فارن آفس میں ہوتے ہوئے اور بعد میں بھی راقم کو متعدد بار انڈیا جانے کا موقع ملا ہے۔ پہلی ہند یاترا دسمبر 1982ء میں ہوئی تھی اور بھارتی سرکار نے ہماری تواضع سلمیٰ آغا کی فلم ’’نکاح‘‘ سے کی تھی جو ان دنوں مقامی سنیمائوں میں لگی ہوئی تھی۔ حالیہ الیکشن سے چند ہفتے پہلے بھی ایک سیمینار کے سلسلے میں وہیں تھا۔ ایک بار خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے عرس میں شرکت کیلئے جانے والے پاکستانی زائرین کے وفد کی سربراہی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ دہلی، ممبئی، الہ آباد، علی گڑھ، آگرہ، فتح پور سیکری، جے پور اور اجمیر شریف جیسے شہروں کے علاوہ بھی ملک کا بیشتر حصہ گھوم پھر کر دیکھا ہے۔ دہلی اور اجمیر شریف کی درگاہوں میں ہندوستان کے کونے کونے سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور ان کی حالت زار کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تفریحی اور تاریخی مقامات کی سیر کے دوران ہر عمر، علاقے اور طبقے کے ہندوئوں سے بھی مکالمہ رہا۔ سرکاری، نیم سرکاری اور نجی تقریبات سے بھی بہت کچھ اخذ کیا۔ چنانچہ ان 32؍برسوں کے ذاتی مشاہدے، تجربے اور مطالعے کو اگر محض ایک جملے میں بیان کرنے کو کہا جائے تو میں وہی کہوں گا جو اس تحریر کا عنوان ہے ’’پاکستانیو! اللہ کا شکر ادا کرو‘‘ ہمارے ہاں کے بعض مذہبی پیشواؤں کا رہن سہن دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ پرتعیش بنگلے، جدید گاڑیوں کے فلیٹ، بھری جیبیں، بھرے پیٹ، لباس فاخرہ اور محافظوں کا ہجوم…! غرض کون سی نعمت ہے جو انہیں میسر نہیں جبکہ بھارت میں معاملہ بالکل ہی دوسرا ہے۔ دہلی میں درگاہ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے سجادہ نشین جناب طاہر نظامی سے ملاقات ہوئی تو مشائخ والا کروفر چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔ دعوت کیلئے گھر لے گئے۔ مختصر سی اقامت گاہ کی گلی اس قدر تنگ کہ واقعتاً دم گھٹتا ہے۔ مسلمانوں کو بلاوجہ پاکستان کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کے ہرہر فعل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قطب مینار پر ممبئی سے آئی ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ تعارف ہوا تو ہم (بیگم بھی ہمراہ تھیں) نے بتایا کہ جالندھر سے ہیں اور مدت سے آسٹریلیا میں آباد ہیں۔ یہ پردہ داری اس لئے ضروری تھی کہ وہ ہمیں اپنا ہی سمجھیں اور بات چیت کھل کر کریں۔ ہندوستان کی سرزمین پر شناخت کا یہ کور (Cover) ہم نے ہمیشہ اوڑھے رکھا اور کام بھی بہت آیا کیونکہ کسی پاکستانی کے ساتھ کھل کر بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ باتوں باتوں میں مسلمانوں کا ذکر آیا تو 12/13برس کا لڑکا بول اٹھا۔ ’’انکل! ان کا تو ذکر ہی کیا، پکے پاکستانی ایجنٹ ہیں، سرکار نے پتہ نہیں ادھر کیوں رکھ چھوڑے ہیں، میرا کلاس فیلو ہے نا سلیم! ہماری گلی میں ہی رہتا ہے، 2011ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہمارا مقابلہ پاکستان کے ساتھ تھا۔ جب ہم نے پاکستان کو 29؍رنز سے ہرا دیا تو اس کی حالت دیکھنے لائق تھی، ہم گلی میں انڈیا کی فتح سیلی بریٹ کررہے تھے تو اس کی ماں نے لائٹ آف کرکے کواڑ بند کرلئے تھے گویا کہ گھر میں سوگ ہوگیا ہو انکل! ان کیلئے تو سوگ ہی تھا، ان کا پاکستان جو ہار گیا تھا۔‘‘
وطن عزیز میں اور تو کسی چیز کی کمی ہوسکتی ہے مگر دانشور ہیں کہ کناروں سے ابل رہے ہیں اور دنیا جہاں کا کوئی موضوع ان کی جولانیوں سے محفوظ نہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ چند ایسے ہی نابغوں سے پالا پڑ گیا جو مصر تھے کہ تخلیق پاکستان ایک غلط اقدام تھا جس نے خطے کے مسلمانوں کو سوائے پچھتاوئوں کے کچھ نہیں دیا۔ دلیل آئی کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 54؍کروڑ مسلمان یکجا ہوتے تو آزاد ہندوستان میں ان کی مارمار بس بس ہوتی اور ہندو اکثریت انہیں کسی طور پر نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔ یوں تو جاہلوں کے جواب میں خاموشی کا حکم ہے مگر اس خدشے سے کہ متحدہ ہندوستان کے عشق میں کہیں بہت آگے نہ چلے جائیں، عرض کی کہ اس وقت بھی تو اسلام بھارت کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ مسلمان کم و بیش 18؍کروڑ اور ملک کی کل آبادی کا 15؍فیصد ہیں۔ سیکولر انڈیا کے پہلے عام انتخابات 1952ء میں ہوئے تھے، حالیہ انتخابات 16؍ویں لوک سبھا کیلئے ہیں۔ ان باسٹھ برسوں کے دوران کسی ایک انتخاب میں بھی مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نشستیں نہیں ملیں۔ سب سے زیادہ 49؍مسلمان ممبران پارلیمنٹ 1980ء کے انتخابات میں منتخب ہوئے تھے، یہ گنتی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔ پچھلی یعنی 15؍ویں لوک سبھا میں 30؍مسلم رکن منتخب ہوئے تھے اور اب 16؍ویں یعنی موجودہ لوک سبھا میں پہنچنے والے مسلمانوں کی تعداد صرف 24؍ہے جو ایوان کی کل تعداد کا 4.4؍فیصد ہیں جبکہ ان کی آبادی 15؍فیصد سے بھی زائد ہے۔ اترپردیش اور مہاراشٹر جیسی معقول مسلم آبادی کی ریاستوں سے پہلی بار ایک بھی مسلمان پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہوا۔
مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ لینے اور سدھار کی سفارشات مرتب کرنے کی غرض سے سابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے 2005ء میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس راجندر ساچر کی سربراہی میں تشکیل پانے والی اس 6؍رکنی کمیٹی نے 403؍صفحات پر مشتمل جامع قسم کی رپورٹ تیار کی جو 2006ء کے اواخر میں لوک سبھا میں پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مسلمان اچھوتوں سے بھی بدتر زندگی بسر کررہے ہیں اور 15؍فیصد آبادی والے مسلمانوں کا سرکاری ملازمتوں میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انڈین ایڈمنسٹریٹر سروس (IAS) وہ 3؍فیصد پولیس سروس میں 4؍فیصد اور فارن سروس میں محض 1.8؍فیصد ہیں۔ ریلوے اور محکمہ صحت میں ان کا تناسب البتہ 4.5؍فیصد ہے۔ مرکز اور تمام ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب کا ایک تہائی بھی نہیں۔ ساچر کمیٹی نے فوج کے مختلف رینکس میں مسلمان عہدیداروں کی تعداد جاننے کی کوشش بھی کی تھی جس میں اسے ناکامی ہوئی۔ فوجی جنتا کی طرف سے دلیل آئی تھی کہ انڈین آرمی ایک سیکولر ادارہ ہے، اسے مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے۔ آرمی ہائی کمانڈ کے علاوہ اس وقت کے لیڈر آف دی اپوزیشن ایل کے ایڈوانی نے بھی ساچر رپورٹ کی اس تجویز کا برا منایا تھا اور احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کرگئے تھے۔ جس پر لوک سبھا کے اندر سے ہی آوازیں اٹھی تھیں کہ آخر اس قدر پردہ داری کیوں…؟ فوج میں مسلمانوں کی تعداد بتانے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ یہ تردد دراصل اس لئے تھا کہ کل آبادی کا 15؍فیصد ہونے کے باوجود انڈین آرمی میں مسلمانوں کی نمائندگی محض 2؍فیصد ہے جبکہ سکھوں کا جو کل آبادی کا محض 1.8؍فیصد ہیں، فوج میں حصہ 8؍فیصد ہے۔ یعنی آبادی کے تناسب سے چار گنا سے بھی زائد اور کئی سکھ جرنیل بھارتی فوج کی سربراہی بھی کرچکے ہیں جبکہ یہ اعزاز کسی مسلمان کے حصے میں نہیں آیا۔
دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی غرض سے خصوصی اقدام کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی مرکزی اور صوبائی ملازمتوں میں اقلیتوں کیلئے ان کی آبادی کے تناسب سے 5؍فیصد کوٹہ مقرر ہے اور ماضی کی کمی، کوتاہی پوری کرنے کیلئے 10؍فیصد تک نشستیں بھی اقلیتوں کیلئے مختص کی جارہی ہیں تاکہ مجموعی طور پر تمام محکموں اور ملازمتوں میں ان کا کوٹہ جلد ازجلد 5؍فیصد کی سطح تک پہنچ سکے۔ پارلیمنٹ میں بھی ان کی نمائندگی کا اہتمام ہے۔ جنرل الیکشن میں منتخب نہ بھی ہوں، نامزدگی کے ذریعے انہیں ایوان کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ سیکولرازم کے تمام تر دعوئوں کے باوجود انڈیا اس حوالے سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور مسلمان بتدریج پارلیمنٹ اور سرکاری ملازمتوں سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