• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی سطح پر ناقابل دفاع ظلم ہوا ہے، انتظامی اعتبار سے نااہلی کا بدترین مظاہرہ کیا گیا ہے اور سیاسی تناظر میں درجہ اول کی حماقت سرزد ہوئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے مدرسے کے باہر ایستادہ رکاوٹیں ہٹانے کے قضیے پر پولیس اور کارکنوں کے درمیان رات بھر دھینگا مشتی جاری رہی جو دن چڑھے پولیس فائرنگ پر منتج ہوئی ۔ دس کے قریب معصوم اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ یہ رکاوٹیں کئی برس پہلے لگائی گئی تھیں اور امن عامہ موجودہ صورت حال میں کم و بیش ہر اہم سرکاری اور غیر سرکاری عمارت کے باہر موجود ہیں۔کیا لاہور میں تجاوزات کے خلاف کوئی مہم جاری تھی؟ اس کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ منہاج القرآن کی مذکورہ عمارت پاکستان عوامی تحریک کا مرکزی دفتر بھی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ زمین وزیر اعظم نے اپنی سیاست کے ابتدائی برسوں میں طاہر القادری کو دان کی تھی۔ انقلابات ہیں زمانے کے… پنجاب پولیس کو آدھی رات کے بعد یہاں یلغار کرنے کی کیا سوجھی؟رات بھر پولیس اور منہاج القرآن کے کارکنوں میں تصادم ہوتا رہا ، وزیراعلیٰ اوردوسرے سیاسی رہنمائوں نے مداخلت کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی؟طاہر القادری نے 23 جون کو وطن واپس آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس بھی پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا تھا۔ ایک قافلہ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے۔ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔ شنید ہے کہ تب پنجاب حکومت نے اس دھاوے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اب لاہور اور اسلام آباد میں مسلم لیگ نواز کا طوطی بولتا ہے۔ ملک کی سیاسی صورت حال حسب معمول طوفانوں کی زد میں ہے۔ کچھ خود ساختہ اور کچھ خود کاشتہ سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری تھی کہ طاہر القادری کو دہری شہریت کی بنا پر پاکستان میں سیاسی مہم جوئی سے روک دیا جائے۔ جمہوریت نواز سیاسی قوتوں نے مشورہ دیا تھا کہ انتظامی ہتھکنڈوں سے طاہر القادری کو روکنا گویا ان کے بھاڑ میں ایندھن جھونکنے کے مترادف ہوگا۔ مخالفین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں یہ خاصہ پایا جاتا ہے کہ اسے نیک نیتی سے جو مشورہ دیا جائے یہ ادبدا کر اس کی الٹ سمت میں دوڑتی ہے۔ کون مانے گا کہ منگل کی صبح جب ہنگامہ اپنے عروج پر تھا تو وزیراعلیٰ اس طوفان سے بے خبر تھے۔ ممکن ہے کہ افسر شاہی کے کل پرزوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری جتانے کے لئے یہ حماقت مآب منصوبہ گھڑا ہو۔ لیکن یہ روایت بھی ہمارے ہاں موجود ہے کہ سیاسی قیادت اپنے غلط فیصلوں کا لاشہ انتظامیہ کے دروازے پر چھوڑ آتی ہے۔ یہ معاملات پولیس اور انتظامیہ پر نہیں چھوڑے جاتے کیونکہ ہماری ناتواں سیاسی ثقافت میں معمولی غفلت کے نتیجے میں بہت بھیانک نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔
1977ء کے انتخابات کے بعد بھٹو صاحب زانو پیٹتے رہ گئے کہ لاڑکانہ پلان تو مقامی ڈپٹی کمشنر خالد احمد کھرل کے ذہن رسا کی تخلیق تھا لیکن یہ سوال ختم نہ ہوسکا کہ بھٹو صاحب اپنے بلامقابلہ انتخاب کے عواقب سے بے خبر کیوں رہے۔ غضب خدا کا ایک نہ دو ، آٹھ لاشیں گر گئیں ۔ لاہور کے قلب میں تین گھنٹے تک بندوقیں سر ہوتی رہیں ۔نچلے متوسط طبقے کے خوش عقیدہ غریب نوجوان ،سفید ریش بزرگ اور گھریلو عورتیں پٹتی رہیں۔ شہباز شریف منظر سے غائب تھے۔ رانا ثنا ء اللہ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ مسلم لیگ نواز کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سیاسی معاملات میں تھانہ محرر کی کہانیاں نہیں چلتیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ منہاج القرآن کے دفتر سے فائرنگ کی گئی ہو لیکن جائے وقوعہ کی ویڈیو سے یہ باور نہیں ہوتا کہ پولیس محض قانون کی پاسداری میں ڈنڈے برسا رہی تھی۔ لاہور پولیس میں فرض شناسی کا ایسا ولولہ اٹھا کہ سیاسی قیادت کو مداخلت کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر ہمارے ملک میں حکومت اور انتظامیہ میں ایسا تعلق موجود ہوتا جیسا برطانوی حکومت اور ا سکاٹ لینڈ یارڈ میں ہے تو یہ سوال نہ اٹھتے۔ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو لندن میں گرفتار کیا گیا۔ کسی کو یارا نہیں ہوا کہ برطانوی وزیراعظم یا برسراقتدار جماعت کی کسی مفروضہ سازش کی طرف اشارہ بھی کرے۔ ہمارے ہاں ایسی صورت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو صدر مملکت کے خطاب سے ٹھیک دو روز پہلے قائد حزب اختلاف کے والد محترم پر ایف آئی اے حملہ آور ہوتی ہے اور سیاسی منظر زیرو زبر ہوجاتا ہے۔ رہائش گاہوں کے باہر حفاظتی رکاوٹوں کی آڑ میں سیاسی فائدے اٹھانے کی روایت بھی موجود ہے۔
