• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپریشن عضب چھٹے روز میں داخل ہو گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن لمبا چلے گا اس کے نتائج کیا ہوں گے ماہرین اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو سازشوں اور آپریشنز سے بھرا پڑا ہے۔ سب سے پہلے آپریشن کا نام ’’آپریشن پاکستان‘‘ رکھا گیا تھا جو یکم ستمبر 1947ء کو 23 چارٹرڈ طیاروں کی مدد سے دہلی میں پھنسے پاکستانی ملازمین کو پاکستان لائے تھے جن کی تعداد سات ہزار تھی اور وہ آپریشن پندرہ دنوں میں مکمل ہوا تھا۔ ’’آپریشن پکا قلعہ‘‘ بھی ہوا تھا جس میں 26مئی 1990ء کو حیدرآباد میں پکا قلعہ کے مقام پر سروں پر قرآن اٹھائے گھروں سے نکلتی 20 خواتین بھی موت کے گھاٹ اتار دی گئی تھیں، کلاشنکوفیں اور مشین گنوں کی اندھی گولیوں نے 17 دیگر افراد کی جانیں لے لی تھیں۔ سینیٹ پاکستان کے رکن محسن صدیقی آپریشن کی نذر ہوئے تھے۔ جس سے 28, 27 مئی کے دوران 66 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے تھے۔
’’آپریشن جبرالٹر‘‘ جولائی 1965ء میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کیلئے ایک گوریلا آپریشن کیا تھا۔ اس کے تانے بانے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بنے تھے۔ اس آپریشن کی ناکامی سے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی، اگرتلہ سازش تیار کی گئی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہوا یہ بہت طویل روداد ہے مگر کالم میں اتنا کچھ ہی لکھا جاسکتا تھا۔ ’’آپریشن راہ راست‘‘ اپریل 2009ء میں سوات میں قیام امن کیلئے پاک فوج نے تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولانا صوفی محمد اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ناکامی کی صورت میں شروع کیا تھا جس سے ہزاروں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا، سیاحت کے کاروبار کو ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
’’آپریشن راہِ نجات‘‘ 16 جون 2009ء کو مالاکنڈ ایجنسی جنوبی وزیرستان میں شروع کیا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنا اس آپریشن کا بنیادی مقصد تھا جو 14 اور 15 اگست 2009ء کی درمیانی رات ایک میزائل حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد آپریشن راہِ نجات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔
آپریشن راہِ نجات کا دوسرا مرحلہ 2 اکتوبر 2009ء کو شروع ہوا تھا اس میں پاکستانی فوج کے دو ڈویژن نے حصہ لیا تھا۔ اس کے آغاز کیلئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ دی تھی۔ اس طرح آپریشن راہ نجات کا دوسرا مرحلہ دسمبر 2009ء کو مکمل ہوا تھا۔
’’آپریشن سائیلنس‘‘ یہ اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف آپریشن تھا جس کی حتمی کارروائی 10 جولائی 2007ء کو ہوئی جس کے نتیجے میں مولانا عبدالرشید غازی ان کی والدہ صاحبہ اور لاتعداد طلبا و طالبات جاں بحق ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف آج کل اپنے خلاف دیگر مقدمات کے علاوہ لال مسجد کیس کا بھی سامنا کررہے ہیں۔ ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ جنرل یحییٰ خان کے حکم پر 26 مارچ 1971ء رات ایک بجے ہوا تھا۔ اس آپریشن کی نگرانی میجر جنرل رائو فرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجہ نے کی تھی۔ اس آپریشن میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس کے ساتھی بھارت فرار ہوگئے تھے۔ آپریشن جبرالٹر کی طرح اس کی روداد بھی بہت طویل ہے مگر فی الحال اسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
’’آپریشن فیئر پلے‘‘ یہ آپریشن 5 جولائی 1977ء مغرب کی نمازسے پہلے شروع ہو کر اذان فجر تک جاری رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور جنرل ضیاء الحق کا اقتدار سنبھالنے کے عمل کو ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک طویل کہانی ہے گیارہ سالہ مارشل لاء اور 17 اگست 1988ء تک!
