• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نائن الیون کے واقعہ کو اب تیرہ برس ہونے کو ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تیرہ سالوں کے دوران امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ جارج بش اور اوبامہ کی انتظامیہ نے امریکی شہریوں کو بڑی حد تک محفوظ کرلیا۔ لیکن یہ امر بھی بہت بڑی حقیقت بن چکا ہے کہ ان تیرہ سالوں کے دوران کم ازکم تین ممالک ایسے ہیں جو آج تک کسی نہ کسی طرح کی بدامنی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے مبینہ ملزموں میں افغانستان، عراق یا پاکستان کا کوئی باشندہ نہیں تھا لیکن یہ تینوں ممالک کہیں براہ راست اور کہیں بالواسطہ دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔ سب سے پہلے افغانستان امریکی حملے کی زد میں آیا اور طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ یہ جنگ ابتدائی مرحلے میں تھی کہ امریکی لشکر عراق جاپہنچے جہاںصدام حسین کاتختہ الٹ کر اسے پھانسی چڑھادیاگیا۔ طالبان اور صدام حسین سے امریکہ نے انتقام لے لیا لیکن پاکستان واحد ملک ہے جس نے ’دہشت گردی کےخلاف جنگ‘ میں کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ امریکہ نے اسے اپنا ’غیر نیٹو‘ اتحادی قراردیا لیکن تیرہ برس سے پاکستان بھی افغانستان اور عراق کی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس دہشت گردی کی نوعیت مختلف ہے لیکن مسلح افواج، سکیورٹی ایجنسیوں، قانون نافذکرنے والے اداروں اور عوام سمیت پچاس ہزار سے زائد افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان تیرہ سالوں کے دوران دہشت گردی کے مرض پر قابو پانے کے لئے کوئی موثر اور کارگر تدبیر نہیں کی جاسکی۔
وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار سنبھالتے ہی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے عسکریت پسندوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کریں گے تاکہ مزید خون خرابہ نہ ہو اور آپریشن کے نتائج سے عام لوگ متاثر نہ ہوں۔گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں انہوں نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ تمام پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر ایک قرار داد کے ذریعے حکومت سے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ نکالے۔ اس علامیے کی روشنی میں ہی وزیراعظم نے اس سال کے آغاز میں قومی اسمبلی کے خطاب کے دوران ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ جسے طالبان سے مذاکرات کا اہم مشن سونپا گیا۔ تمام پارلیمانی قائدین نے اسکی حمایت کی اور طالبان نے بھی اسے حکومت کا پہلا سنجیدہ قدم قرار دیا۔ طالبان نے خود اپنی بھی ایک کمیٹی قائم کر دی جو پانچ ارکان پر مشتمل تھی لیکن عملاً اس میں دو ہی ارکان باقی رہ گئے ہیں ایک مولانا سمیع الحق اور دوسرے جماعت اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم ۔اس کمیٹی نے کافی پیش رفت تو کی لیکن نہ تو جنگ بندی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ رُکا اور نہ ہی کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے آیا۔ اس کے بعد بیورکریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی وزیر داخلہ کی سربراہی میں بنی جس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ وہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کیا کرتی رہی۔ایک بات واضح ہے کہ چھ ماہ کے مذاکراتی عمل کے دوران عسکریت پسندوںکی طرف سے نہ صرف فوج اور سکیورٹی اداروں پر حملے جاری رہے بلکہ دہشت گردی کی وارداتیں بھی نہ رُکیں۔ دہشت گردی کی ہر واردات مذاکرات کی خواہش رکھنے والوں کے موقف کو کمزور کرتی اور فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنے والوں کے موقف کو تقویت دیتی رہی۔
یہ بات اب پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ حکومت اور فوج نے زبردست صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے کی مخلصانہ کوشش کی لیکن دوسری طرف سے ان کوششوں کا منفی ردِ عمل سامنے آیا۔ یہاںتک کہ کراچی ائیر پورٹ حملے نے مذاکرات کی سُست رفتار گاڑی کو پٹری سے ہی اُتار دیا۔ کوئی کچھ بھی کہے حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ایک فیصلہ کن فوجی کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اب مزید وقت ضائع کئے بغیر دہشت گردوں کو اُسی زبان میں جواب دینا چاہئے جس کووہ سمجھتے ہیں۔ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘کا آغاز پور ی قوم کی آواز بن گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر تمام قوتوں نے اس آپریشن کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے یہ کہا کہ آپریشن سے پہلے مذاکرات یا فوجی کارروائی کے حوالے سے مختلف آراء ہو سکتی تھیں لیکن اب جبکہ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے یہ بحث ختم ہو جانی چاہئے۔ وزیراعظم کی اس بات کو وزن دیا گیا اور قوم سب کچھ بھول کر یکسوئی کے ساتھ اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہو گئی لیکن اس سے صرف ایک دن بعد لاہور کا سانحہ پیش آیا جس میں پولیس نے بے رحمانہ کاروائی کر تے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے آٹھ کارکن ہلاک کر دیئے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس المناک سانحہ کے بارے میں قائم کیا گیا عدالتی کمیشن اپنا کام شروع کر چکا ہے۔ ایک مہذب قوم کی حیثیت سے ہمیں کمیشن کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے۔لیکن انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ المیہ کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قوم کی توجہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سے ہٹ گئی۔ ہمارے میڈیا کو امتحان کی اس گھڑی میں اپنے ان جانبازوں کے ساتھ کھڑا ہونا تھا جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں سے جنگ میں مصروف ہیں لیکن اس کے بجائے ہماری ٹی وی ا سکرین کچھ اور ہی مناظر سے بھر گئیں۔ یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیاکسی خفیہ ہاتھ نے یہ کام کر دکھایا اور نہ صرف قوم کی توجہ کو اصل معرکہ سے ہٹا لیا بلکہ میڈیا کو بھی ایک اور کھیل کا حصہ بنا دیا۔
دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں کامیابی کے سوا ہمارے لئے کوئی آپشن نہیں لہٰذا ساری بحثوں، نعروں، جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے ہٹ کہ ہمیں اپنی توجہ آپریشن پر مرکوز رکھنی چاہئے اور پختہ ارادے کے ساتھ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہئے، سیاست بازی کے لئے بڑا وقت پڑا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں متاثرین ہجرت کر کے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میںجمع ہو رہے ہیں ۔معاشرے کا فرض ہے کہ وہ انکی بھرپور مدد کرے۔مزید برآں اس امر کا ادراک بے حد ضروری ہے کہ آپریشن اور اس کے متاثرین سے توجہ ہٹانے والا ہر کھیل قومی سلامتی اور مفاد کے خلاف ہے خواہ وہ کتنے ہی خوبصورت اور دل کش نام سے کھیلا جائے۔
تازہ ترین