• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دور تھا جب ریاستوں کے بادشاہ اپنی رعایا پر ظلم کرنے کو اپنا حق گردانتے تھے اور اپنی تسکین کے لئے ان کو سزا دینے کے نت نئے طریقے وضع کرتے تھے۔کبھی کسی کو زندہ دیوار میں چنوایا گیا تو کبھی ہاتھی کے قدموں تلے روندوا دیا گیا مگر دلچسپ امریہ ہے کہ ایسا کرنے پر کسی حکمران بادشاہ کو احساس گناہ کی سزا تک سے نہ گزرنا پڑا اور وہ اپنا حق تصور کرتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے رہے۔ 1215ء میں تاریخ نے کروٹ بدلی ،میگنا کارٹا لکھا گیا۔ جس کے ذریعے برطانیہ کے عوام نے بادشاہوں سے اپنے حقوق منوائے۔ تہذیب نے ترقی کی اور بادشاہوں سے اختیارات عوام کی طرف منتقل ہوئے۔ یہ وہی دور تھا جب آج کے ترقی یافتہ ملکوں کے آئین لکھے گئے۔جس میں انسانی حقوق کے تحفظ کو اولین ترجیح اور فوقیت دی گئی پھر تاریخ نے وہ دور بھی دیکھا جب برطانیہ سے ہزاروں میل دور اس خطے پر جس کو آج ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کہتے ہیں، گورے آپس میں برسرپیکار ہوئے ۔ 1776ء میں اس خطے پر رہنے والے لوگ اپنے حقوق کا علم لے کر چلے اور برطانوی سامراج کا محکوم رہنے سے انکار کردیا پھر امریکہ کا آئین لکھنے کے لئے اس وقت کے بڑے جینوسن ،میڈائسن اور واشنگٹن جیسے لیڈر مل بیٹھے اور آئین کے خدوخال وضع کرنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ نتیجتاً1787ء میں دنیا کا بہترین آئین وجود میں آیا ۔ انہوں نے امریکہ کے آئین میں سب سے زیادہ جگہ انسانی حقوق کو دی۔امریکی معاشرہ جس پر اگر آج ساری دنیا رشک کرتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس معاشرے میں انسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ مساوات و برابری ہے،انسان کی قدر ہے اور وہ تمام اصول جو نبی آخرالزماںﷺ نے اپنی امت کو دیئے ،امریکہ اور اس جیسے معاشرے اس کی زندہ تعبیر ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کی ،اسلام کے نام پر الگ ملک بھی حاصل کرلیا ،اس دین کے نام پر جس کی نہ صرف تعلیمات بلکہ عبادات میں بھی برابری ،مساوات اور انسانی حقوق کا درس ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا کہ ایک انسان کا قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ہم نے دنیا کو دکھانے کے لئے اپنے آئین میں انسانی حقوق کے باب تو لکھ دیئے لیکن طبقات زدہ اس معاشرے میں حکمران طبقے کے ذہن سے حکمرانی کا نشہ آج تک نہ اترا۔ لوگوں کو حکمران طبقہ آج بھی بے حسی سے اپنے قدموں تلے روندتا چلا جارہا ہے۔
چار روز قبل جو کچھ داتا کی نگری میں کیا گیا پوری ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی،لاہور کے سوگوار لوگوں کا ذکر آتا ہے تو بزم حیات کے جام لبوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پے در پے دل کے تار ٹوٹ جاتے ہیں ۔کیفیت کچھ ایسی ہے کہ ہمت التجا ہے نہ ضبط کا حوصلہ ۔زندہ دلان لاہور تو کبھی ایسے نہیں تھے۔بچپن سے لے کر گزشتہ سال تک لاہور میں رہا، پلا بڑھا میں نے تو کبھی لاہور کے غیور عوام کو ایسا نہیں پایاتو پھر پولیس کے بہیمانہ تشدد کی انتہا کیا مشرف دور کی یاد تازہ نہیں کررہی تھی؟پولیس تو لوگوں کے جان و مال کی محافظ ہوتی ہے مگر کیا محافظ ہی اپنوں پر گولیاں برساتے ہیں۔ کیا کوئی غیبی شخص پولیس سے ایسا کروارہا تھا۔
