• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’پولیس کا ہے کام مدد آپ کی‘‘ یہ جذبہ اور نعرہ متروک ہوا۔ لاہور میں پولیس کے ساتھ تصادم میں کئی لوگوں کی جان گئی اور بہت زخمی بھی ہوئے۔اس سلسلہ میں سرکار وقت نے ایک کمیشن بنادیا ہے جو تحقیق کرے گا مگر کیا تحقیق کرے گا؟ کہ کس کی نااہلی سے عوام جان سے گئے یا پولیس اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی۔ اس وقت میڈیا پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ تو کسی طور بھی پولیس کے اور سرکار کے حق میں نہیں۔ پولیس کا کام قانون اور عدل کی مدد کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں اس کا شفاف کردار ہی مثبت نتائج دیتا ہے مگر اس وقوع میں پولیس کی کمانڈ اور کنٹرول میں رابطہ کا فقدان نظر آیا اور حیران کن صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ جو عوامی مسائل میں ہر دم انتظامیہ پر نظر رکھتے تھے۔ اس واقعہ کو ٹی وی پر دیکھنے کے باوجود اپنا موثر کردار ادا نہ کرسکے۔
انہوں نے ایک عدالتی کمیشن تو بنادیا مگر اس کا طریقہ کار اور کارکردگی کے بارے میں سماجی اور قانونی حلقے مطمئن نظر نہیں آتے۔ پنجاب کے نئے ا نسپکٹر جنرل پولیس ایک قابل اور نیک نام پولیس آفیسر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ان کو کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے بہت حد تک امن و امان کے سلسلہ میں اچھی پیش رفت دکھائی اور اسی وجہ سے ان کو پنجاب میں کارکردگی دکھانے کا موقع دیا گیا مگر ان کے آتے ہی جو کچھ ہوا اس میں ان کا کوئی دوش نظر نہیں آتا۔ اب ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ٹیم کا انتخاب کریں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سفارش کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ماضی میں وہ اپنے زیر کمان لوگوں کے خلاف موثر طریقہ سے کارروا ئی بھی کرتے رہے ہیں۔ اس دفعہ صورتحال مختلف ہے ،پنجاب پولیس کا کردار پورے ملک میں سوالیہ نشان ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس کو اپنے طور پر اس واقعہ کی تحقیق کروانی چاہئے اور جو لوگ بھی اس میں نااہلی کا سبب بنے ہیں ان کا نوٹس لے کر ان کے خلاف بھرپور کارروائی ضروری ہے اگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو پولیس فورس جو پہلے ہی مایوس اور ناکام ہے وہ مزید بدعملی کا شکار ہوجائے گی۔ پنجاب کے شہروں میں ٹریفک کے مسائل کے سلسلہ میں ان کا کردار نظر نہیں آتا، لاہور شہر میں ہی دیکھ لیں جگہ جگہ یہ ٹریفک وارڈن دو چار کی ٹولیوں میں کھڑے خوش گپیاں یا موبائل فون پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کسی طور پر بھی ڈیوٹی کے معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ کچھ اسی طرح کا حال باقی جگہ بھی نظر آتا ہے۔
اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور قانون کے احترام کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہر طبقہ فکر مایوسی کا شکار ہے مگر ہماری اشرافیہ کو اس صورتحال سے کوئی غرض نہیں۔ ان کی بڑی تعداد ہماری قومی اسمبلیا میں نظر آتی ہے۔ ابھی مسلم لیگ نواز کو صرف ایک ہی سال ہوا ہے کوئی بھی ایسا قانون یا ایسا عمل نظر نہیں آرہاجو عوام کے لئے آسودگی لاسکے۔ وزیر اعظم پاکستان کے دعوے بہت ہیں اور ماضی کے انتخابی وعدے تو طاق نسیاں ہوچکے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی آندھی چل رہی ہے اور اس کا موسم کچھ طویل ہی ہوگیا۔ اب رمضان کی آمد سے پہلے ایک دفعہ پھر لوگوں کو ا مید اور یقین دلایا جائے گا کہ سرکار غریب لوگوں کے لئے مراعات لارہی ہے مگر ہوگا کچھ نہیں۔ اس دفعہ ایک اور خوف نظر آرہا ہے کہ ایک سال ہی میں اپوزیشن اپنی حیثیت منواتی نظر آرہی ہے۔
ایک طرف ہماری افواج دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ان کی توجہ اندرون ملک کی سیاست پر بہت زیادہ لگ رہی ہے۔ شیخ رشید تو دعوی کرہی چکے ہیں کہ ملک میں منی مارشل لاء لگ چکا ہے۔ دوسری طرف کابینہ کا معاملہ بھی عجیب سا لگ رہا ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ جو فوجی حلقوں کے قریب جانے جاتے ہیں اس وقت جب اندرون ملک دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے وہ جانے کیوں پس پردہ چلے گئے ہیں۔ میرا خیال ہےکہ ہمارے وزیراعظم کو گمبھیر صورتحال کا اندازہ ہے۔ ان کو یقین ہے کہ وہ فوج سے بات چیت کرکے معاملات کو درست سمت میں لاسکتے ہیں، مگر ان کی ٹیم ان کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ اب ذرا میر منشی ڈار صاحب کے کردار کو ہی دیکھ لیں انہوں نے اسمبلی کے فلور پر پنجاب میں پولیس گردی کے معاملہ پر غیر سنجیدہ رویہ رکھا۔ پولیس کے مخبر گلو بٹ کو الو بٹ کہہ کر معاملے کو نظر انداز کردیا۔ دوسری طرف عمران خان رمضان سے پہلے پہلے ایک اور کامیاب جلسہ کرنے کے لئے میدان کا انتخاب کرچکے ہیں۔ اس صورتحال میں مرکزی سرکار کو الیکشن کمیشن کو انتخابی معاملات کے سلسلہ میں تیزی سے پیش رفت کرنی چاہئے تاکہ وہ معاملات جو عدالتوں میں جارہے ہیں ان پر سیاسی جماعتوں کی داد رسی ہوسکے۔ مرکز میں مسلم لیگ نواز کے ساتھ صرف دو گروہ نظر آرہے ہیں۔ ان میں حضرت مولانافضل الرحمن اب وزارتوں کی وجہ سے حلیف اور دوست بن چکے ہیں اور دوسرے حضرت سابق صدر کی پیپلز پارٹی۔ میاں صاحب نے ماضی میں پیپلز پارٹی کا خوب ساتھ دیا اور اب پیپلز پارٹی مرکز میں میاں صاحب کا ساتھ خوب دی رہی ہے۔ اس کو بھی اندازہ ہے کہ جمہوریت کا کارواں خطرے کی زد میں ہے مگر وہ تو جمہوریت بہترین انتقام کے نعرے پر قائم ہے ایسے میں ملک کے حساس ادارے اس ملک کے لئے کیا سوچتے اور کرتے ہیں وہ اہم ہے اس وقت تو وہ میڈیا کو تقسیم کرنے پر لگے ہیں تاکہ عوام جمہوریت کے انتقام کی نظر ہوسکیں۔
تازہ ترین