• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 22؍ جولائی 2011ء کا دن تھا اور ملک تھا ناروے۔ ناروے کا ایک جزیرہ ہے ’’اوٹویا‘‘۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اور اسکے چاروں طرف سمندر ہے۔ یہ ایک پرفضا مقام ہے جہاں گرمیوں کے موسم میں لوگ کیمپ لگاتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ 22؍ جولائی کو یہاں درجنوں کیمپ لگے تھے۔ ان میں سینکڑوں مرد و خواتین موجود تھے کہ اچانک ان پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ یہ کیمپوں سے نکل کر بھاگے تو اسی اثناء میں ایک زور دار دھماکا ہوا اور ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھر گئیں۔ اس واقعہ میں کل 69 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس سے 2 گھنٹے پہلے ایک دوسرے جزیرے میں اسی شخص نے ایک وین پر بم پھینکا اور اس میں 8 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ حملہ آور اینڈرس بیرنگ بریوک تھا۔ یہ ناروے کا رہائشی اور جنگجو تھا۔
دوسرا واقعہ امریکی ریاست اوکلوہاما سٹی کا ہے۔ 10؍اپریل 1995ء کو اوکلوہاماسٹی میں سرکاری بلڈنگ کے قریب بارود سے بھرے ایک ٹرک میں دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 168افراد ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہو گئے۔ دھماکا کرنیوالا ’’ٹیموتھی میگ وک‘‘ تھا۔ یہ امریکی باشندہ تھا۔ امریکی فوج کا ملازم بھی رہا۔ یہ ٹیموتھی 1991ء کی امریکہ عراق جنگ میں بھی شریک رہا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے سینکڑوں عراقیوں کی گردنیں کاٹیں۔ اس نے امریکی بحری بیڑوں سے اڑتے کلسٹر بم بھی دیکھے اور ان بموں کو عراقی عوام پر گرتے بھی دیکھا۔ اس نے امریکی فوج کے عراق میں مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔ یہ ایک ملحد تھا۔ دین و مذہب سے عاری شخص۔ اس نے انسانیت پر ہوتے ان مظالم کو اپنے اندر محسوس کیا۔ یہ اٹھا اور اس نے بارود سے بھرا ٹرک حکومت کی بلڈنگ کے سامنے اڑا کر امریکی ظلم کے خلاف کلمہ احتجاج بلند کردیا۔ یہ اور اس طرح کے سینکڑوں واقعات اس دنیا کے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ کہلاتی ہے، جو اپنے آپ کو حقوق انسانی کا دعویدار کہتی ہے اور جو پوری دنیا کو امن و محبت کا درس دیتی ہے ۔ یہ اینڈرس بیرنگ بریوک اور یہ ٹیموتھی میگ وک وہ لوگ ہیں جن پر کسی نے کلسٹر بم نہیں مارا، جن پر کسی نے ڈرون نہیں چلائے، جن پر کسی نے بی-52سے بمباری نہیں کی، جن پر نیٹو ممالک کا 48 ریاستی اتحاد نہیں چڑھ دوڑا اور جن کے تیل کے کنوئوں اور معدنیات سے بھرپور پہاڑوں کو تورا بورا کسی نہیں بنایا۔ اینڈرس اور ٹیموتھی حملے کرکے سینکڑوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیں تو وہ دہشت گرد نہیں، مگر وہ دہشت گردضرور ہیں جو پچھلے 15 برسوں سے اپنے لاشے اٹھا رہے ہیں۔ دو منٹ کیلئے مسلمان تنظیموں القاعدہ، داعش، طالبان، حزب اللہ، حماس، بوکوحرام اور الشباب وغیرہ کو ایک طرف رکھ دیں اور آپ دنیا کے دیگر بڑے بڑے دہشت گرد گروپوں پر نظر ڈالیں۔ کوکلس کلاں، نیشنل لبریشن فرنٹ آف ٹری پورا، اینٹی بلاکا، کیتھولک ری ایکشن فورس، دی اورنج ولینٹیئر، دی آریان نیشنز اور دی کرسچین آئی ڈینٹٹی موومنٹ یہ کیا ہیں؟ کیا یہ دہشت گرد تنظیمیں نہیں؟ کیا انہوں نے دنیا بھر کی ناک میں دم نہیں کررکھا؟ آپ صرف کو کلس کلاں کو ہی لیجیے۔ یہ دہشت گرد تنظیم 1865ء میں عمل میں آئی۔ 1920ء تک اس کے ممبرز کی تعداد 40لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس تنظیم نے 1868ء کے لوزیانا کے صدارتی انتخاب میں سیاہ فاموں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنا شروع کردیا۔ ردعمل میں انہوں نے ری پبلکن کے 200سے زائد سیاہ فاموں کو قتل کردیا۔ انہوںنے سیاہ فاموں کے لیڈرز کو چن چن کر مارڈالا۔ انہوں نے اس دور میں 13 قیدیوں کو جیل سے نکالا۔ ان کی گردن اتاری اور پھر ان کے مردہ جسموں کو آگ لگادی۔ انہوں نے 25 دسمبر 1951ء کو فلوریڈا میں حملہ کیا اور ڈیڑھ سو سیاہ فاموں کو قتل کر دیا۔ 1963ء میں انہوں نے سیاہ فاموں کے ایک چرچ پر حملہ کر کے چار کالوں کو تہ تیغ کردیا۔ انہوں نے 86 برسوں میں ساڑھے 3ہزار لوگوں کو پھانسی گھاٹ بھی چڑھا دیا، مگر اسکے باوجودکوکلس کلاں یعنی (Ku Klux Klan) 141سالوں سے قائم بھی ہے اور اپنے مکروہ عزائم کیلئے مصروف عمل بھی۔یہ مہذب کہلانے والی طاقتوں کا وہ بھیانک چہرہ ہے جس کے ردعمل میں اسلامک موومنٹ میدان عمل میں آئیں۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں مسلم دنیا سے وابستہ دہشت گردی صرف تنظیموں تک محدود ہے، ریاستی دہشت گردی ثابت نہیں کی جا سکتی، لیکن اس کے مقابلے میں آپ غیر مسلم طاقتوں کی دہشت گردی دیکھئے۔ بے لگام امریکہ جہاں چاہتا ہے چڑھ دوڑتا ہے۔ عراق، افغانستان، شام، ویت نام، مصر، تیونس، لیبیا، صومالیہ کہاں کہاں امریکی دہشت گردی نہیں؟ فلسطینیوں پر امریکا کا بغل بچہ اسرائیل آگ و آہن برسا رہا ہے۔ برما میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ کشمیر میں امریکی دوست بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑرہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ دہشت گرد ہے نہ ہی وہ غیر مسلم تنظیمیں جنہوں نے پوری دنیا کا امن تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے دہشت گردی کو صرف اسلام یا مسلمانوں سے جوڑنا کسی صورت انصاف نہیں۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس میں رنگ و نسل، دین و مذہب اور علاقائی تفریق کرنا دنیا کی آنکھوں میں جھول دھونکنے کے مترادف ہے اور یہ ہے وہ تفریق جس کی وجہ سے دنیا جہنم بن چکی ہے۔ نیوٹن نے کہا تھا ہر عمل کا ایک ردّعمل ہوتا ہے اور آج پوری دنیا میں دہشت گردی کی جو آگ لگی ہے، وہ انہی عالمی استعماری طاقتوں کے عمل کا ردّعمل ہے۔ آج یورپ سے لے کر افریقہ تک، الاسکا سے لیکر منگولیا تک اور سعودی عرب سے لیکر پاکستان تک دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جو دہشت گردی کے اس ناسور سے بچا ہو۔ اس دہشت گردی کے پیچھے کوئی بھی سوچ یا کوئی بھی نظریہ کار فرما ہوسکتا ہے۔ یہ رنگ و نسل کی لڑائی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ادیان کی تفریق بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسلک و عقائد کا جھگڑا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ فاشزم کے نام پرجنگ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ انقلاب اور نظریاتی تبدیلی کے نام پر قتل وغارت گری بھی ہو سکتی۔ یہ تحاریک آزادی کا شرپسندی کے نام پر بربریت کا کھیل بھی ہو سکتا ہے اور یہ سیاسی و معاشی مفادات کیلئے لڑی جانے والی جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ کہنا کسی صورت درست نہیں کہ دہشت گردی سے صرف مسلمان اور مسلم ریاستیں منسلک ہیں۔ ہٹلر کے نازیوں کی قتل وغارت سے لے کر امریکی اتحادیوں کی بمباری تک یہ سب دہشت گردی ہے اور اس کے ردّعمل میں معصوم انسانوں کو تہ تیغ کرنا بھی ظلم، بربریت اور دہشت گردی ہے۔ اب سوال یہ ہے دنیا اس دہشت گردی پر قابو کیسے پا سکتی ہے؟ دنیا کو جہنم سے جنت کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج پوری دنیا کو درپیش ہے۔ جب تک عالمی استعمار کی مفاداتی سازشیں ختم نہیں ہو نگی۔ جب طاقت کے زعم میں مبتلا طاقتیں پسماندہ اور چھوٹی قوموں کو آزادی سے سانس لینے کا موقع فراہم نہیں کریں گی۔ جب تک بڑی طاقتیں اپنی حدود میں واپس نہیں چلی جاتیں۔ جب تک معصوم اور بے گناہ قوموں پر ظلم بند نہیں ہوتا اس وقت تک دہشت گرد تنظیموں کا ردعمل رک پائے گا نہ ہی دہشت گرد حملوں اوردھماکوں سے باز آئیں گے۔ آپ غور کیجیے یہ طالبان کیا ہیں؟ یہ القاعدہ کیا ہے؟ یہ داعش کیوں ملکوں ملکوں دھماکے کررہی ہے؟ ان کے پیچھے کون ہے؟ ان کو فنڈنگ کون کررہا ہے؟ ان کو اسلحہ کون دے رہا ہے؟ یہ بڑے بڑے گروپ کیسے معرض وجود میں آجاتے ہیں؟ یہ اتنے کھل کر کیسے کھیل لیتے ہیں؟ دنیا کو ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ عالم کفر ہو یا عالم اسلام سب کو رنگ و نسل، ذات و مذہب سے اوپر اٹھ کر اس دہشت گردی کے بیس کیمپ کا پتہ لگانا ہوگا۔ انہیں دہشت گردی کے اس روٹ کاز کو تلاش کرنا ہوگا۔ یہ نئی نئی سازشیں تیار کی جاتی رہیں گی تو لامحالہ اس کا ردعمل بھی آئے گا۔ میرا دعویٰ ہے جب تک عالمی استعمار دوسروں کو جینے کا حق نہیں دے گا، اس وقت تک دنیا امن کا گہوارا نہیں بن پائے گی۔


.
تازہ ترین