• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپریشن ضرب عضب کو دو ہفتے ہوگئے قریب قریب ساڑھے پانچ لاکھ IDP,S بنوں اور دوسرے علاقوں میں ہجرت کرچکے ہیں۔ تپتے راستوں پر سسکتے معصوم بچے اور پردہ دار خواتین کسی سے کوئی گلہ نہیں، کہاں جانا ہے منزل کا بھی پتہ نہیں، سروں پر سامان رکھے صبر اور پوری ہمت سے گھر بار چھوڑ کر عام آبادی سے دور ریلیف کیمپوں میں پڑے ہیں۔ وفاقی حکومت ہر متاثرہ خاندان کو 12 ہزار روپے نقد دے رہی ہے، فوج نے میڈیکل کیمپ لگا دیئے ہیں، NGO's میں سب سے پہلے لاہور سے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی ٹیم نے بنوں میں میڈیکل کیمپ قائم کیا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ پر کسٹم کلکٹر ہیں درجن بھر کتابوں کے مصنف بھی ہیں معالج بھی، انسان دوست بھی مورخ اور محقق بھی۔ان کی NGO کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے آزار سے بلند ہو کر دامے درمے سخنے انسان دوستی کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی بنوں کے IDP,S کیمپ میں لوگوں کو نقد رقم بھی دے رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ادویات کھانے پینے کی اشیاء اور ڈاکٹرز کی خدمات بھی پیش کئے ہوئے ہیں، ملک میں کہیں کوئی آفت ہو انسانیت کو مشکلات درپیش ہوں ڈاکٹر آصف محمود جاہ وہاں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں بیٹھے ان کے دوست بھی ان سے تعاون کرتے ہیں۔ ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ ملک بھر کے کسٹم آفیسر اس NGO کے ممبر ہیں۔
جناب عطاء الحق قاسمی نے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’میں انہی لوگوں کو اللہ والا سمجھتا ہوں جو اللہ کے بندوں کی خدمت کرتے ہیں میرا اشارہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی طرف ہے‘‘ جبکہ جناب حسن نثار نے کہا تھا کہ ’’میرے پاس اس دعا کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ’’اے پروردگار ہمیں دو چار ڈاکٹر آصف محمود جاہ عطا فرما کہ ہم مستقل زلزلوں کی زد میں ہیں‘‘۔
پاکستان میں کہیں کوئی مشکل ہو، مصیبت ہو، افتاد آن پڑے ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنے ساتھیوں اور موبائل ایمبولینس، سامان سے بھرے ٹرک لئے وہاں پہنچے ہوتے ہیں، وہ کشمیر کے زلزلہ 2005ء میں بھی موجود تھے۔ سندھ میں سیلاب کے دنوں میں بھی گئے اور حالیہ خشک سالی میں کئی کنویں بنوا آئے۔ وہ بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے میں متاثرین کیلئے کئی گھر بنوانے میں بھی بازی لے گئے تھے۔ سچی بات ہے ہمیں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی دوستی پر بڑا فخر ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں کے حوالے سے ہی پہچانا جانا چاہئے۔
لاڑکانہ سے ہمارے ایک اور دوست پروفیسر جام جمالی صاحب نے ہمیں SMS کیا ہے اور لاڑکانہ ہی کے میر محمد رضا شیخ کی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب‘ دراصل حضرت محمدﷺ کی اس تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے جو آپﷺ کو حضرت سعد بن عبیدہ نے غزوہ بدر میں پیش کی تھی۔ SMS چونکہ خوبصورت بھی ہے معلوماتی بھی اور تاریخی بھی لہٰذا ہم اس میں اضافہ کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ ہمارے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی 9 تلواریں تھیں تین چار اور بھی تھیں لیکن ان کا ذکر زیادہ نہیں ملتا۔ ’’عضب‘‘ نامی تلوار غزوہ بدر جو 12 سے 17 رمضان المبارک 2ھ مطابق 8 تا 13 مارچ 624ء کو ہوا تھا۔ اس میں سعد بن عبیدہ نے رسولﷺ کو تحفہ دی تھی سعد بن عبیدہ انصاری تھے۔
غزوہ بدر سے ہی مال غنیمت میں ملنے والی ایک تلوار ’’ذوالفقار‘‘ بھی تھی، یہ تلوار آپﷺ کو بہت پسند تھی اس تلوار کے قبضے اور نسل چاندی کے تھے چاندی کے ہی کنڈے بھی پڑے ہوئے تھے آپﷺ کے وصال کے بعد وہ تلوار حضرت علیؓ کو مل گئی تھی۔
’’غلس‘‘ نامی تلوار، بنی طے قبیلے کے غلس نامی بت کے گلے میں لٹکی ہوئی ملی تھی، ’’قضیب‘‘ نامی تلوار کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ رسولﷺ نے اسے گلے میں ڈالا تھا یعنی حمائل کیا تھا۔ آپﷺ کی ایک تلوار ’’الصمصامہ‘‘ بھی تھی جو آپ نے خالد بن سعید بن عاص کو یمن کا گورنر بننے پر تحفہ دے دی تھی، ایک تلوار ’’حیف‘‘ نامی بھی تھی حیف کے لغوی معنی تو افسوس کے ہیں مگر اس حیف کا معنی موت تھا۔
’’التبار‘‘ نامی تلوار کے معنی تو ہلاکت ہیں مگر اس تلوار میں بھی الذوالفقار کی طرح چاندی کے قبضے تھے۔ ’’العتف‘‘ نامی تلوار رسولﷺ کی تمام تلواروں میں خوبصورت تلوار تھی ایک تلوار ’’الفقرالحفر‘‘ بھی تھی، ’’القلعی‘‘ نامی تلوار آپﷺ کو قلعہ سے ملی تھی جو مدینہ پاک اور ہمدان کے درمیان مقام حلوان کے قریب ہے۔
’’الرسوب‘‘ نامی تلوار وہ تھی جو ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو تحفہ میں دی تھی۔
’’ماثور‘‘ نامی تلوار حضرت محمدﷺ کے والد گرامی حضرت عبداللہؓ کی تلوار تھی جو آپﷺ کو ورثے میں ملی تھی اور آپﷺ کو ملنے والی تلواروں میں سب سے پہلی تلوار تھی۔
’’العرجون‘‘ یہ بھی ایک تلوار تھی جو رسولﷺ کے معجزے پر مبنی تھی، عبداللہ بن حجش جن کا لقب عکاشہ تھا ’’غزوہ احد‘‘ میں ان کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسولﷺ نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی مرحمت فرمائی جو عکاشہ کے ہاتھ میں تلوار بن گئی تھی۔
’’غزوہ احد‘‘ جو جمعتہ المبارک 6 شوال 3ھ مطابق 22 اپریل 625ء کو ہوا تھا۔
اس میں مدینہ پاک میں آپﷺ نے حضرت ابن ام مکتوم کو اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ آپﷺ جب نماز جمعہ کے بعد ایک ہزار کا لشکر لے کر نکلے تو مدینہ اور احد کے درمیان شیخین کے مقام پر عبداللہ بن ابی نے منافقت کرتے ہوئے اپنے تین سو منافقین کو لے کر اسلامی فوج سے علیحدہ ہوگیا اور مدینہ واپس آگیا تھا لیکن جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا تو رسولﷺ نے خود اسے قبر میں اتارا اور اس پر اپنا کرتہ بھی ڈالا اس پر صحابہ کرام نے کہا یارسول اللہﷺ یہ تو منافقت ہے اس نے مسلمانوں کو غزوہ احد کے موقع پر دھوکہ دیا تھا مگر رحمت اللعالمینﷺ نے فرمایا کہ اس کا ہم پر ایک احسان بھی تو ہے، وہ کون سا یا رسول اللہﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا اس نے مدینہ واپس آکر شہری زندگی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
تازہ ترین