• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یہاں سے ایک راستہ اَن گنت اور بے کراں امکانات کی وادی کو نکلتا ہے اور دوسرا مکمل تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ امکانات کی شاہراہ پر ایسے بہت سے سنگ میل نصب ہیں جن سے ہم آج تک آنکھیں چراتے چلے آئے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ اقدار، طور طریقے، سوجھ بوجھ کے آفاق تیزی سے نئی صورتیں اختیار کر رہے ہیں۔ حد نظر تک اجتماعی اور انفرادی زندگی کے نئے زاوئیے ابھر رہے ہیں اور ہم نے خود کو فکر اور عمل کی اُن بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے جن سے بہت پہلے نجات پائی جا سکتی تھی۔ انسانیت کا قافلہ ہے کہ تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم چہرے پر گرد ملال لئے مٹتی ہوئی تصویر کی طرح دھندلا جائیں، بڑے فیصلے کرنے کا کچھ موقع ابھی باقی ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے افرادی حجم، وسائل اور صلاحیتوں کی مدد سے اُبھرتی ہوئی دنیا کی صورت گری میں شریک ہوں گے یا تاریخ کے اس فیصلے کا شکار ہو جائیں گے جو بدلتے ہوئے حقائق کا سامنا کرنے سے انکار کرنے والی قوموں کے خلاف دیا جاتا ہے۔
ہم نے برسوں اپنی انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کے گن گائے ہیں۔ کیا مضائقہ ہے کہ کبھی حقیقت پسندی سے بھی کام لیا جائے۔ یوں بھی صلاحیت ایک خفتہ امکان ہے جسے اکتساب ہنر کے آب رواں سے سینچا نہ جائے تو ہنرکا زر نقد حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہمارے انسانی سرمائے کا معیار بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ رائے سخت سہی لیکن تمام معروضی اشاریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی انسانی سرمائے میں انحطاط آیا ہے۔ جہاں تہاں کچھ مستثنیات کے ساتھ ہمارے انسانی سرمائے کا معیار گزشتہ کئی صدیوں سے کچھ ایسا قابل اطمینان نہیں رہا لیکن گزشتہ تین عشروں میں صورت حال زیادہ خراب ہوئی ہے۔ ہم نے تعلیم کا ایک بنیادی مقصد نظر انداز کر دیا ہے جو ہمارے شہریوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ موجودہ مشکلات کا حل ڈھونڈ سکیں اور آئندہ مسائل کی درست پیش بینی کر سکیں۔ پاکستان کا عمومی تعلیمی نظام شہریوں میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کرتا۔ 1978ء کے علم دشمن سال سے اب تک ہماری آبادی میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے اور اس میں ان بچوں کو بھی شامل کر لیجئے جو موجودہ تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے موقع پر ثانوی درجے تک تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ہمارے ملک میں چودہ کروڑ ایسے شہری موجودہیں جو تاریخ، جغرافیہ، ادب، فلسفہ، طبعی علوم غرض کہ کسی شعبے میں دنیا کے ہم عمر نوجوانوں سے مسابقت کی صلاحیت نہیں رکھتے پھر اس میں یہ زیاں بھی شامل کیجئے کہ پچھلے چالیس برس میں صلاحیت کی جس کونپل نے سر اٹھایا وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی۔ اب اس مردے کی لوتھ پر سو درّے اس حقیقت کے نام ماریئے کہ ہم نے گزشتہ نصف صدی میں اس سیاسی عمل کا گلا گھونٹ دیا ہے جس سے ذمہ دار شہریت اور پُراعتماد افرادی قوت کا اکھوا پھوٹتا ہے۔