میاں منظور وٹو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ماڈل ٹائون لاہور میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہرایسا ہی ناٹک رچایا گیا تھا۔ ابھی چند ماہ پہلے کراچی میں بلاول ہائوس کے باہر حفاظتی اقدامات پرکچھ سیاسی قوتوں کی رگ احساس پھڑک اٹھی تھی۔ ماڈل ٹائون واقعے کی تحقیقات کے لئے ہائیکورٹ کے فاضل جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے اور طاہر القادری صاحب نے حسب روایت دو ٹوک فیصلہ سنا دیا ہے کہ نہ حکومت کو مانتے ہیں اور نہ عدالتی کمیشن کو۔ طاہر القادری صاحب کی سوچ سیاسی نہیں ورنہ انہیں احساس ہوتا کہ حکومت نے دانستہ یا نا دانستہ ان کے لئے سیاسی مقبولیت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو خود ان کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ وہ ٹیلی ویژن پر کارکنوں سے جان کے نذرانے مانگ رہے تھے۔ درجن بھر جانوں کا یہ تحفہ انہیں پیش کردیا گیا۔ اب انہیں عدالتی کمیشن کو تسلیم کر کے اپنی ذہانت اور خطابت کا خراج وصول کرنا چاہئے۔ طاہر القادری صاحب مگر ایسے انقلاب کے داعی ہیں جہاں ان کا حرف فصیح الزام کی صداقت پر دلیل ہو۔ اگر رانا ثناء اللہ نے منہاج القرآن کو ریاست کے اندر ریاست قرار دے کر حکومتی اقدام کے لئے بدتر از گناہ عذر پیش کیا اور پولیس حکام نے منہاج القرآن سے تین بندوقیں برآمد کرکے عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کرنے کی یاد تازہ کی تو طاہر القادری بھی پیچھے نہیں رہے۔ فرماتے ہیں ،’’ہمیں فوج کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے‘‘۔ اس سانحے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے بینرز پہ لکھا تھا ’’پاک فوج زندہ باد‘‘۔ طاہر القادری نے پچھلے برس اسلام آباد میں چیف جسٹس زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے۔ اب آزاد عدلیہ کا نعرہ غالباً مرغوب نہیں رہا۔ پاکستانی فوج کوئی سیاسی فریق تو نہیں جس کی حمایت کا دعویٰ کیاجائے۔ اور آپ کی کیا تخصیص ہے؟ پاکستان کا ہر شہری پاکستانی فوج کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کے شہری کسی دوسرے ملک کی فوج کی حمایت تو نہیں کریں گے۔ کھل کے کہئے کہ آپ سیاست میں غیر جمہوری مداخلت کے داعی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ آپ کی حمایت ایسی بلا ہے جسے کوئی چمٹے سے بھی چھونے کو تیار نہیں۔ آپ کی حمایت تو ایسی خوش قدم واقع ہوئی ہے کہ جس کے نام قرعہ نکلتا ہے وہ کانوں پہ ہاتھ دھرتا ہے۔ پچھلے برس چیف جسٹس نے محض رفع حجت میں آپ کو ایسا جھٹکا دیا کہ آپ بلبلاتے ہوئے عازم کینیڈا ہوئے۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ایک روز پہلے آپریشن عضب شروع ہوا تھا ۔ ملک کا سب سے بڑا ٹیلی ویژن چینل بند ہے اور صحافت کے نوآموز کھلاڑی پورا دن لاہور کے ماڈل ٹائون کا حال بتاتے رہے۔ وزیرستان میں پاکستان کی بقا کے لئے شروع ہونے والی جنگ پس منظر میں چلی گئی۔
جمہوری اختلاف رائے میں اصول یہ ہے کہ فریق مخالف کا انسانی احترام ہر حالت میں ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ایسا نہ کیا جائے تو رائے اپنے مقام سے گر کر تعصب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ تعصب کو ظلم سے الگ کرنے والی لکیر بہت باریک اور دھندلی سی ہوتی ہے۔ لاہور میں ظلم ہوا ہے اور شاید سب سے بڑا ظلم یہ کہ حکومت نے جمہوریت کی وکالت کرنے والوں کی جیب کاٹ لی ہے۔ صحافی تو بابو وارث اورملتان کا ادنیٰ کارکن حاجی ظہور نہیں ہوتا ، کسی اصول اور اخلاقی قدر کی روشنی میں اپنی دلیل دیتا ہے۔ اگر جمہوریت کو گلو بٹ کے روپ میں درشن دینا پسند آئے تو دلیل کے وکیل کی جیب کٹ جاتی ہے۔
تازہ ترین