• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرشن چندر کے افسانے ’’بالکونی‘‘ کا مرکزی کردار گلمرگ کے ہوٹل ’’فردوس‘‘ میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے کمرے کی بالکونی سے جو نظارہ کیا جا سکتا ہے وہ کسی دوسرے کمرے سے نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ غروب آفتاب کا نظارہ تو بہت ہی دلکش ہوتا ہے ۔ اس لیے غیر ملکی سیاحوں سمیت ہوٹل میں رہائش پذیر زیادہ تر لوگ اسی کمرے کی بالکونی میں آکر بیٹھنا پسند کرتے ہیں ۔ وہاں ہونے والی نشستوں میں دنیا بھر کی سیاست ، تاریخ ، ادب، فلسفہ ، موسیقی ، آرٹ سمیت ہر موضوع پر بات ہوتی ہے ۔ یہ وہ عہد ہے جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی تضادات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور دنیا ’’جنگ عظیم‘‘ کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے لیکن اجتماعی عالمی شعور صورت حال کا مکمل ادراک کر چکا ہے اور وہ انقلابات برپا کرنے کے لیے تاریخ فہمی کی تمام ضروری منزلیں طے کر چکا ہے ۔ اس کمرے کے اوپر والے کمرے میں ایک عمر رسیدہ اطالوی اپنی بیٹی ’’میریا‘‘ کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ دونوں بھی اس بالکونی میں آکر بیٹھتے ہیں۔ میریا ہمیشہ اداس اور غمزدہ رہتی ہے۔ بالکونی میں بیٹھے ہوئے ایک دن افسانے کا مرکزی کردار میریا سے دریافت کرتا ہے کہ جنگ عظیم کے بارے میں اس کا کیا خیال ہے ۔ وہ کہنے لگی ’’جنگ..... جنگ ..... تم بہت اچھے ہو..... جنگ بہت بری شے ہے ۔ میں ایک عورت ہوں ۔ میں آدمی کی محبت کو سمجھ سکتی ہوں ، اس کے قاتلانہ جذبے کو نہیں سمجھ سکتی ۔ یہ کشت و خون کیوں ہوتا ہے؟ اس وقت میرا بھائی فوجی قیدی ہے‘‘۔ اس کی آنکھیں نم ناک ہو جاتی ہیں ۔ افسانے کا مرکزی کردار کہتا ہے کہ ’’معاف کرنا یہ جنگ تمہارے فسطائیوں نے شروع کی ہے‘‘۔ وہ بولی ’’میں فسطائی نہیں ہوں،نہ ہی میرا بھائی فسطائی تھا۔ میرا باپ چھڑیاں بناتا ہے اور رات کو کنسرٹینا ( Concertina ) پر گانا پسند کرتا ہے۔ مجھے پیانو سے عشق ہے ۔ میں نے کبھی سیاست کے متعلق نہیں سوچا،ہمیشہ آزاد اور لاتعلق سی رہی ہوں ۔ مجھے فسطائیت قطعاً پسند نہیں ۔ جب میں پیدا ہوئی تو عہد نامہ ورسائی پر دستخط ہو چکے تھے اور میں ہندوستان میں تھی۔ مجھے مسولینی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ اس نے تو میرا پیانو سکھانا بھی بند کر دیا ہے‘‘۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور وہ بولتی جا رہی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ ’’دراصل یہ ہماری غلطی تھی، ہم خوشی کے راگ الاپتے رہے، کنسرٹینا بجاتے رہے،ہم سیاست سے بے بہرہ رہے اور ہم نے فسطائیوں کو من مانی کارروائیاں کرنے کا موقع دیا‘‘۔ بالکونی کی یہ گفتگو 21 جون کے حوالے سے یاد آئی، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کا یوم ولادت ہے ۔ کرشن چندر کے افسانوی کردار ’’ میریا ‘‘ نے سیاست سے لاتعلقی اور فسطائیوں کو من مانی کارروائیاں کرنے کا موقع فراہم کرنے کی جس غلطی کا اعتراف کیا ، وہ ہر عہد میں کروڑ ہا انسان کرتے ہیں لیکن تاریخ میں کوئی بے نظیر بھٹو پیدا ہوتی ہیں ، جو انسانوں کی اس غلطی کا ازالہ کردیتی ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ایسے عہد میں جنم لیا ، جس میں ’’نو فسطائی‘‘ ( نیو فاشسٹ ) قوتوں نے ایسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں پہلی دو عالمی جنگوں کی طرح دو فریقین آپس میں نہیں لڑ رہے بلکہ ایک ہی فریق نے یکطرفہ جنگ مسلط کررکھی ہے اور عالمی جنگوں سے زیادہ پوری دنیا میں خونریزی ہو رہی ہے۔ دور دور تک حالات کے تبدیل ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے ۔ لوگ اس عذاب سے نکلنے کے لیے تیسری جنگ عظیم شروع ہونے کی دعائیں کررہے ہیں۔ پاکستان اس یکطرفہ جنگ کا حقیقی میدان بنا ہوا ہے ۔ کرشن چندر کی ’’میریا‘‘ اپنے عہد کا ایک باشعور کردار ہے اور اس کا یہ کہنا درست ہے کہ سیاست سے لاتعلقی ایک جرم ہے کیونکہ فسطائیوں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن اگر کرشن چندر جیسے انتہائی دانشمند ادیب کو یہ علم ہوتا کہ نو فسطائی عہد میں سیاست سے تعلق کی بے نظیر بھٹو نے ناقابل یقین قیمت ادا کی ہے تو شاید بالکونی میں ہونے والی گفتگو میں ایک انتہائی خوفناک عہد کی وہ تفہیم بھی ہو جاتی جو اب تک نہیں ہو سکی ہے ۔ 18 اور 19 اکتوبر2007ء کی درمیانی شب محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی قافلے پر دہشت گردوں کے وحشیانہ حملے میں ہونے والے قتل عام اور خونریزی کے بعد 19 اکتوبر کی شام کو بلاول ہاؤس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پریس کانفرنس منعقد ہوئی ۔ میں نے ہی ان سے یہ سوال کیا تھا کہ اس خون آشام واقعے کے بعد کیا وہ پاکستان میں رہیں گی اور کیا وہ اپنی انتخابی مہم جاری رکھیں گی تو انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد انتہائی مضبوط لہجے میں کہا کہ ’’میں پاکستان کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گی، میں میدان خالی نہیں چھوڑوں گی، میں جمہوریت دشمنوں ، دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو یہ موقع نہیں دوں گی کہ وہ اپنی مرضی اور اپنا ایجنڈا ہم پر مسلط کریں‘‘۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے میدان میں رہ کر اپنی جان قربان کردی اور سیاست سے لا تعلق رہنے والے بے شمار لوگوں کی غلطیوں کا ازالہ کردیا ۔ اپنی اس قربانی سے انہوں نے نوفسطائی قوتوں کے پاکستان کے لیے ایجنڈے پر عمل درآمد میں رکاوٹ پیدا کردی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے شاید یہ تعلق اس لیے نبھایا ہو گا کہ 21 جون 1978ء کو موت کی کال کوٹھڑی سے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی 25 ویں سالگرہ پر انہیں جو خط لکھا تھا ، اس میں انہوں نے اپنی بیٹی کو سالگرہ کے تحفے میں عوام کا ہاتھ دیا تھا ۔ آج پھر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’میریا‘‘ کی طرح اگرچہ فسطائیت کے مخالف ہیں لیکن وہ حالات درست ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں جو جنگ شروع ہوئی ہے وہ فیصلہ کن ہو گی اور اس سے حالات بہتر ہو جائیں گے ۔ یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عوام کی جنگ کوئی اور لڑے گا ۔ کرشن چندر کی ’’میریا‘‘ حالات کی بہتری کی امید میں ’’بیتھوون‘‘ (Beethoven) کا نغمہ بہار گاتی رہتی تھی جبکہ ہمارے حالات اس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ 21 جون کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے 62 ویں یوم ولادت پر آج کے کسی کرشن چندر کو بالکونی میں کوئی ایسا کردار بھی لانا ہو گا جو اقبال کا ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ‘‘ والا کلام گا سکے۔
تازہ ترین