• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک طرف اٹھائیس بندے تفتان سے آئے ہوئے مارے گئے اور دوسری طرف اتنے ہی بندے کراچی ایئرپورٹ کو طالبان سے چھڑانے کی جدوجہد میں شہید ہوئے۔ ایئرپورٹ گودام میں چھپ کر جان بچانے والوں کو موت نے یہاں بھی نہ چھوڑا۔ زندگی ہاتھ ملتی رہ گئی اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں آخر حکومت کو ان طالبان سے مذاکرات کی کیوں پڑی ہے۔ اس اندوہناک صورت حال سے میری توجہ ہٹانے کے لئے میرے سامنے تین ضخیم رسالے میرے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں۔ ’’اجرا‘‘ جو احسن سلیم کی ادارت میں کراچی سے نکلتا ہے۔ ’’کولاژ‘‘ جو شاہدہ تبسم اور اقبال نظر مشترک طور پر نکالتے ہیں اور ’’بنیاد‘‘ کہ جو یاسین حمید کی نگرانی میں کسی مہمان ادیب کے اشتراک سے نکلتا ہے۔ اس دفعہ کا شمارہ ڈاکٹر نجیبہ عارف ، مہمان مدیر ہیں۔ ان تینوں پرچوں میں سے جو بھی صفحہ کھولتی ہوں۔ ہر صفحے پر تازہ خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں۔ کچھ سوال اپنے آپ سے اور کچھ سوال قارئین سے کرنے کو ابال اٹھ رہے ہیں۔ سہ ماہی شمارے ہیں اس لئے ضخامت تو لامحالا ہونی ہی تھی پھر جب یہ خود کو کتابی سلسلہ کہتے ہیں تو ضخامت کی پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جس طرح مشاعرے میں شاعر شروع تو ایک مطلع سے ہوتے ہیں بعدازاں، چھ غزلیں سنا کر دم لیتے ہیں یہی حال اجرا اور کولاژ میں دکھائی دیتا ہے۔ ہر چند اس طرح کا شائع ہونے سے شاعر کے مزاج کا پتہ چلتا ہے لیکن اگر مزاج بھی اچھا نہ ہو تو رسالہ الٹ پلٹ کر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ مدیران نے اتنے پیسے کیوں لگائے کہانیوں کے سلسلے میں بھی اعلیٰ درجہ سامنے نہیں آتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مدیران نے بہت سے نئے لکھنے والوں کو حوصلہ دیا ہے۔ ویسے تو طاہرہ اقبال سنجیدہ لکھنے والوں میں شمار ہوتی ہیں مگر رپورتاژ لکھتے ہوئے ان کا قلم چلتا چلاگیا۔کولاژ میں جہاں شاہدہ تبسم نے اے غزالِ شب کا بہت اچھا تجزیہ کیا ہے، وہیں جلیل ہشمی کی طویل نظم ’’شمائلہ‘‘ دعوت فکر دیتی ہے کہ آخر زندگی صرف عشق و وصال نہیں اور وہ بھی سوسال تک۔ البتہ اقبال نظر اور شاہدہ تبسم کی محنت کی داد دینی پڑتی ہے۔احسن سلیم نے بھی طباعتی ادارہ بھی قائم کیا ہے۔ جس کے توسط ہمیں نظیر اکبر آبادی کی غزلیات کو باقاعدہ شکل میں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ لوگ کتنی محنت کررہے ہیں جبکہ سرکاری اداروں میں ایسے کام ہو ہی نہیں رہے۔ کتابوں کی قیمتیں بہت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو خریدنا اور طلبہ کو پڑھنے کی عادت ڈالنا چاہئے۔سب سے سنجیدہ اور علمی رسالہ ’’بنیاد‘‘ ہے۔ سلیمان ندوی کے خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید کی طرح سلیمان ندوی کے ادارے کے استحکام اور بنیاد کے لئے کیسے کیسے دورے کئے اور کیا کیا پاپڑ بیلے۔ معتقدین کے بارے میں مضامین کے علاوہ مجید امجد کا تنقیدی جائزہ اور سلیم احمد کی نظم و نثر کا تحقیقی جائزہ بھی شامل ہے کہ آج تیس سال بعد سلیم احمد کے پاس کیا تھا۔ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ عابد سیال نے جہاں قدیم چینی شاعری کا تجزیہ کیا تھا وہاں برسبیل تقابل، اردو کی قدیم شاعری بھی تلاش کر لیتے تو اچھا ہوتا۔ ہمارے یہاں مسلسل غزل لکھنے کی روایت اولاً تو ظفر اقبال نے ڈالی ۔ بعدازاں صابر ظفر نے ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ یہ تجربہ کیا ہے۔ محض قافیے اور ردیف ملانے کی کوشش کیا اچھی شاعری کی سند ہوسکتی ہے۔ صابر ظفر چونکہ خود اچھے شاعر ہیں، کہیں کہیں اسلوب میں جھلک دکھلا جاتے ہیں ۔ ویسے تو ہمارے سینئر شاعر ظفر اقبال نے جہاں طویل اور مسلسل غزل میں اچھے شعر نکالے ہیں، وہاں لفظیات کے انوکھے نمونے بھی پیش کئے ہیں۔ادب سے گریز کا ایک انوکھا تجربہ میرے سامنے آیا ہے۔ بہاولپور سے شہزاد قریشی نے میری اور مجھ سے ناآشنائے تقدیس خواتین کو باعلم کرنے اور مثالیں دیکر مضمون اور نفس مضمون کو آشنا کرنے کے لئے ایک بسیط مضمون تحریر کیا جس میں بتایا ہے کہ موسیقی عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ قرآن نے جنت کے انعامات کا جہاں ذکر کیا ہے وہاں اس کی نغماتی نعمت کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موسیقی کا علم سب سے پہلے عربوں کے یہاں مقبول تھا۔ ان دنوں عرب میں اونچے طبقے کی کئی خواتین شعر بھی کہتی تھیں۔ حضرت پیر کرم شاہ نے دف بجا کر استقبال کرنے کے واقعہ کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ مشہور مسلمان سائنسدان الکندی اور الفارابی موسیقی کے فن کے ماہر تھے۔ علامہ آلوسی اور مولانا جعفر شاہ پھلواروی نے موسیقی کے فن پر دقیق کتابیں تحریر کی ہیں۔ مولانا روم نے درویشوں کے آلات موسیقی اور مولانا کی خاص وضع کی دستاریں اور لباس بھی محفوظ ہیں۔ ان کے انداز رقص کو رقص درویش کہا جاتا ہے۔ دنبورہ ، سات سروں والا ساز حضرت شاہ لطیف کی ایجاد ہے۔ حضرت امیر خسرو نے کلاسیکی ساز ، طبلہ اور ستار ایجاد کئے تھے۔ شہزاد قریشی کا مضمون اسلامی حوالوں سے بھرپور ہے مجھے قائل کرنے کے لئے کہ مجھ جیسے دیگر پڑھنے والے لوگ، موسیقی کو مذہب سے خارج نہ سمجھیں۔
خوشی ہے کہ میرے موسیقاروں پہ لکھے مضمون نے شہزاد قریشی کو نہ صرف مضمون لکھنے پہ مائل کیا بلکہ انہوں نے ادارہ اسلامیات کے شائع کردہ بے شمار حوالے کتابچے بھی منسلک کئے ہیں۔ مجھے ان کی اس تحریر سے جعفر شاہ پھلواروی بہت یاد آئے۔ میں لوکل گورنمنٹ میں ملازم تھے یہ زمانہ 1962ء کا۔ جناب پھلواروی صاحب سے ہم نے مائع حمل ادویات اور طریقے استعمال کرنے کو اسلام میں جائز قرار دینے کے کتابچے لکھوائے۔ ہم موسیقی کو بھی جائز قرار دینے کے بارے میں بالتفصیل مضمون بھی لکھوایا اور فیملی پلاننگ کو معقول قرار دینے کے بارے میں کتابچہ لکھوایا۔ یہ تذکرہ ہے 1962 کا جبکہ 2014ء میں بھی رجعت پسند قوتیں کہہ رہی ہیں کہ بچوں کی تعداد کنٹرول کرنے کا کوئی اشتہار ٹیلی وژن پر نہ چلایا جائے۔ گزشتہ دنوں بین الاقوامی کانفرنس اسی موضوع پر تھی۔ بنگلہ دیش کے نمائندے نے بتایا کہ ان کے ملک میں 1980ء میں 3.4فی صد آبادی بڑھوتری کا سلسلہ تھا۔ حکومت نے مساجد کے علماء کو منصوبہ بندی کی ضرورت اور اہمیت کے سلسلے میں نہ صرف تربیتوں بلکہ باقاعدہ مساجد سے اعلانات کی منصوبہ بندی کی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح 1.2فی صد رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں علماء عشاء کی اذان کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ بیبیو! گولی کھا کر سونا، تمہاری صحت کے لئے بہتر ہوگا۔ صلیبی جنگوں کی طرح سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان لڑائی کے لئے نوجوانوں کو جنگجو دستوں میں تبدیل کیا جارہا ہے اور دونوں طرف آبادی کو خوف میں لپیٹا جارہا ہے۔
میں پھر واپس پلٹتی ہوں ان جرائد کی طرف جن کی ضخامت سے تھک کر، میں دیگر موضوعات میں ڈوب گئی تھی۔ آفتاب مضطر کی مسدس کے حوالے سے پاکستان کی کہانی پڑھ کر پھر طالبان کے ظلم اور رعونت میرے سامنے آگئے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ سامنے آگئی کہ کس طرح مذہب کے نام پر حکومت کرنے کا خواب خاک و خوں میں قوموں اور بالخصوص مسلمانوں کو تقسیم و قتل گیری میں ملوث کرتا رہا۔ میں لوٹتی ہوں اپنے ان نوجوانوں کی سمت جو غسل خانے میں چھپ کر ایئرپورٹ پر حادثے میں اپنی جان بچا سکے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو شہید ہوئے، ان کی زندگی رائیگاں تھی۔ مدعا یہ ہے کہ اگر حکومتیں اپنا احتساب کرنے لگیں تو افغانستان کجا، شام اور عراق کی حکومتیں مذہبی زعم میں عوام کو کچلنے اور بے رحمی پر آمادہ نہ ہوں۔میں ایک نظر کمپیوٹر پہ موسل میں لڑائی کا منظر دیکھ رہی ہے اور دوسری نظر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی مدون کی ہوئی ’’بنیاد‘‘ رسالے میں طارق محمود ہاشمی کے مضمون میں اس شعر پہ رک جاتی ہے
پھر نگاہوں پہ امڈ آیا ہے تاریک دھواں
ٹمٹماتا ہے مرے ساتھ یہ مایوس چراغ
تازہ ترین