گلوبٹ کو جس طرح ایک پولیس افسر کامیاب کارروائی کے بعد تمغہ امتیاز سے نواز رہے تھے اس واقعے نے تو پولیس سروس آف پاکستان کے افسران کا بھرم ہی توڑ دیا ۔لاہور پولیس کے سینئر ارباب اختیار کہتے ہیں کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران گولی چلانے کا حکم اوپر سے دیا گیا مگر نام لینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ خادم اعلیٰ جو لاہور سے کئی سو میل دور راجن پور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی حوا کی بیٹی کی پکار پر پہنچتا ہے،وہ شہباز شریف جس نے اپنے داماد کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی کڑی سزا دی مگر ان کی ناک تلے اتنا بڑا سانحہ ہوگیا اور انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔آپ کا بھنبھور لٹ رہا تھا اور آپ اپنے مشیران پر اعتماد کئے بیٹھے تھے۔مجھے تو اس پر وہ شعر یاد آگیا کہ
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
گزشتہ رات آپ کی جذبات سے بھرپور نیوز کانفرنس ایک اچھا قدم ضرور ہے مگر عوام آپ سے مزید توقعات رکھتے ہیں۔جن عوام نے آپ کو اتنا بھرپور مینڈیٹ دیا کہ آپ پہلی بار صوبائی اسمبلی میں 300سے زائد نشستیں لے کر پہنچے وہ آج آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قتل عمد کی سزا تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302میں درج ہے مگر لاہور پولیس کی بے حسی کی سزا کیا ہوگی۔لاہور پولیس تو وہی کچھ کرتی رہی جو تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مسخ شقوں میں درج ہے۔یہی وجہ تھی کہ یہ طالب علم گزشتہ کئی ماہ سے اس آرڈیننس کو کالا قانون لکھتا رہا اور بالآخر بہیمانہ انداز میں اس کا استعمال سب نے دیکھ ہی لیا۔نہتی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں پر جس انداز میں براہ راست گولیاں برسائی گئیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ خادم اعلیٰ صاحب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس جابر کا تعین کریں جس نے اپنوں سے فرعون کے لہجے میں بات کرنے کا حکم دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ماضی میں اپنے قریبی چیف سیکریٹری جاوید محمود کو ان کے عہدے سے ہٹایا جانا۔ شمائلہ رانا، چوہدری عبدالغفور اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار دوست کھوسہ کی صورت میں حکمران جماعت نے چند اچھی مثالیں قائم کیں۔ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شفاف تحقیقات کے لئے اپنے پسندیدہ سیکریٹری اور صوبائی وزیر قانون کی قربانی ایک اچھا فیصلہ ہے مگر معاملہ یہیں نہیں رکنا چاہئے۔عوام آپ سے تاریخی انصاف کی توقع کررہے ہیں۔
جہاں پر پنجاب حکومت اور پولیس کو اس اندوہناک واقعہ کا مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے وہیں میری ذاتی رائے میں علامہ طاہر القادری بھی اس واقعے کے ذمہ دار ہیں۔انہیں ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مذہب کو جواز بنا کر لوگوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اپنی ہی انتظامیہ کے سامنے لا کر کھڑا کر دیں۔ لاہور پولیس نے واقعی بہت زیادتی کی مگر علامہ صاحب جو کچھ کرنے جارہے ہیں کیا اس سے مزید خون خرابہ برپا نہیں ہو گا۔ ان کا مقصد ہی اپنے پیروکاروں کی لاشوں پر سیاست کرنا ہے، جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔لاہور واقعہ قابل مذمت ہے مگر اس کو جواز بنا کر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی باتیں کرنے والے بھی اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں ۔قارئین جانتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا اصل ایجنڈا اور مقصد کیا ، حکومت کو ایسے افراد سے سختی سے نپٹنا ہوگا مگر علامہ صاحب کی آڑ میں معصوم لوگوں کا قتل عام بھی کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔جنہوں نے آپ کے لاہور کو بھنبھورکی طرح لوٹا ہے آپ کا فرض ہے کہ بطور چیف ایگزیکٹو انہیں لوٹ لیں۔
تازہ ترین