• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ہمارے اس اسلام کے قلعے میں کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ مذہبی علوم کی تعلیم ہے ۔ ہمیں دیگر ہر چیز کے بارے میں شکایت ہوسکتی ہے ، جیسا کہ صحت کی سہولتوں کا فقدان، سرکاری اسکولوں کی کمی، غربت، بدعنوانی،پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی وغیرہ لیکن کوئی بھی اس بات کی شکایت نہیں کرے گا کہ ملک میں مذہبی علوم کی بھی کوئی کمی ہے ۔ ہماری اسلامی جمہوریہ ان علوم کا موجزن قلزم ہے ۔ یہ الگ بات کہ قرآن مجید کی عبارت یا اس کے ترجمے کو پڑھنے یا زبانی یاد کرنے کے معمول کا ہمارے اجتماعی کردار پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ جہاں تک مذہبی رسومات میں دکھاوے اور ظاہری پن کا تعلق تو کس کی مجال جو ہمارا حریف ہو، لیکن روز مرہ کی زندگی میں تمام مذہبی جذبات ایک طرف، ہم میں سے ہرکوئی اپنی اپنی صلاحیت اور پہنچ کے مطابق ہاتھ مارنے پر کمر بستہ رہتا ہے ۔ پٹواری، تھانیدار،ڈاکٹر، کنسلٹنٹ، انجینئر، سیاست دان، سرکاری افسردھوکا دہی اور بددیانتی میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ اور جو زیادہ کمال فن رکھتے ہیں ، اُن کے سمندر پار اکائونٹس اور جائیدادیں بھی ہیں۔ اس دوران وہ ہمیں اخلاقیات اور دیانت داری کے لیکچر دینا نہیں بھولتے، اور مذہبی عقائد کی پاسدار ی میں مجال ہے جو ذرا سی بھی کسر دکھائی دے ۔
یہی سکہ بند طرز ِعمل ہمارا خاصا ہے کہ مذہبی فرائض اپنی جگہ پر لیکن دولت کے حصول ، دھوکے بازی اور لوٹ مار پر مائل طبیعت پر عقائد کا کیا اثر؟ ہوسکتا ہے کہ اسے تھیوری کے اعتبار سے سیکولر ازم نہ کہا جاسکے لیکن عملی طور پریہ سیکولرازم نہیں تو اور کیا ہے ؟ روحانی ارتفاع اور دنیاوی متاع اپنی اپنی راہوں پر الگ منازل کے مسافر، کوئی رکاوٹ نہ ردوقدع۔ دکانداری ہویا تجارت، صاحب ایمان کاہاتھ نہ ملاوٹ پر لرزتا ہے نا ناجائز منافع خوری پر، لیکن جیسے ہی اذان کی آواز کانوں میں پڑے تو وہ جائے نماز بچھالے گا یا قریبی مسجد کی طرف روانہ ہوجائے گا۔ ہمارا معاشرہ اداس اور غمزدہ بھی ہر گز نہیں، ہم اس منافقت اور دہرے رویے کے بازار میں جہاں تک ضرورت ہو، اپنے سیاہ کو سفید کرکے دام کھرے کرلیتے ہیں۔ اس دوران ہمیں اگلی زندگی کی فکر عقائد کی انجام دہی پر بھی کمر بستہ رکھتی ہے ۔ گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا کوئی خلل نہیں ڈالتا۔
ہمیں اپنے سابق آقائوں، انگریزوں، سے اچھا نظام ِ تعلیم ورا ثت میں ملا تھا۔ اُنھوں نے ہمارے ہاں بہت اچھے تعلیمی ادارے، جیسا کہ لارنس کالج، ایچی سن اور سرکاری اسکول قائم کئے تھے ۔ ان اداروں میں درس و تدریس کا معیار بہت بلند تھا، اساتذہ بہت تعلیم یافتہ تھے ، لیکن جیسا ہم نے دیگر ریاستی اداروں کا حشر کیا، یہ تعلیمی ادارے بھی ہمارے ہاتھوں زمین بوس ہونے سے نہ بچ سکے ۔
یہ واحد کوشش ہے جس میں کامیابی نے ہمیشہ آگے بڑھ کر ہماری قدم بوسی کی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے پاس فنڈز کی قلت تھی ، تو اس کے متبادل کے طور پر نجی تعلیمی ادارے سامنے آئے جہاں صرف صاحب ِ حیثیت ہی تعلیم حاصل کرسکتے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ چند ایک عوامی سہولتوں کو نجی تحویل میں نہ دیا گیا ہو لیکن مجموعی طور پر ہم نجی ملکیت میں دیا گیا معاشرہ ہی ہیںجہاں تعلیم، صحت اور سیکورٹی، ہر چیز قابل ِ فروخت ہے ۔ ریاست کی ریڑھ کی ہڈی، محصولات کے نظام کو تو عرصہ ہوا پرائیوٹائز کردیا ہے ، آپ کو جو کچھ چاہئے، مٹھی گرم کریں یا فائل کا حاشیہ سنہری کریں توہر کام بن جائے گا۔ کم وبیش تمام صوبوں میں پولیس فورس نجی خدمات سرانجام دیتی ہے ۔ آپ نے کیس کی ایف آئی آر درج کرانی ہے یا تحقیقات ، ہر چیز کے نرخ ہیں، چنانچہ اپنی جیب دیکھ کر بات کریں۔ یہ اس ’’بازار ‘‘ کی حقیقت پسندی ہے، دیگر کج فہم دنیا ان معاملات کو رشوت ستانی سمجھتی ہے ، سمجھتی رہے ، ہمیں ان سے کیا۔ اگر گفتار کے غازی جمہوریت پر کی گئی تنقید پر آبدیدہ ہوجاتے ہیں تو اُن سے التماس ہے کہ کسی دن کسی تھانے میں جاکر کریمنل کوڈ کی’’حدود‘‘ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں۔ اُنہیں وہ سبق ملے گا جو زندگی ، بلکہ اس کے بعد بھی ، یاد رہے گا۔ مجھے یہ کہنے کی ا جازت دی جائے کہ نظام ِ انصاف بھی بہت حد تک نجی تحویل میں دیا جاچکا ۔ کسی بھی ماتحت عدالت سے فیصلے کی نقل لینے کے لئے آپ کو منصف کی آنکھوں کے سامنے ریڈر کو خوش کرنا پڑتا ہے ۔ نامی گرامی وکلاکی فیس سن کر اچھا بھلا آدمی بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے ،اور ان وکلا کے بغیر انصاف نہیں ملتا۔ ویسے تو لیگل برادری کے احباب پہلے ہی طاقتو ر تھے ، وکلا کی تحریک نے اُن میں سے بعض کو مارشل آرٹس کا بھی ماہر بنا دیا۔ اب دلائل ہی نہیں مکے بھی چلتے ہیں۔یہاں کہنا پڑے گا، ’’شکریہ جسٹس چوہدری۔‘‘
اگر ریاست میں لگےہوئے لکی ایرانی سرکس میں کچھ کمی تھی تو وزیر ِ تعلیم اسٹیج پر رونق افروز ہوئے اور فرمان جاری کیا کہ ریاست کی تمام خرابیوں کی وجہ قرآنی تعلیم کی کمی ہے ۔ ان سے وفاقی دارالحکومت کے کسی پرائمری اسکول کی حالت بھی نہیں سدھرسکی لیکن ہرروز فرمان جاری ہوتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں ترجمے کے ساتھ قرآن کی تعلیم دی جائے گی۔ مقدس کتاب میں کچھ سورتیں مکی ہیں اور کچھ مدنی۔ وزیر ِ موصوف کا کہنا ہے کہ نچلی کلاسوںمیں مکی سورتیں پڑھائی جائیں گی جبکہ بڑی کلاسوں میں مدنی سورتیں، جن میں جہاد کے حوالے زیادہ ہیں۔ یقینا یہ ایک قابل ِ تحسین عمل قرار پائے گا، اور پھر کس کی ہمت ہے اس کی مخالفت کرنے ، یا ایک لفظ بھی منہ سے ادا کرنے کی، لیکن کیا ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات کے کھوکھلے پن کی گواہی نہیں دیتا؟ پاکستان کی ہر گلی، ہر موڑ پر مساجد ہیں جو قرآن کی تعلیم دیتی ہیں۔ وہاں بچے حفظ کرتے ہیں، دینی مدرسے ہیں جہاں صرف اسلام کی تعلیم ہی دی جاتی ہے ۔ یہ دینی ادارے ہمارے روایتی تعلیمی نظام کے متوازی کام کررہے ہیں۔ کیاان سے معاشرے میںکوئی بہتری آئی؟
ہماری کوشش ہونی چاہئے تھی کہ ملک میں یکساں نظام ِ تعلیم رائج ہو۔ ہمیں اپنے نصاب اور کتابوں کی حالت بہتر بنانی چاہئے تھی۔ ہمار ا امتحانی نظام انتہائی ناقص ہے جس میں نقل ہی عقل کی نشانی ہے ۔ ہماری اعلیٰ تعلیم جہالت کا دوسرا نام ہے۔ سائنس کے نام پر جو کچھ پڑھایاجاتا ہے ، اس کے مقابلے میں قرون وسطیٰ جدید زمانہ دکھائی دیتا ہے ۔ ہماری یونیورسٹیاں عالمی معیار کے اسکالرز پیدا نہیں کرتیں، تحقیق سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہماری پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک مذاق ہے ۔ وزیر ِ تعلیم کو ان امور پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ اس کی بجائے اُنھوں نے بھی وہی کچھ کیا ہے جس میں پاکستانی مہارت رکھتے ہیں۔ جو بھی مسئلہ درپیش ہو، مذہب کا جھنڈا لہرا دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور قرآن کو اس دکھاوے کی حاجت نہیں۔ تمام تر اسلامی تعلیمات پہلے ہی ہماری کتب میں موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے وزیر ِتعلیم کی اسلامی کاوش صرف اسلام آباد تک ہی محدود ہے کیونکہ صوبوں کی اپنی اپنی تعلیمی پالیسی ہے ۔ تاہم یہ ہمارے قومی کردار کی ایک فعال مثال ہے ۔ ہم مسائل حل نہیں کرتے،پرکشش نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ دراصل پاکستان کے مسائل کی وجہ قرآنی تعلیمات سے دور ی نہیں بلکہ اس کے احکامات کی من پسندتشریح پر عمل کرنا ہے ۔ حکمران طبقے کو لے لیں۔ مے فیئر جائیداد کے مالک قرآنی تعلیمات کے انتہائی پابند ہیں، لیکن ان کا اُن کے کردار پر کتنا اثر دکھائی دیتا ہے ؟
پس تحریر: میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ سینیٹر بارک اوباما نے عراق جنگ کے لئے پیش کی گئی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ایک قاری، سورن سکتنکار نے نشاندہی کی ہے کہ اوباما 2004 میں سینیٹر بنے تھے، یعنی عراق جنگ سے ایک سال بعد۔ میں اس غلطی پر معافی چاہتا ہوں۔


.
تازہ ترین