• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موسم برسات کی ایک رات تھی اور چاندنی کبھی کبھی سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جھانکنے لگتی، تین بجے کا وقت ہوگا…لیکن ٹھہریئے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ یہاں جو واقعات میں آپ کو بتانے چلا ہوں یہ بیسویں صدی نہیں بلکہ اکیسویں صدی میں ترقی یافتہ یورپ کے دل یعنی لندن میں ظہور پذیر ہوئے ہیں یا کم از کم برطانیہ کے لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اگر یہ سب کچھ پڑھ کر آپ کے ماتھے پر بل پڑنے کے بجائے پیٹ میں بل پڑیں تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب اور سرخرو ہوا۔ پچھلی بار جب میں لندن میں تھا تو ایک روز لندن میں واقع ’’ٹاور آف لندن‘‘ جانے کی ٹھان لی۔ دراصل انڈر گرائونڈ میں سفر کرتے ہوئے میری نظر ٹیوب میں چسپاں ایک اشتہار پر پڑی جس میں ٹاور آف لندن دیکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ میں یہ دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے وہاں جا پہنچا۔ اب آگے کا حال وہاں کے گائیڈ اور ایک میگزین کی زبانی سنئے…وہ کہہ رہا تھا…تین بجے کا وقت ہوگا کہ ٹاور آف لندن کا ایک محافظ اچانک خوف و دہشت سے کانپنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور پھر اسے ایک غیر مرئی ہیولا سا نظر آنے لگا۔ محافظ کی چیخ و پکار سن کر دوسرے لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے ٹارچوں کی روشنی میں اس پراسرار ہیولے کی تلاش شروع کردی مگر غیرمرئی شکل اندھیرے میں غائب ہوچکی تھی۔ محافظ نے سب لوگوں کو حلیفہ بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بھوت دیکھا تھا۔ جس ’’یادگار رات‘‘ کا یہ واقعہ ہے اس سے ٹھیک 406برس قبل اسی ٹاور آف لندن میں انگلستان کی ملکہ جبین گرے کا سرقلم کردیا گا تھا اور سربریدہ ملکہ کا بھوت…اس وقت سے لوگوں کو پریشان کرتا رہتا تھا مگر سرکاری ذرائع ان افواہوں کے بارے میں مہر بلب ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو تیرہ ایکڑ کا یہ قطعہ اراضی جس پر ٹاور آف لندن کی تاریخی عمارت قائم ہے دنیا بھر میں ’’بھوتوں کا ڈیرہ‘‘ کے نام یا کام کی حیثیت سے بدنام یا نامور ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹاور آف لندن کی سنگین دیواروں کے پیچھے تاریخ انگلستان کے سیکڑوں، خونی ڈرامے کھیلے گئے ہیں تاریخ میں اس جائے واردات کو ’’سیکڑوں بے گناہوں کا مقتل‘‘ کا نام دیا گیا ہے، شاید اسی وجہ سے ٹاور آف لندن کے بارے میں بعض حیرت انگیز اور دلچسپ داستانیں مشہور ہو گئی ہیں مثلاً ایک محافظ پہرے دار رات کے وقت ٹاور کی نگرانی پر مامور تھا کہ اسے ایک دل ہلا دینے والی چیخ سنائی دی وہ اس سمت میں بھاگا جدھر سے اسے چیخ کی آواز سنائی دی تھی، اچانک اسے ایک بے ہوش محافظ نظر آیا جو کچھ دیر پہلے وہاں ڈیوٹی پر متعین تھا، ہوش آنے پر جب افسران بالا نے اس سے پوچھ گچھ کی تو محافظ نے بتایا کہ ایک سربریدہ عورت کا دھندلا سا سایہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا جسے دیکھ کر وہ بے ہوش ہوگیا اور بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اس نے پوری ایمانداری سے اس یقین کا اظہار کیا کہ جو کچھ اس نے دیکھا وہ ملکہ این کا بھوت تھا جسے ہنری ہشتم نے قتل کردیا تھا۔ محافظ کا خیال ہے کہ ملکہ این بولین بھی گزشتہ چار صدیوں سے اس مقام پر بھٹک رہی ہے۔