’’ آپریشن کلین اپ‘‘ کراچی کی بستی سہراب گوٹھ میں پاک فوج نے پولیس کی مدد سے 12 دسمبر 1986ء کو علی الصبح آپریشن کیا جسے آپریشن کلین اپ کہا گیا تھا مگر اس آپریشن سے سہراب گوٹھ سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا، اسلحہ منشیات اور نہ دیگر اسمگل شدہ اشیاء۔
’’آپریشن گلیکسی‘‘میں2 جنوری 1984ء کو لاہور کے کچھ فوجی افسران جنہیں پیپلزپارٹی اور خاص طور پر غلام مصطفیٰ کھر کی حمایت حاصل تھی جن میں میجر نثار حسین بخاری، میجر آفتاب چوہدری، میجر محمد صادق اور اسکواڈرن لیڈر طاہر مقصود شامل تھے وہ ضیاء الحق حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھےمگرانہیں عین اس وقت 2جنوری 1984ء کو گرفتار کرلیا تھا جب وہ بھارت سے اسلحہ کی اسمگل شدہ کھیپ وصول کررہے تھے۔ اس سازش میں ملوث جن جن افسران کو سزائیں ہوئی تھیں بے نظیر بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی ان کی باقی سزائیں معاف کردی تھیں۔
’’آپریشن مڈنائٹ جیکال‘‘ یہ ایک سول اور جمہوری حکومت کے خلاف سازش تھی جس کا آغاز میجر عامر جو ان دنوں آئی ایس آئی اسلام آباد آفس میں تھے انہوں نے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر امتیاز کے تعاون اور ایک بزرگ سینیٹر حاجی گل شیر کی مالی مدد کی یقین دہانی سے شروع ہوا تھا مگر ملک ممتاز اعوان، میجر مسعود شریف اور میجر جنرل نصیراللہ بابر نے اس ساری کارروائی اور گفتگو کو جو 28 دسمبر 1989ء سے 6 اکتوبر 1989ء کے دوران ریکارڈ ہوئی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو جو ان دنوں وزیراعظم تھیں انہیں پہنچا دی تھی وہ سازش دراصل بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ممبران کی ہارس ٹریڈنگ پر مبنی تھی۔
بے نظیر بھٹو نے فوجی افسران جن میں میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز شامل تھے کی شکایت اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ سے کی تھی اور ان دو افسران کو فوج سے فارغ کرنے کا کہا تھا جو کچھ لیت و لعل کے بعد انہیں فوج سے نکال دیا گیا تھا۔بہرطور آج کل آپریشن عضب شمالی وزیرستان میں پوری غضب ناکی سے جاری ہے۔ ڈرون حملے بھی ہورہے ہیں اور پاک فوج کے شاہین بمباری بھی کررہے ہیں ہزاروں لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ آپریشن عضب میں پوری قوم ان کے ساتھ ہے حالانکہ قوم سے کسی نے پوچھا تک نہیں یہی گلہ سیاست دانوں کو بھی ہے۔ عمران خان کہا ہے کہ ’’ہمیں اعتماد میں تو نہیں لیا گیا مگر کیا کریں حمایت تو کرنی پڑے گی۔
آپریشن عضب طالبان سے حکومت کے مذاکرات کے ناکام ہونے اور خاص طور سے کراچی جناح ٹرمینل پر گزشتہ دنوں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے شروع کیا گیا ہے جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی تھی۔ اس سانحے میں پاک فوج، کراچی پولیس اور رینجرز نے کارروائی کرکے دس شدت پسندوں کو ہلاک کیا تھا جو ازبکستان کے تھے اور اسلحہ ان کے پاس بھارت کا تھا۔
تازہ ترین