔ ایک اور لڑکی کی عزت لٹی، وہ تھانے گئی۔ دیکھا کہ عزت لوٹنے والے تھانے کے عملے کے ساتھ بیٹھے مزے سے چائے پی رہے ہیں۔اس قسم کی ہزار داستانیں یوں لگتی ہیں جیسے ہر طرف سے ان گنت تیر چل رہے ہیں اور ہر باشعور شخص کے دل و دماغ کو چھلنی کئے دے رہے ہیں۔
ان تمام حکایتوں سے ایک سبق ضرور ملتا ہے۔ بچوں کے ماں باپ دھیان سے سنیں۔ اپنی حفاظت خود کریں،کسی اور پر انحصار نہ کریں ۔ بچوں کو سودا لینے دکان پر نہ بھیجیں۔ جو کوئی انہیں گود میں بٹھا کر پڑھائے اس کو گھر سے نکال دیں۔ کراچی کے ایک ریڈیو اسٹیشن سے بار بار اعلان ہوا کرتا تھا کہ دیکھئے آپ کے گھر کا دروازہ کھلا تو نہیں رہ گیا کہ بچّے کھیلتے کھیلتے باہر نہ نکل جائیں۔ بچّوں بچّیوں کو رشتے داروں سے چوکیداروں اور ملازموں سے بھی بچا کر رکھیں اور ایک آخری مگر بہت ضروری بات:
بچّے تو سبھی پیارے ہوتے ہیں۔ قدرت انہیں اسی طرح پیدا کرتی ہے کہ دیکھنے والوں کو ان پر پیار آئے لیکن خدارا انہیں اتنا ہی پیارا رہنے دیں جتنا قدرت نے بنایا ہے۔ ان کو بڑوں کا اور دلہنوں جیسالباس نہ پہنائیں، بڑوں کی طرح ان کا میک اپ ہرگز نہ کریں، بعض ماں باپ انہیں بیوٹی پالر لے جا کر ان کا فیشل بھی کراتے ہیں اور آئی میک اپ بھی۔ بچوں کے فیشن شو بھی ہونے لگے ہیں، ایک چینل پر ان سے کیٹ واک بھی کرائی جاتی ہے۔ مت بھولئے، بھیڑیوں کی صفت رکھنے والی ندیدی آنکھیں انہیں کس نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ وہ جو سر جھکائے اطاعت گزار اور تابعدار نوجوان کسی بہانے گھر میں آنے لگا ہے، بہت ممکن ہے اس کے اندر ایک خونخوار درندہ اور وحشی چھپا بیٹھا ہو۔جب کبھی مجمع ایسے بھوکے بھیڑیوں کو پکڑتا ہے اور وہ ٹیلی وژن پر دکھائے جاتے ہیں تو کیسی معصوم اور بھولی شکل بنائے ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے۔ مجرم کے لئے ضروری نہیں کہ وہ دیکھنے میں بھی مجرم نظر آئے۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ وہ کبھی نظرہی نہ آئے۔
تازہ ترین