جنگ عظیم دوم سے قبل ٹاور کے نزدیک سرکاری کوارٹروں میں ایک عورت رہا کرتی تھی اس نے ملکہ این کے بھوت کو متعدد مرتبہ رات کی تاریکی میں یہاں گھومتے پھرتے دیکھا تھا، اس کا بیان ہے کہ ملکہ کی تصویریں اس نے دیکھی ہیںؒ بھوت کی شکل و شباہت (مع سر) اس سے ملتی جلتی ہے۔ لندن میں کیا پورے دیس میں یہ روایت مشہور ہے کہ جس مقام پر ملکہ این بولین یا لیڈی جین گرے اور دوسری عورتوں کے سر قلم کئے گئے تھے وہاں آج تک گھاس نہیں اُگی۔ کچھ برس قبل اس جگہ پر تھوڑی سی گھاس نمودار ہوئی تو محافظوں نے اسے کاٹ دیا اس رات انہیں سیکڑوں مقتولین کے بھوت دوران ڈیوٹی نظر آئے۔ ایک محافظ نے بھوتوں کو زمین میں سے نمودار ہوتے دیکھا بھوتوں کا اس طرح اچانک ’’ہجوم‘‘ دیکھ کر تمام محافظ دم بخود رہ گئے ہر جانب ایک ہراس انگیز سناٹا طاری تھا کچھ دیر بعد ایک بھوت نے بالکل زندہ لوگوں کی آواز میں آئرش لہج میں دوسرے بھوٹ سے کہا، آب ٹھیک ہے بل‘‘۔
ایک روایت مشہور ہے کہ 5نومبر کی رات کو رسوائے زمانہ گائے فاکس کا بھوت ٹاور میں نظر آیا مگر حکام ایسے لوگوں کا واہمہ قرار دیتے ہیں۔ گائے فاکس کی شخصیت تاریخ انگلستان میں بہت مشہور ہے یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستانی جرنیلوں کی طرح شب خون کے ذرائع پارلیمنٹ پر قبضہ تو نہ کیا لیکن پارلیمنٹ کی عمارت کو بارود سے اڑا دینے کی بھیانک سازش ضرور کی تھی کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری (ہمارے جرنیلوں کو شاید ابھی تک اس تاریخی واقعے کا علم نہیں ہے) گائے فاکس کو تفتیش کیلئے اسی قلعہ ہی لایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ٹاور کی جگہ ایک زمانے میں لندن کا تاریخی قلعہ تھا (یہ بھی یاد رہے کہ یہ قلعہ اٹک کے قلعے جیسا یا لاہور کے شاہی قلعہ جیسا تھا) جو قید خانے اور ظلم و ستم کے لئے استعمال ہوتا۔ یہاں قیدیوں پر لرزہ خیز مظالم توڑے جاتے تھے۔ ایک مشہور اخبار نویس ڈیوڈ ڈی لے نے 1904ء میں ایک رات اس ٹاور میں گزاری تھی۔ اسے بھوتوں کے بارے میں جاننے اور ان سے ملاقات کا بہت شوق تھا۔ یہی شوق اسے کشاں کشاں ٹاور میں لے آیا۔ چنانچہ اس نے قلعہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ ’’ٹاور آف لندن‘‘ ایک دہشت انگیز جگہ ہے، رات کو جب دریائے ٹیمز کی جانب سے ہوا کے تیز و تند جھونکے چیختے چلاتے ٹاور کی جانب آتے ہیں تو انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیکڑوں مسلح افراد کسی قیدی کو پکڑے مقتل کی جانب لے جارہے ہیں یہ منظر بڑا دلخراش ہوتا ہے اس وقت ایک بھوت ٹاور کی بالائی منزل میں نظر آتا ہے۔
مشہور ماہر فلکیات اور جادو گر ہیوزریر کی بے چین روح سے تعبیر کیا جانے والا واقعہ جہاں وقوع پذیر ہوا تھا اس مقام کو جادو گر کا ٹاور کہا جاتا ہے اس ستاروں کا علم جاننے والے جادوگر کو گرفتار کرکے اس قلعے میں لایا گا تھا جہاں دوران قید اجرام فلکی کے بارے میں اپنے مشاہدے کرتا رہا۔ لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اس کی بے چین روح اب بھی راتوں کو اپنے نامکمل تجربات کی تکمیل کے لئے یہاں آتی رہتی ہے۔ ٹاور سے عجیب و غریب آوازیں اور چیخیں بھی سنانی دیتی ہیں جس کے بارے میں سب سے دلچسپ روایت یہ مشہور ہے کہ موگر نامی ایک جلّاد نے لیڈی جیسن گرے کا سرتن سے جدا کیا تھا اسے اپنی موت سے ایک رات قبل ایک ایسی عورت کا ہیولا نظر آیا تھا جو سر سے پیر تک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی اس نے مقتل کے چار چکر لگائے اور پھر جس طرح نمودار ہوئی تھی اسی طرح غائب ہوگئی۔ کہا جاتا ہے ہر سال اسی رات کو لیڈی جیسن گرے کی روح اسی طرح ٹاور میں نمودار ہوتی ہے گشت کرتی ہے اور غائب ہوجاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مندرجہ بالا روایتیں جوں کی توں برطانوی معاشرے میں موجود ہیں لیکن شنید ہے کہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ٹاور میں ہر جگہ مقبول روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ ’’اندھیرے‘‘ میں پلنے اور چلنے پھرنے والے ہیولوں کا سدباب کیا جا سکے۔اگر برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ ہی کر لیا ہے تو سانوں کیہ…؟
تازہ ترین