• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لئے سالہا سال سے دباؤ ڈال رہا تھا، مگر جنرل کیانی جو تین سال آئی ایس آئی کے ڈی جی اور چھ سال فوج کی قیادت سنبھالے رہے ، اُنہوں نے سوات آپریشن کے بعد ایک نیا محاذ کھولنے سے مکمل اجتناب کیا۔ وہ قوم کو یہ احساس بھی دلاتے رہے کہ عوامی حمایت کے بغیر فوج اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتی اور ایک مضبوط انتظامی ڈھانچے کی غیرموجودگی میں دہشت گردوں کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی جاتی ہیں ، اُن کا تحفظ بہت مشکل ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں جناب نواز شریف اقتدار میں آئے ، تو وہ آپریشن کے بجائے امن کو ایک اور موقع دینا اور مذاکرات کے ذریعے طالبان کو قومی دھارے میں لانے کے آرزومند تھے ، چنانچہ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں ایک مذاکراتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جو طالبان کی قیادت سے اِس امر پر بات چیت کرے گی کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور کیا کیا عہد و پیمان ضروری ہیں۔ بدقسمتی سے مذاکرات کا عمل خاموشی سے آگے بڑھنے کے بجائے میڈیا کی نذر ہو گیا۔ میجر عامر جو لوگوں کے مزاج کے مطابق بات چیت کو آگے بڑھانے کا تجربہ رکھتے ہیں ، وہ بھی اپنے ساتھیوں کے شوقِ خود نمائی کا علاج نہ کر سکے۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنی سرگرمیاں معطل کرنے کا جو اعلان کیا تھا ، وہ بھی ایک دورانیے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ صاف ظاہر تھا کہ مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور عسکری قیادت کے لئے سرجیکل اسٹرائیکس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا تھا ، چنانچہ اُس نے قومی سلامتی کی خاطر آپریشن کا راستہ اختیار کیا۔
تازہ ترین سروے کے مطابق شمالی وزیرستان میں دس ہزار غیر ملکی باشندوں نے دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جن میں ازبکوں کی تعداد کوئی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ وہاں تاجک بھی ہیں اور مشرقی ترکمانستان کے چینی بھی اور چیچنیا اور لیبیا سے آئے ہوئے عسکریت پسندبھی۔ اِن میں ازبک سب سے زیادہ خونخوار اور سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے 8اور 9جون کی درمیانی رات سوا گیارہ بجے کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں تو پورے ملک میں ایک زلزلہ سا آ گیا۔ اِن دہشت گردوں کے ارادے مسافر طیاروں کو اغوا کرنے کے علاوہ ہوا بازی کے پورے نظام کو مفلوج کر دینا اور پاکستان کی معیشت اور عالمی وقار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا تھا۔ اِس ہولناک عمل میں جہاں حکومت کی غلط پالیسیوں اور غیر مناسب افراد کی تقرریوں کے بُرے نتائج سامنے آئے ، وہاں ایئرپورٹ سیکورٹی فورس کے جانبازوں کے ناقابلِ فراموش کارنامے بھی نمایاں ہوئے۔ ایک سیکورٹی گارڈ نے زخمی ہو جانے کے بعد غیر معمولی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے آغاز ہی میں تین دہشت گرد موت کے گھاٹ اُتار دیئے۔ ابتدا میں اتنا بڑا نقصان ہو جانے کے باعث دہشت گرد حواس باختہ ہو گئے۔ اِتنے میں رینجرز بھی آ گئے اور فوجی دستے بھی جنہوں نے ازبک دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے میں بڑی مہارت سے کام لیا اور یوں پاکستان ایک بہت بڑے حادثے سے محفوظ رہا ، مگر اِس حادثے کے منفی اثرات زیرِ بحث آ رہے ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کڑے سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ پوچھا جا رہا ہے کہ ایک شخص پر کئی کئی مناصب کا بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے اور حساس تنصیبات کی سیکورٹی میں اتنے بڑے بڑے شگاف کیوں موجود ہیں۔ دہشت گرد مہران نیول بیس اور کامرہ ایئربیس میں بھی پچھواڑے سے داخل ہوئے تھے جہاں سیکورٹی کے انتظامات ناپید تھے اور اِسی طرح کراچی ایئرپورٹ کا پچھواڑہ بھی سب سے زیادہ غیر محفوظ تھا۔
