• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ امریکی کانگریس اراکین اور سندھ میں انسانی حقوق

گزشتہ ہفتے بیس جون کو امریکی کانگریس میں کم از کم پانچ منتخب اراکین نے وزیراعظم نوازشریف کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے سندھ میں سیاسی کارکنوں کی گمشدگیوں اور اقلیتوں کے خلاف تشدد سمیت انسانی حقوق کی صورت حال پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔یہ خط امریکی کانگریس یا کانگریس آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس کے لیٹر ہیڈ کے دو صفحات پر لکھا گیا ہے جس پر دونوں پارٹیوں یعنی ری پبلکن پارٹی اور حکومتی ڈیموکریٹک پارٹی کے پانچ ارکان کے دستخط ہیں۔ امریکی کانگریس میں یہ پانچوں منتخب اراکین جو دو طرفہ طور پر یعنی دونوں پارٹیوں کی طرف سے اہم قوانین بنانے کی شہرت اور بہت اثر رکھتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو صوبہ سندھ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اس خط کے تحریرکردہ کانگریس مین ہیں بریڈ شرمن، کیری بینٹی وولیو، ایڈم شف، تھامس ای پیٹری اور تلسی گئببارڈ۔کانگریس مین ایڈم شف جن کا تعلق کیلیفورنیا اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، ہالی ووڈ جیسے بااثر علاقے سے منتخب ہیں اور وہ امریکی ایوان نمائندگان میں انٹیلی جنس کمیٹی اور ایپروپریئشن کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ امریکی سینیٹ و کانگریس میں ری پبلکن چاہے ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین پر مشتمل ایک سندھ کاکس بھی قائم ہے جس کے وہ سرگرم رکن ہیں۔ کیلیفورنیا سے ہی ڈیموکریٹک پارٹی کے کانگریس مین بریڈ شرمین نے سندھ اور کراچی کا نام بچپن سے ہی ہوش سنبھالتے ہی سنا تھا جب انیس سو پچاس کے عشرے کے اوائل میں ان کے دادا کراچی میں عالمی ادارہ محنت یا انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے انچارج رہے تھے۔ بریڈ شرمین سندھ کاکس سمیت سندھ پر کیپٹل ہل پرکئی مسائل پر پیش پیش ہوتے ہیں جن میں وائس آف امریکہ کی سندھی سروس کی ان کی تجویز پر قانون سازی بھی شامل ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی ہی کانگرس ویمن تلسی گئببارڈ امریکی کانگریس کی پہلی منتخب ہندو رکن ہیں۔ اسی طرح کانگریس کے سینئر ترین ایک رکن ٹام پیٹری اگلے برس ریٹائرڈ ہونے والے ہیں جبکہ ایک اور ری پبلکن رکن کیری بینٹی وولیو نوجوان نومتنخب ہیں اور پیشے کے حوالے سے ایک استاد ہیں۔ بغیر کسی پارٹی تفریق کے دو طرفہ طور پر ان منتخب امریکی اراکین کانگریس نے اپنی تشویش سندھ میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ظاہر کی ہے۔
امریکی کانگریس کے ایسے پانچ منتخب اراکین نے پاکستانی وزیراعظم سے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں سیاسی کارکنوں کو ان کی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کی بنا پر روزمرہ کی بنیاد پر ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدم تشدد پسند سندھی سرگرم سیاسی کارکنوں کو غائب کر کے ان کو قتل کیا جا رہا ہے۔جس کی تازہ بھیانک مثال مقصود قریشی اور سلمان ودھو کو مبینہ طور پر اغوا کر کے انہیں ان کی کار کے اندر اس وقت زندہ جلا دیا جانا ہے جب وہ کراچی کی طرف ایک سیاسی اجتماع میں شرکت کرنے جا رہے تھے۔
خط میں سندھی سیاسی کارکنوں کی ایسی ہلاکتوں کے احکامات دینے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے حملوں اور تشدد جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خوفناک خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتے ہیں کا احتساب کیا جانا چاہئے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی رپورٹیں بلوچستان سے بھی ملتی ہیں جہاں گمشدہ سیاسی کارکنوں کی ان کے قتل کئے جانے کے بعد اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں صرف سیاسی ہی نہیں مذہبی نوعیت کی بھی ہیں جیسا سندھ میں اقلیت کے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں عبادات کرنے میں خود کو آزاد محسوس نہیں کر رہے بلکہ صوبہ سندھ میں ان کی عبادت گاہوں پر حملے اور ان کی توہین کی متواتر اطلاعات آرہی ہیں جو کہ بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔
امریکی کانگریس کے منتخب ارکان نے کہا ہے کہ سندھ میں ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتیں انتہائی مصائب سے گزر رہی ہیں ان کی عبادت گاہوں پر حملے اور انہیں قتل کیا جا رہا ہے ان کے خلاف توہین مذہب کے نام پر مقدمات قائم کرکے انہیں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ خط کے مطابق اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیاں اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔
خط میں مزید کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں مخصوص شدت پسند مذہبی گروپ اقلیتوں کے خلاف تشدد مبینہ طور سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے دی ہوئی چھوٹ کی وجہ سے کر رہے ہیں اگر ایسی اطلاعات سچی ہیں تو پھر حکومت کو اس کے خلاف فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔خط کی آخری سطور میں امریکی کانگریس کے منتخب اراکین نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان بھی انسانی حقوق کے مساوی طور مستحق ہیں کہ جس سے ہی پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آزاد، برداشت کا روادار اور رہنے کے قابل جگہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ کسی امریکی سینیٹر یا کانگریس مین نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کسی پاکستان کے رہنما یا حکومتی سربراہ کو خط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوطرفہ تعلقات میں یا انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے امریکی قانون ساز برسوں سے کئی مواقع پر ایسے خطوط جمہوری چاہے غیر جمہوری پاکستانی حکمرانوں کو لکھتے رہے ہیں پھر وہ کبھی بے نظیر بھٹو یا بیگم نصرت بھٹو کی ضیاء فوجی آمر کے دنوں میں نظربندیاں ہوں یا نواز شریف کی حکومت کا تختہ فوجی آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں الٹا جانا ہو کہ شریف برادران اور ان کی کابینہ کے ارکان کی گرفتاریاں، عدلیہ پر قدغن ہو کہ چیف جسٹس اور ان کے برادر ججوں کی نظربندیاں ہوں کہ مختاراں مائی کا معاملہ، ملالہ یوسف زئی ہو کہ شکیل آفریدی کی نظربندی ، بچوں سے جبری محنت کا مسئلہ ہو یا اس سے قبل میڈیا پر پابندیاں ہوں امریکی کانگریس و سینیٹ کے منتخب ارکان روایتی و تاریخی طور پرپاکستانی حکومتی سربراہوں سے اپنے تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
لیکن ظاہرہے کہ پاکستان اور اس میں سندھ صوبہ بھی کسی تاریک جزیرے پر نہیں کہ اس میں صورت حال اور خاص طور انسانی حقوق کی صورت حال عالمی ضمیر پھر وہ اقوام متحدہ ہو کہ امریکی کیپیٹل ہل میں بیٹھنے والوں کی دلچسپی اور توجہ یا تشویش کا مرکز نہ بنے۔ لیکن وہ جو سندھی میں کہتے ہیں نہ کہ ضرب یا چوٹ لگانے کا حکم انہیں نہیں اور لعن و طعن کی پروا ہمیں نہیں۔
پنجاب میں گورنمنٹ کے ہاتھوں لاہور میں اگر دس بے گناہ شہری قتل ہوتے ہیں (جو کہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے) تو تخت لاہور ہل جاتا ہے لیکن سندھ بلوچستان چاہے خیبرپختونخوا یا سندھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی میں سیکڑوں بے گناہ لوگ قتل ہوں تو کسی بھی دور کے حکمران کے کانوں جوں تک نہیں رینگتی۔
ابھی پانچ امریکی منتخب اراکین کے سندھ کی صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف کو خط پر دستخطوں کی سیاہی اور سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مارے جانے والوں کے لواحقین کے آنسو بھی خشک نہیں ہوئے ہوں گے کہ گزشتہ تئيس جون کو ایک اٹھارہ سالہ نوجوان سندھی سیاسی کارکن انیس سومرو کو پولیس تحویل میں قتل کر کے جعلی مقابلہ ظاہر کیا گیا۔ انیس سومرو کو سہراب گوٹھ پولیس نے دس روز قبل گرفتار کیا تھا جس کی رہائی کیلئے ، انیس کے والد کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او نے پانچ لاکھ روپے رشوت مانگی تھی جو وہ ادا نہیں کر سکے تھے۔ انیس کے والد نے اپنے بیٹے کی ناحق گرفتاری کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کی تھی جس پر متعلقہ عدالت نے اپنا ریڈ کمشنر تھانے پر چھاپے کو بھیجا تھا لیکن انیس کو کہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ پولیس نے دس روز کے بعد اس کی ہلاکت دہشت گردوں سے مقابلے میں ظاہر کی۔ پولیس کا موقف ہے کہ انیس جرائم پیشہ تھا۔ اگر جرائم پیشہ تھا تو اس کیلئے عدالت کچہریاں نہیں ہوتیں،تحویل میں ہلاکتیں۔ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں اور سیاسی کارکنوں کے لواحقین کہتے ہیں اگر ان کے پیارے مجرم ہیں تو انہیں متعلقہ عدالتوں میں پیش کریں، ان کی گرفتاریاں ظاہر کریں۔
اس سے قبل اکتیس مئی کو ایک سندھی قوم پرست سرگرم کارکن لیکن جسمانی طور پر معذور اور وہیل چیئر پر چلنے پھرنے والے منیر چولیانی کو غائب کر کے قتل کردیا گیا۔ منیر چولیانی کو اس وقت ریاستی اغوا کار ڈبل کیبن میں ہتھیاروں کے بل پر اغوا کر کے لے گئے جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ لاڑکانہ سے اپنے گھر سن کی طرف سفر کر رہا تھا۔ چند گھنٹوں بعد منیر چولیانی کی لاش قریبی شہر بھان سعیدآباد سے موصول ہوئی۔ غیر ملکی امدادی فوجی ہتھیاروں سے طالبان و دیگر دہشت گردوں کے پیچھے کم اور سندھی اور بلوچ قوم پرستوں اور اردو بولنے والے سیاسی کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل زیادہ ہوئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں محض اغوا برائے تاوان والے گروہ سرگرم نہیں بلکہ ریاستی اغوا کار گروہ بھی اتنی شدت سے سرگرم ہیں۔ کیا انسانی حقوق کی بہت صورت حال قومی سلامتی کی ضمانت نہیں ہوتی!
تازہ ترین