یہ عجب سادہ لوحی ہے کہ سیاست پر وکیل یا رکن پارلیمنٹ کا اجارہ سمجھا جائے۔ گویا ایک بینکار کو اہم پیشہ ورانہ فیصلے کرتے ہوئے سیاسی بصیرت کی ضرورت پیش نہیں آتی یا ایک کاروباری شخص کو سرمایہ کاری کرتے ہوئے سیاسی اتار چڑھائو پر نظر نہیں رکھنا پڑتی۔ سیاسی شعور اور اقتصادی ترقی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس صورت حال کا الزام دو چار دس افراد کے نام دھرنا بے معنی مشق ہے چونکہ یہ شخصی کوتاہی سے زیادہ ہمارے اداروں اور ڈھانچوں کی ناکامی ہے۔ ہمارے اداروں کی یہ ناکامی اس لئے نہیں کہ ہم میں صلاحیت یا ذہانت کی کمی ہے۔ ہم نے ایسی اجتماعی ثقافت کو فروغ دیا ہے جس میں مشتبہ اور پیوستہ مفادات کے لئے کچھ خاص خیالات اور اداروں کو تقدیس کا زود حس عمامہ پہنا دیا جاتا ہے۔ جس معاشرت میں غیر روادار حساسیت کے جراثیم داخل ہو جائیں اس کی اجتماعی توانائیاں پچھلے دروازے سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ توانائی میں کمی سے ہمارے اعتماد میں بھی کمی آئی ہے۔ ترقی کی شرح اور معیار کے پائوں لڑکھڑانے لگے ہیں۔ مسلسل مایوسی کا ایک بڑا وقفہ گزرنے کے بعد ہمیں اس ضرورت کا احساس بھی نہیں رہا کہ کسی زندہ قوم کا مقدم ترین مقصد اپنے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ مسلسل قدرتی آفات کا شکار ہونے والے رفتہ رفتہ خیال اور احساس کی نفاستوں سے بے نیاز ہو کر محض حیوانی سطح پر زندہ رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہم ایک نئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ اس عہد کے امکانات بیکراں اور خدشات بے پناہ ہیں اس میں ایک جرائم پیشہ یا تخریب کار ذہن قوموں کی اقتصادیات کو بے اندازہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں اجتماعی اور انفرادی سلامتی کا ایک ہی راستہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی بنیادی ضروریات کی آسودگی، نیز پیداواری اور تخلیقی اظہار کے مساوی مواقع۔ اس کے لئے تمام طبقوں، گروہوں اور اکائیوں میں جمہوریت کی ضرورت ہے۔ سماجی اور معاشی انصاف کی ضمانت درکار ہے۔ مختلف النوع معاشی مفادات میں مکالمہ شفاف ہونا چاہئے۔ پاکستان میں رہنے والے انسانوں کو اوہام، تفرقے اور بیگانگی کے اُن حوالوں سے آزادی درکار ہے جو عہد حاضر کے اجتماعی اور انفرادی شعور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جمہوریت اور عالمگیریت اپنی ماہیت میں نہ مغربی ہیں نہ مشرقی، یہ انسانیت کی اجتماعی میراث ہیں۔ اگر جمہوریت پاکستان کے شہریوں کے لئے آسودگی، خوشحالی، مساوات اور آزادی کی نئی راہیں نہیں کھولتی تو ہمارے اجتماعی ارتقا کے آئندہ مرحلے ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہولناک ہوں گے۔ ہمیں ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینا چاہئے جس میں فکر اور جذبے کا توازن پایا جائے۔ تناسب اور توازن سے ایسا حسن پیدا ہوتا ہے جسے دوسرے لفظوں میں انصاف کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں رہنے والوں کے سامنے ایک بڑا کام ہے۔ ابھی تو ترجیحات کی فہرست پر سر پھٹول ہو رہی ہے۔ قوموں کی تعمیر راتوں رات نہیں ہوتی اور نہ اس میں معجزے پیش آتے ہیں۔ جدید اجتماعی زندگی کا ایک ہی اسم اعظم ہے، قانون کی بالادستی، دیانتداری اور باخبر بصیرت۔ دوسروں کی مفروضہ سازشوں کا موہوم سہارا لئے بغیر ہمیں معیشت کی بنیاد پر قائم ایسی جمہوری ثقافت کی طرف بڑھنا چاہئے جس میں کوئی برخود غلط اپنے نیم خواندہ ذہن سے شہریوں کا استحقاق نہ روند سکے۔ شہریوں کے استحقاق کی بحالی کا اولین اشارہ ایسا ماحول ہے جس میں ہر شہری بغیر کسی خوف کے اپنی رائے ظاہر کر سکے۔ ہم لڑکھڑائے ہیں، گرے نہیں۔ خواب سینوں میں دفن بھی ہو جائیں تو مرتے نہیں۔ آس کی بوند پڑے تو چٹیل صحرائوں میں اَکھوے پھوٹنے لگتے ہیں۔ ایک قوم کے طور پر ہمارا امکان مجروح ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔ اب بھی وقت ہے کہ کوئی ترمیم ِزُہد کر لے کہ ابھی موجِ صبا سے خوشبوئے خوش کناراں اُڑی نہیں۔ ہمیں نہ تو بے بنیاد خیالی رجائیت کی ضرورت ہے اور نہ مایوسی کے فالج کی۔ ہم صحرا میں ہیں مگر صحرا دشت امکاں بھی تو ہو سکتا ہے۔ کون جانے ہری گھاس اور پانیوں کی زمین وہی ہے جہاں حد نظر پر صحرا اور آسمان ملتے ہیں۔
تازہ ترین