• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے پوری دنیا نے دیکھا کہ پولیس نے ایسی بربریت اور پولیس گردی کی وہ’’ شاندار‘‘ مثال قائم کی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ،اتنا ظلم اور پولیس گردی ’’انگریز بہادر‘‘ نے تحریک پاکستان کے دنوں میں بھی نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں کہ خادم پنجاب کی تمام محنت اور کاوشوں کو پنجاب پولیس نے سبوتاژ کردیا ہے۔
ہماری پولیس بڑی’’ فرض شناس‘‘ ہے جو بے گناہ لوگوں کی بیٹیوں کی عصمت بچانے کے لئے اپنی ’’جان‘‘ کا نذرانہ دیتی ہے اور نذرانے لے کر زیادتی کرنے والوں کو چھوڑ بھی دیتی ہے۔ اتنی شاندار پولیس کہ9 ماہ کے بچے کا انگوٹھا ضمانت نامہ پر لگواکر رہا کر دیتی ہے ، پھر ایک دو ماہ کے بچے کو بھی پکڑ لیتی ہے۔ رانا مشہود وزیر تعلیم گنیز بک میں نام درج کرانے کے ماہر ہیں۔ انہیں چاہئے کہ و ہ گنیز بک آف ریکارڈ میں یہ بھی درج کرائیں کہ ہماری پولیس تو دو ماہ اور نو ماہ کے دودھ پیتے بچوں کو بھی پکڑ لیتی ہے۔
سو صاحبو! پچھلے ہفتے اس اعلیٰ روایات کی حامل پولیس نے ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں اپنے باپوں سے بھی بڑی عمر کے بزرگوں اور بے گناہ شہریوں کے ساتھ جو سلوک کیا اور جس طرح انہیں خون میں نہلایا وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر 20 کروڑ عوام نے وہ سین بار بار دیکھا ہوگا کہ کس طرح گلو بٹ پولیس کے’’شیر جوانوں‘‘ کو اپنی قیادت میں ہوا میں بار بار ڈنڈا لہراتا ہوا لے کر آرہا ہے اور پولیس کے یہ ’’شیر جوان‘‘ گلو بٹ کے پیچھے بڑے فخریہ انداز میں رواں دواں ہیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگارہے ہیں۔ ایک سابق وزیرفرماتے ہیں گلو بٹ کاذہنی تو ازن درست نہیں، وہ نیم پاگل ہے لیکن صاحب یہ نیم پاگل گلو بٹ بڑا سیانا بھی ہے، اس کومسلم لیگ(ن) کے جلسوں میں کبھی پاگل پن کے دورے نہیں پڑتے وہ کبھی ڈنڈااٹھا کر مسلم لیگ(ن) کے کسی وزیر اور سیاستدان کے پیچھے نہیں دوڑا۔ وہ صرف اور صرف اپوزیشن اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کے لوگوں کے پیچھے ہی بھاگتا ہے اور اسے یہ پاگل پن کا دورہ تو یہ صرف اور صرف غیر حکومتی اراکین کو دیکھ کر پڑتا ہے اورنہ مخبری کرتے ہوئے اس ٹائوٹ کو نیم پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے جلسوں میں وہ اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے۔ وینٹریری ڈاکٹرز (جنہیں) ہمارا معاشرہ ڈنگر ڈاکٹرز بھی کہتا ہے ،کہتے ہیں کہ اگر ایک انسان پاگل پن میں کسی دوسرے انسان کو کاٹ لے تو اس سے بائولا پن ہوجاتا ہے، یعنی وہ پاگل ہوجاتا ہے ۔ ارے رانا صاحب ایسے نیم پاگل کی جگہ آپ کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے کہ کہاں ہوتی ہے ۔گلو بٹ کے بعد اب ایک اور پولیس کا ٹائوٹ ریاض بابر بھی سامنے آگیا ہے جو سابق سپاہی ہے ،وہ دونوں ہاتھوں میں پستول لئے فائرنگ کرتا رہا جسے شہباز شریف نے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے لیکن جس پولیس افسرنے گلو بٹ کو گلے لگایا اور شاباش دی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، حالانکہ اس پولیس افسر کو بھی معطل کرنا چاہئے تو جناب آپ خود کہتے ہیں کہ گلو بٹ ذہنی مر یض ہے ا ور آپ نے اس ذہنی مریض کو کھلا چھوڑ رکھا ہے اگر اس نے دو،چار لوگوں کو کاٹ لیا تو پھر کیا بنے گا؟ کیونکہ پاگل انسان کسی دوسرے انسان کو کاٹ لے تو اس سے بھی بعض اوقات ریبیز ہوجاتی ہے۔
ہمارے محترم حسن نثار صاحب نے بالکل درست کہا کہ پاکستان کے ہر محکمے میں ایک گلو بٹ اور اس کے پیچھے کئی گلو بٹ ہیں، یہ وہ گلو بٹ ہیں جنہوں نے ہر محکمے میں رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ یہ واپڈا میں بھی ہیں اور بیوروکریسی میں بھی اور ڈاکٹروں میں بھی ہیں، جیسے حال ہی میں وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ واپڈا کے ایکس ای این ارب پتی ہیں۔