• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئی ایس پی آر کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ شروع کرنے کا اعلان ہوا تو قوم کو توقع تھی کہ وزیراعظم میاں نواز شریف ٹی وی پر آ کر اسی طرح دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کریں گے جس طرح ایک فوجی آمر ایوب خان نے جارح بھارت کے خلاف کیا تھا اور پاک فوج کے سرفروشوں سے کہیں گے ’’کلمہ طیبہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو، کمینے دشمن کو بتا دو کہ اس کا کس سے پالا پڑا ہے۔ مگر چوبیس گھنٹے تک حکومتی محاذ پر خاموشی چھائی رہی۔
دوسرے دن میاں صاحب پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینٹ میں نمودار ہوئے، کسی منشی منقیٰ کی لکھی ہوئی پھسپھسی تقریر پڑھی جس کے الفاظ میں کسی قسم کی تاثیر نہ ادائیگی میں جوش و جذبہ، باڈی لینگوئج لاتعلقی اور اکتاہٹ کی مظہر۔ جیسے کوئی مارے باندھے سر آئی بلا ٹالتا ہے حالانکہ دفاع وطن پر مامور فوج اور پوری قوم ایک منتخب حکمران سے پُر جوش، پُر عزم اور ولولہ انگیز پیغام کی توقع کر رہی تھی۔
آپریشن شروع ہوا تو پورے ملک میں ریڈ الرٹ کر دیا گیا۔ دہشت گردوں کے پُر تشدد ردعمل کو روکنے کے لئے مختلف شہروں میں سرچ آپریشن ہوئے اور پنجاب میں اس کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ مگر آپریشن ضرب عضب کو ابھی اڑتالیس گھنٹے نہ گزرے تھے کہ لاہور میں دہشت گردوں کے خلاف سرچ آپریشن کی بجائے ایک سیاسی و مذہبی تنظیم کے خلاف ٹارگٹ آپریشن شروع کر دیا گیا، ماڈل ٹائون میں ہونے والی اس احمقانہ کارروائی کے مقاصد جو بھی ہوں قوم کا اتفاق رائے پارہ پارہ ہوا، میڈیا سکرین پر آپریشن ضرب عضب کے بجائے آپریشن غیظ و غضب چھا گیا، جذبہ جہاد سے میدان جنگ میں اترنے والی فوج کے حوصلے بڑھانے، اس کی شجاعت و سرفروشی کی داستانیں بیان کرنے اور اس کی قربانیوں، شہادتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے لاہور پولیس کے ’’کارنامے‘‘ اور گلو بٹ کے افسانے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خبروں، تجزیوں، کالموں، ٹاک شوز کا موضوع بن گئے۔
پاک فوج 1965اور 1971میں دفاع وطن کے لئے میدان میں اتری تو پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کے پیچھے کھڑی رہی۔ ذرائع ابلاغ پر صرف اس کے کارنامے بیان ہوتے تھے یا کمینے دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ اہل قلم، شاعر، موسیقار، گلو کار اپنی تحریروں اور ملی ترانوں سے فوج کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اور قوم کے جوش و جذبہ میں ان دونوں جنگوں کے دوران جو شاعری ہوئی اور نامور موسیقاروں، گلوکاروں نے جس والہانہ انداز میں اسے پیش کیا وہ ہماری قومی تاریخ کا روشن باب ہے۔ یہ ملی نغمے اور قومی ترانے آج بھی روح کو گرماتے اور قلب کو تڑپاتے ہیں ؎
خطۂ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
شہریوں کو غازیوں کو شہ سواروں کو سلام
ooooo
میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی
ooooo
اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
ooooo
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، توں لبھدی پھریں بزار کڑے
ساتھیو مجاہدو، جاگ اٹھا ہے، سارا وطن
جو بھی رستے میں آئیگا کٹ جائے گا
جنگ کا میداں لاشوں سے پٹ جائے گا
آج دشمن کا تختہ الٹ جائے گا
ہر جری صف شکن، ہر جواں تیغ زن، ساتھیو، مجاہدو
مگر اس بار معاملہ مختلف ہے۔ ضرب عضب آپریشن کے بعد میڈیا کو آئی ڈی پیز کی مشکلات و مصائب کی عکاسی کرنے، فوجی کارناموں کی تشہیر کے کام پر لگانے اور عوام کو دامے درمے، سخنے شمالی وزیرستان کے بے گھر ہونے والے شہریوں کی امداد کے لئے فرض کی ادائیگی یاد دلانے کے بجائے حکومت وقت نے طاہر القادری کی آمدورفت اور اپنی بے تدبیر، غیر دانشمندانہ حکمت عملی کی کوریج پر لگا دیا ہے اور نظر یوں آ رہا ہےکہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ دہشت گردی نہیں صرف اور صرف ڈاکٹر طاہر القادری ہے۔
جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ انہیں ذرائع ابلاغ پر خوبصورت، پُر تاثیر جنگی ترانے سننے کو ملیں گے وہ اس صورتحال پر حیران ہیں، درد دل رکھنے والے جو مخیر حضرات آئی ڈی پیز کی امداد کے لئے تیار تھے وہ پریشان ہیں اور حکمرانوں میں سے کسی کو فوج کی فکر ہے نہ آئی ڈی پیز کے درد کا درماں کرنے کی فرصت۔ صبح سے شام تک صرف طاہر القادری کا ذکر ہے اور وزیروں کے بیانات۔ (کاش حکومت یہ بے وقت کی راگنی شروع کرنے کے بجائے میڈیا کو کم از کم 1965اور 1971کے ملی ترانے بار بار نشر کرنے کا موقع دیتی جو آج بھی اہل دل، اصحاب ذوق اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار پاکستانیوں کے دل و دماغ پر دستک دیتے اور ولولہ تازہ ابھارتے ہیں ؎
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے
ابھرا ہر گام پہ تو فتح کا نعرہ بن کے
اس شجاعت کا تجھے کیا میں صلہ پیش کروں
عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنائت رکھے
تیری جرأت، تیری عظمت کو سلامت رکھے
جذبہ شوق شہادت کی دعا پیش کروں
قوم کو امید تھی آپریشن ضرب عضب شروع ہوتے ہی نسیم بیگم کی آواز گونجے گی ؎
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تو نے
بچا لیا یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لئے تو نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاکؐ نے باہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسینؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
جناب فاطمہؓ جگر رسولؐ کے آگے
شہید ہو کے کیا ماں کو سرخرو تم نے
جناب حضرت زینبؓ گواہی دیتی ہیں
شہیدو رکھ لی ہے بہنوں کی آبرو تم نے
وطن کی بیٹیاں مائیں، سلام کہتی ہیں
لیکن ہر سو، سیاست کا بازار گرم ہے جس کے بارے میں مولانا ابوالکلامؒ نے کہا تھا ’’کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘ ہماری غلیظ سیاست نے مگر ثابت کیا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل اور سیاستدانوں کے بھیجے میں فہم و دانش کا نام و نشان نہیں۔ ورنہ یہ تماشے کیوں لگاتے۔ انہیں ریاست بچانے سے زیادہ سیاست بچانے کی فکر کیوں ہوتی۔ ماڈل ٹائون سانحہ سے کوئی سبق تو سیکھتے۔
تازہ ترین