اِن سوالات کی سرگوشیوں میں سیاسی اور عسکری قیادت نے شمالی وزیرستان میں ایک مکمل آپریشن کا فیصلہ کیا جو بڑی حد تک ناگزیر ہو چکا تھا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں وزیراعظم نے جب اِس ضمن میں اپنا پالیسی بیان دیا ، تو اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے اِس کا کھلے دل سے خیرمقدم کیا جو گراس روٹ سے اوپر آئے ہیں اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ ایم کیو ایم کے نمائندے بھی بڑے پُرجوش تھے۔ اے این پی نے بھی کھل کر حمایت کی اور عمران خاں نے بھی ایک سمجھدار سیاسی لیڈر کا کردار ادا کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے گلہ آیا کہ اُن سے مشاورت نہیں کی گئی۔ جماعت اسلامی نے موقف اختیار کیا کہ قوم کو مذاکرات کے نتائج کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا ، تاہم دہشت گردی کے خاتمے اور سدِباب میں وہ قوم کے اجتماعی شعور کے ساتھ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جناب شیخ رشید نے بھی فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد اپنا ٹرین مارچ منسوخ کر دیا اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان آنے کے فیصلے پر نظرثانی کر رہے تھے ، کیونکہ طالبان کے خلاف طاقت کا استعمال اُن کا سب سے بڑا مطالبہ تھا اور اُنہوں نے سب سے پہلے طالبان کے خلاف پوری وضاحت کے ساتھ فتویٰ جاری کیا تھا۔ یوں قومی اتفاقِ رائے کی نہایت اچھی اور سازگار فضا تیار ہوتی جا رہی تھی ، مگر سانحۂ ماڈل ٹاؤن نے پورا منظر ہی بدل ڈالا ہے اور لاہور پولیس کے بعض عناصر کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال نے پورے ماحول کو بہت سوگوار بنا دیا ہے اور ایک طوفان سا اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف نے اپنی ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے زخموں پر مرہم رکھنے کی سیماب صفت کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے ہر مقتول کے ورثاء کو تیس تیس لاکھ روپے دینے اور متعلقہ پولیس کے اعلیٰ افسروں کو معطل کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے ایک رکنی جوڈیشنل کمیشن بھی تشکیل دے دیا ہے ، مگر جذبات کی حدت مزید اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہو گا کہ جن اشخاص نے رات کی تاریکی میں آپریشن کرنے اور پولیس کو گولی چلانے کا حکم دیا ، اُنہیں فوری طور پر کڑی سزا ملنی چاہئے۔ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ چھ سات ہفتوں میں آئے گی ، اُس وقت تک معاملات میں بہت بگاڑ پیدا ہو چکا ہو گا۔ جناب وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہیں ساری کارروائی سے بے خبر رکھا گیا جس پر اُن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اِس حادثے کو ڈاکٹر طاہر القادری بہت ایکسپلائٹ کر سکتے ہیں ، مگر اُنہیں یہ سمجھانا ہو گا کہ شوروغوغا اور شعلہ بیانی سے آپریشن ضربِ عضب کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی کامیابی پر پاکستان کی سلامتی اور بقا کا دارومدار ہے ، اِس لئے پوری قوم کی پُرجوش اور ہمہ پہلو شرکت ازبس ضروری ہے۔ 1965ء کی جنگ اور شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کے درمیان بظاہر بہت بڑا فرق محسوس ہوتا ہے ، مگر اہمیت کے اعتبار سے دونوں ہی واقعات کی ایک کڑی نظر آتے ہیں۔ 1965ء میں بھی ہماری آزادی اور خودمختاری کو بیرونی خطرات لاحق تھے جبکہ آج ہم داخلی محاذ پر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ہمیں اِس بنیادی حقیقت کا پورا ادراک ہونا چاہئے کہ صرف ہماری فوج یہ صبرآزما جنگ جیت نہیں سکتی اوراِسے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے قومی اداروں ، میڈیا،سول سوسائٹی اور بطورِ خاص علماء اور اہلِ دانش کا خوش دلانہ تعاون قدم قدم پر درکار ہو گا۔
عوام کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شامل کرنے کے لئے تحفظِ پاکستان فنڈ قائم کرنا چاہئے کہ شمالی وزیرستان سے لاکھوں افراد کی بے دخلی اور اُن کی نگہداشت پر کروڑوں خرچ ہوں گے اور جنگ پر اخراجات اربوں تک پہنچیں گے۔ اِس کے علاوہ ایک ایسی میڈیا پالیسی وضع کی جائے جو عوام کے اندر جوش وخروش اُبھارنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ منافرت کا سدِباب کرنے اور فوج کا مورال بلند رکھنے میں ایک صحتمند کردارادا کرتی رہے۔ ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنے والوں کے لئے نغمے تخلیق کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔ فوری طور پر ایک ایسا سیل قائم کیا جائے جو سفارتی ، نظریاتی اور نفسیاتی محاذ پر قومی سرگرمیوں کو منظم کرے ، قومی اداروں کے درمیان رابطے مستحکم کرنے کے عمل کو ایک صفحے پر رکھے ، انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کو فعال بنائے اور پوری قوم کو ایک عظیم آزمائش سے سرخرو ہونے کے لئے مستعد رکھے۔اِسی طرح فاٹا میںدوررس اصلاحات کا چارٹر تیار کرنا ہو گا اور خون کے آنسوؤں کو قومی وقار کے نغموں اور ترانوں میں ڈھالنا ہو گا۔
تازہ ترین