• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی ہے تو دوسری طرف سیاسی انتہا پسندی ہے جو ریاستی نظام کو درہم برہم کرنے کے درپے ہے۔ اگر مسلح عسکریت پسند گولی سے حکومت کی رٹ ختم کر رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی انتہاپسند ہیں جو نظام کو انارکی اور افراتفری کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو آخر جمہوری عمل پٹڑی سے اتر جائے گا اور ہم وہیں پہنچ جائیں گے جہاں1977ء میں تھے۔اس لئے سیاسی پارٹیوں کو تدبر سے کام لیتے ہوئے سیاسی انتہا پسندوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی وضع کرنا چاہئے۔
پاکستان میں ہر وہ سیاسی یا مذہبی گروہ جو ماورائے آئین حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے سیاسی انتہا پسندوں کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر پاکستان ایک جمہوری ملک ہے تو اس میں حکومتی تبدیلی کا ایک واحد ذریعہ انتخابات ہیں ۔ ہر وہ گروہ جو اس انتخابی عمل سے گزرے بغیر اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے سیاسی مہم جوئی کا شکار ہے اور ریاستی اداروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی ماورائے آئین مہمات کا سد باب کریں۔ اگرچہ ریاستی طاقت کا بے محابہ استعمال بیجا ہوگا لیکن ریاست کو افراتفری اور انارکی کی روک تھام کے لئے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں جس طرح انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہ انتہائی المناک واقعہ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو مدنظر رکھے جانے چاہئیں مثلاً جب پولیس علامہ طاہر القادری کے گھر کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے پہنچی تو اس کی مزاحمت غیر قانونی تھی۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے لوگوں کے پاس رکاوٹیں کھڑی کرنے کا لائسنس تھا تو وہ صبح تک انتظار کرتے ہوئے دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے ہائی کورٹ سے استدعا کر سکتے تھے لیکن جو کچھ ٹی وی پر نظر آیا وہ یہ تھا کہ طاہر القادری کے حامیوں نے پتھروں اور اینٹوں کا ایک انبار جمع کیا ہوا تھا اور زیادہ تر مظاہرین کے ہاتھوں میں ایک ہی سائز کے ڈنڈے تھے ۔ڈنڈوں کی تعداد اور سائز سے یہ ظاہر تھا کہ اس مزاحمت کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی۔ اس کے باوجود پولیس کے پاس غیرمتناسب طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انسانی جانیں لینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پولیس نے بھی طاقت کا غیرمناسب استعمال کرکے غیر قانونی حرکت کی جس کے لئے اسے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اس المناک واقعے کے بعد حکومت نے ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل کمیشن قائم کردیا ہے جو اس پورے واقعے کی تفتیش کرے گا اور اس میں قصور وار اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دلوائے گا لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ اس مقدمے کا خود فیصلہ کرنا چاہتے ہیں یا یہ چاہتے ہیں کہ آئینی تقاضے پورے کئے بغیر حکومت مستعفی ہو جائے اور اس واقعے میں ملوث پولیس والوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔اگر ڈاکٹر طاہر القادری ریاستی آئین اور اس کے اداروں کی حدود میں رہتے ہوئے انصاف حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ اس کمیشن کے بجائے کوئی دوسری طرح کا بندوبست کیا جائے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کا تو موقف ہی یہی ہے کہ وہ پورے نظام کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور صرف انقلاب چاہتے ہیں۔
پاکستانی ریاست کے طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی اسی لئے کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ پورے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اپنی طرز کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان اپنے مطالبات کے لئے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسی لئے آخر کار ریاست کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنا پڑ رہی ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری یا کوئی اور ماورائے آئین تبدیلی کی کوشش کرے گا تو یا تو جلد یا بدیر اس کا ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ ہوگا اور جاری جمہوری عمل کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ ایک نہایت افسوسناک واقعہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لئے بہت قربانیاں دی گئی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی منظرنامہ کافی حد تک افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ساتھ عمران خان بھی ہر روز کسی نہ کسی بہانے سے حکومت کا بوریا بستر لپیٹنا چاہتے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ یہ حکومت الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے قائم ہوئی ہے اور اس کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ایک سال میں انہوں نے حکومت کو گرانے کے لئے کئی پینترے تبدیل کئے ہیں اور اب وہ جلسے، جلوس، ریلیوں اور دھرنوں کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں کہ جس میں حکومت غیر مستحکم ہوجائے اور لامحالہ ایسی صورت میں غیر آئینی طاقتوں کی دخل اندازی ممکن ہو جائے گی۔
کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ سیاسی دھڑے1977ء جیسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تب ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے قومی اتحاد کے جھنڈے تلے جمع ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں چلنے والی منتخب حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا اور ملک ڈکٹیٹر شپ کے شکنجے میں پھنس گیا۔ اب بھی ایسی ہی صورت حال پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اب حالات کافی مختلف ہیں۔ ملک کی اکثر بڑی پارٹیاں حکومت کے خلاف اتحاد کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن سیاسی انتہا پسند ملک میں غیر یقینی حالات پیدا کر کے ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ حکومت مخالف سیاسی دھڑوں کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ وہ موجودہ حکومت کو ناجائز اور بدعنوان قرار دے کر تبدیل تو کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ موجودہ نظام کو کس طرح سے تبدیل کریں گے۔ وہ انقلاب چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس لینن یا آیت اللہ خمینی جیسا کوئی واضح پرگرام نہیں ہے۔ کم و بیش وہ بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کے احاطہ کار میں عمل کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں حکومتی کارکردگی سے یہ ظاہر ہے کہ وہ کسی بہت بڑی تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی۔ میاں نواز شریف نے تدبر اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف صوبوں میں اکثریتی پارٹیوں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا۔ اگرچہ ایک سال میں بہت سے مسائل حل نہیں ہو پائے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معاشی بہتری کے لئے کافی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ معاشی ترقی کی شرح پہلی مرتبہ چار فیصد سے اوپر گئی ہے۔ روپے (یا ڈالر) کی قیمت میں استحکام آیا ہے۔ توانائی کے کئی منصوبوں پر کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر معقول حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس لئے موجودہ حکومت کو اپنی ٹرم پوری کرنے دی جائے۔ یہ فیصلہ ووٹروں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس کو مستقبل میں حکمرانی کا حق دینا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین