• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے خلاف فائنل رائونڈ کو حتمی شکل دیدی، کپتان فیصلہ کر چکے ہیں کہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا آغاز کیا جائے۔ حکومت کے خلاف عوامی مہم شروع کرنے سے پہلے عمران خان نے اپنی پارٹی کی چاروں صوبوں کی قیادت سے مشاورت کی سب سے بڑے صوبہ پنجاب جہاں پر یہ عوامی تحریک کا فیصلہ ہونا ہے وہاں کے متعدد سینئر رہنمائوں نے حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ سندھ اور بلوچستان کے رہنمائوں کا مؤقف تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک بھرپور انداز سے شروع کی جانا چاہئے تا کہ حکومت کو دبائو میں کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی نے یہ حتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ حکومت ٹی او آرز پر مان بھی جائے تو بھی دبائو بڑھانے کے لئے تحریک چلائی جائے۔ کپتان سمجھتے ہیں کہ اس عوامی تحریک میں پنجاب مرکزی کردار ادا کرے گا۔ اس ضمن میں کپتان نے پنجاب کے تمام اضلاع کے صدر اور دیگر عہدیداروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کے مشیر جن میں شیخ رشید سرفہرست ہیں۔ کا مؤقف ہے کہ اگر نواز شریف 2018ء تک اپنی حکومت کے پانچ برس پورے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کو آئندہ انتخابات میں شکست دینا مشکل کام ہوگا۔ اس کی جو وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں پہلی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خدو خال ہیں جو نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے جس سے نا صرف روز گار کے مواقع بھی بڑھیں گے بلکہ پاکستان بھر میں معاشی انقلاب آنے کا بھی قوی امکان ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہے جو 2018ء تک حل ہو سکتا ہے اگر نہ بھی ہوا تو لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 2 گھنٹے سے زائد کا نہیں ہوگا۔ مارچ 2017ء میں سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت بھی حاصل ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اگر یہ تمام اقدامات آئندہ عام انتخابات سے پہلے حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے شکست دینا نا ممکن ہوگا اور ن لیگ اسی ایجنڈے کو بنیاد بنا کر الیکشن لڑے گی۔ کپتان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عام انتخابات مقررہ وقت سے پہلے ہو جائیں اور ان کی پارٹی حکومت کو پانامہ لیکس اور کرپشن کی بنیاد پر دبائو میںرکھے۔ میری نظر میں عمران خان بہت بڑا سیاسی جوا کھیل رہے ہیں اگر وہ اپنی عوامی تحریک کو مؤثر انداز میں چلانے میں ناکام رہے تو آئندہ انتخابات میں انہیں سیاسی نقصان ہو سکتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔ابھی میری اس بات پر لوگ ضرور تعجب کا اظہار کریں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ صرف لاہور میں تحریک انصاف کے چار سے زائد گروپس ہیں ۔ لاہور میں تحریک انصاف کے ورکرز پی ٹی آئی لاہور کے صدر علیم خان کو پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح پنجاب کے مختلف اضلاع کے تنظیمی نمائندے چوہدری سرور کی کارکردگی سے نا خوش ہیں۔ تحریک انصاف کے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پی ٹی آئی سیکرٹریٹ لاہور میں ورکروں کا ایک کنونشن کیا جس کا مقصد حکومت کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنے سے قبل کارکنوں کو متحرک کرنا تھا لیکن وہاں پر کارکنوں کی نمائندگی مایوس کن حد تک کم تھی۔ پی ٹی آئی کا پارٹی انفراسٹرکچر انتہائی کمزور ہے جس پر قیادت بالکل توجہ نہیں دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی رابطہ مہم وہ پذیرائی حاصل نہیںکر سکے گی جس کی وہ توقع رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ پارٹی کو الیکشن امیدواروں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لوگ جو پارٹی سے وابستہ ہیں انہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں کھڑے ہیں کیونکہ پنجاب کے اکثریتی حلقوں میں قومی و صوبائی نشستوں کے لئے 3 سے4 امیدوار ہیں لیکن وہ تمام بے یقینی کا شکار ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کو اپنی پارٹی کی اندرونی صورتحال کا بہت حد تک علم ہے اسی لئے وہ اپنی عوامی رابطہ مہم کو کرپشن کے حوالے سے آگاہی مہم کی شکل دے کر شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان کی آگاہی مہم زور پکڑ گئی تو وہ بھرپور طریقے سے حکومت کے خلاف عوامی مہم کا آغاز کریں گے اور چند ماہ قبل عام انتخابات کروانے کی سر توڑ کوشش کریں گے۔ اگر ان کی تحریک مؤثر انداز میں آگے نہ بڑھ سکی تو وہ اپنی مہم کو آگاہی مہم تک ہی محدود رکھیں گے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی کے پی میں حلیف جماعتوں جن میں عوامی جمہوری پارٹی اور جماعت اسلامی شامل ہیں نے حکومت کے خلاف تحریک میں پی ٹی آئی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے جو کہ عمران خان کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں جبکہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بھی پی ٹی آئی کی اس عوامی تحریک کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیاہے۔ 2014ء کی طرح اس بار پھر عمران خان کی نگاہیں مجبوراً طاہر القادری کی طرف ہوں گی لیکن اس بار انہیں اس کا نقصان پہنچے گا ۔ اس کے برعکس حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پانامہ لیکس ایشو کو ختم کرے گی اسی لئے وہ آئندہ دنوں میں اہم فیصلے کرنے جا رہی ہے ان فیصلوں میں اپوزیشن کے بیشتر مطالبات کو مان لیا جائے گا ۔ وزیراعظم خود اپنے بچوںکو پانامہ لیکس کی بنیاد پر احتساب کے لئے پیش کر دیں گے ۔ ایسے اقدامات سیاست میں بھونچال پیدا کر دیں گے اور اپوزیشن کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیںہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت اپوزیشن کو تقسیم کرنے کے لئے اپنے اقدامات جاری رکھے گی جبکہ وزیراعظم کے زیر نگرانی پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزراء کی ٹیم لوڈشیڈنگ کے خاتمہ سمیت حکومت کے دیگر میگا پروجیکٹس کو مکمل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گی ۔2018ء تک اگر حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عوام آئندہ انتخابات میں انکے تمام وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے انہیں کامیابی دلا سکتی ہے۔ میری ناقص رائے ہے کہ پاکستانی عوام الگے الیکشن میں کارکردگی کو ووٹ دیں گے اس کی ایک جھلک ہمیں آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی نظر آئی لہٰذا وفاقی اور جو صوبائی حکومتیں ترقیاتی ایجنڈے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں گی وہ انتخابات میں آئندہ بھی کامیابی حاصل کرے گی۔ میرے خیال میں عمران خان کو خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینا چاہئے تاکہ وہ اس کو بنیاد بنا کر آئندہ الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ عمران خان کے وہ دوست جو یہ کہہ رہے ہیں کہ عوامی مہم کے ذریعے حکومت کو گرایا جائے تو وہ غلط رائے رکھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا۔ اگر انہیں حکومت گرانے میں کامیابی حاصل ہو بھی جاتی ہے تو پی ٹی آئی فوری طور پر الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں نہیںہے ۔ عمران خان کے ایسے دوستوں کو اب اپنی رائے تبدیل کرناہوگی کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نشتہ!


.
تازہ ترین