یہ ارب پتی ایکس ای این دراصل گلو بٹ ہیں جو علم کے ڈنڈے سے ایک تو محکمے کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو دوسری طرف مظلوم عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ کنکشن کے سنگل فیس کا بیس ہزار روپے اور تھری فیس کا تیس ہزار روپے تک رشوت لے رہے ہیں،تمام کاغذات بھی دے دیں تو میٹرنہیں دیں گے،میٹر دینے کے لئے ایک گلو بٹ آجائے گا وہ آپ سے پھر چار، پانچ ہزار روپے لے گااور میٹر مہیا کردے گا، اب واپڈا کے نئے چیئرمین ظفر محمود بنے ہیں جو ہمیشہ سے بیوروکریسی میں ایک نیک نام رکھتے ہیں اور سخت ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں ،اللہ کرے کہ وہ واپڈا میں موجود بے شمار گلو بٹوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہوجائیں اور ریاض بابر نامی ٹائوٹوں سے بھی واپڈا کو چھڑالیں۔ ہر وزیر اور سیکرٹری کے آفس میںبھی کئی کئی گلوبٹ ہیں جو لوگوں کو ہمیشہ تنگ کرتے رہتے ہیں۔
پولیس کا محکمہ تو گلو بٹوں سے بھرا پڑا ہے ۔ پولیس کا ایک تھانیدار مان نہیں افسران کی بات ہی چھوڑیں، وزیرا علیٰ میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے اپنے پرنسل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو ہٹا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے اور مسلم لیگ(ن) کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات اور کارکنوں میں خوشی کی لہر آگئی۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ڈاکٹر توقیر شاہ نے سانحہ ماڈل ٹائون کے سلسلے میں انہیں اندھیرے میں رکھا۔ اب ایسے شخص کو آپ کیا نام دیں گے؟ آج کسٹم ،انکم ٹیکس ،ایکسائز ، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت ، ریلوے اور ہر اس محکمے میں جہاں پر عوام کو اپنے کاموں کے سلسلے میں جانا پڑتا ہے وہاں پر کئی کئی گلو بٹ موجودہیں جو دن رات دو دو ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ گلو بٹ نامی کردار ہاتھ میں ڈنڈا اٹھا کر گاڑیوں کے شیشے ہی توڑے بلکہ وہ بغیر ڈنڈا اٹھائے اس طریقے سے واردات کرتا ہے جس سے ملک و قوم اور متعلقہ محکمے کو نقصان پہنچتا رہتا ہے۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بھی دو گلو بٹ موجود ہیں جو وزیر اعظم کو اپنی کم عقلی اور انتہائی ناقص تجربے پر الٹے سیدھے مشورے دیتے ہیں، کبھی کسی حکومت یا سیاسی جماعت نے پولیس کے افسران ،کسٹم، ایکسائز، محکمہ صحت ، تعلیم اور بیوروکریٹس کے اس حوالے سے کوائف اکٹھے کئے ہیں کہ ان کے بچے کس طرح برطانیہ ،امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا ،آسٹریا اور دیگر ممالک میں پڑھتے ہیں، محترم نواز شریف آپ کو بخوبی علم ہے کہ برطانیہ اور امریکہ میں ایک بچے کے سالانہ تعلیمی اخراجات پچاس لاکھ روپے سے بھی زائد ہیں۔ ایک 19گریڈ اور 26گریڈ کا گلو بٹ یہ اخراجات کس طرح اور کہاں سے ادا کرتا ہے، اس کے بارے میں تو تحقیق کریں۔ ایک ڈسپنسر کا بیٹا آج کس طرح اپنے بچوں کو امریکہ اور برطانیہ پڑھاسکتا ہے۔ یہ وہ گلو بٹ ہیں جو حکومت کی تمام اچھی پالیسیوں اور خدمات کے منصوبوں پر پانی پھیر رہے ہیں جب ایک محکمہ کا کلرک یہ دیکھتا ہے کہ اس کا افسرتو انتہائی موجیں ماررہاہے تو وہ بھی گلو بٹ بن جاتا ہے۔ کئی برس قبل ہم پورٹ قاسم ایک کام سے گئے ، کسٹم کے بڑے افسر کے نائب قاصد نے ہمیں فوراً اس افسر سے ملادیا ہم نے واپسی پر اس نائب قاصد کو سو روپے بطور بخشش دئیے تو اس نے میرے سو روپے واپس کرتے ہوئے اپنی کسی ایمانداری کی بات نہیں کی بلکہ کہاکہ صاحب جب جہاز لنگر انداز ہوتا ہے تو میں روزانہ دس ہزار کماتا ہوں، آپ دیکھ نہیں رہے کہ جہاز کھڑا ہے اور آپ سو روپے دے رہے ہیں۔ اس نائب قاصد کا خیال تھا کہ جو اندر بیٹھا ہے وہ بھی گلو بٹ ہے،اس کو جو ملنے آیا ہے وہ بھی گلو بٹ ہے اور میں بھی ایک گلو بٹ ہوں اور یہ میرا صرف سو روپے ریٹ لگارہا ہے ، سو بڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں اگر اقتدار پانچ سال چاہتے ہیں تو تمام گلو بٹوں سے نجات حاصل کرلیں ورنہ یہ سارے گلو بٹ آپ کی نیک نامی کو بدنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔ وزیر اعلیٰ کا ہر زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی یا خاندان کے گھر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پولیس گلو بٹوں سے بھری پڑی ہے اورتمام جلسے اور جلوسوں میں سفید کپڑوں میں پولیس ہر طرف معطل شدہ گلو بٹ، ٹائوٹ اور مخبر بھی ہوتے ہیں جنہیں پولیس کے اعلیٰ افسران گلے لگا لگا کر ملتے ہیں جس طرح گلو بٹ کو ایک ایس پی مل رہے تھے۔
تازہ ترین