• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ( اے ایچ آر سی ) نے ایشیائی ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے اپنی 2013ء کی رپورٹ جاری کردی ہے ۔ اس رپورٹ میں ہر ملک کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کی نوعیت کو اجاگر کرنے کے لیے الگ الگ عنوانات دیئے گئے ہیں ۔ مثلاً بنگلہ دیش کے حوالے سے رپورٹ کا عنوان ’’ وقار کی موت ‘‘ ہے ۔ اسی طرح بھارت کے لیے عنوان ’’ بہ ظاہر جمہوریت ‘‘ ، انڈونیشیا کے لیے ’’ جمہوریت نا مکمل ‘‘ ،نیپال کے لیے ’’ حقوق معرض التواء میں ‘‘ ، سری لنکا کے لیے ’’ استبدادی منصوبہ ختم کیا جائے‘‘ اور فلپائن کے حوالے سے رپورٹ کا عنوان ’’ تشدد کے لیے لائسنس یافتہ ‘‘ ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کا عنوان سب سے زیادہ تشویش ناک ہے اور وہ عنوان ہے ’’مقتل‘‘ گویا ملک ( کلنگ فیلڈ ) یعنی مقتل میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ ‘‘ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹس میں دیئے گئے مندرجات ، رپورٹس مرتب کرنے کے طریقہ ہائے کار اور رپورٹس پر کیے گئے تجزیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کی اس صورت حال کو جس طرح مذکورہ بالا عنوان میں واضح کیا گیا ہے ، اس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت روئے زمین پر پاکستان سے بڑا ’’ مقتل ‘‘ کہیں اور نہیں ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2013ء میں دہشت گردی ، خودکش دھماکوں ، فرقہ وارانہ تشدد ، ڈرون حملوں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں کے واقعات میں مجموعی طور پر 7170 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ 8746 افراد زخمی ہوگئے ، جن میں سے اکثر افراد بدترین معذوری کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور کریمنل جسٹس سسٹم انتہائی غیر موثر اور کرپٹ ہے ۔ رپورٹ میں خواتین ، اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات اور گروہوں پر مظالم کی کئی داستانیں شامل کی گئی ہیں لیکن اس بات کو زیادہ فوکس کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غیر محفوظ انسانی زندگی ہے ۔
پاکستان ایک ایسا ’’ مقتل ‘‘ ہے ، جہاں روزانہ ’’ کربلا ‘‘ برپا ہوتی ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا ہے ، جب پاکستان کے بے گناہ شہری ’’ ناگہانی سانحوں‘‘ کا شکار نہیں ہوتے ہیں ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے روم کے ایک جابر بادشاہ اور جرنیل ’’ جولئیس سیزر ‘‘ کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ اپنی موت سے ایک دن پہلے 14 مارچ 44 قبل مسیح کو اس نے اپنے گھر پر بڑی تعداد میں لوگوں کو مدعو کیا اور پورے ہجوم میں گفتگو کے لیے یہ موضوع پیش کیا کہ ’’ بہترین موت کون سی ہے ؟ ‘‘ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ ’’ اچانک موت ‘‘ ۔ دوسری صبح یعنی 15 مارچ کو ہی اسے قتل کردیا گیا اور ’’ بہترین موت ‘‘ کی اس کی خواہش پوری کردی گئی لیکن جب اس کے منہ بولے بیٹے نے اس کے جسم میں خنجر اتارا تو اس کے آخری ردعمل سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اسے یہ اچانک موت کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی ۔ پاکستان کے عوام جولئیس سیزر نہیں ہیں کہ انہیں روزانہ اچانک موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا ہے ۔ گذشتہ 30 سال سے جاری دہشت گردی اور خونریزی میں جتنے بے گناہ پاکستانی مارے گئے ہیں ، اتنے بڑی بڑی جنگوں میں بھی کسی ایک ملک میں نہیں مارے گئے ہوں گے ۔
یہ اور بات ہے کہ وفا کی راہ مقتل سے گذرتی ہے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ شہید محسن نقوی نے اپنی بات کی لاج رکھ لی کہ ’’ عشق محسن ہمیں مقتل میں پکارے تو سہی ۔۔۔ پاؤں بہ زنجیر چلے آئیں گے چھن چھن کرتے ‘‘ مگر کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ پاکستان نامی مقتل کا آخر ماجرا کیا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور تھنک ٹینکس سمیت دنیا بھر میں حالات کا تجزیہ کرنے والے تمام ادارے ابھی تک یہ واضح نہیں کر سکے ہیں کہ پاکستان میں قتل عام کیوں ہو رہا ہے ۔ ایک ہی دن میں ایک مسلک کے 200 افراد کو شہید کردیا گیا اور شہداء کے لواحقین ایک ہفتے تک لاشوں کے ساتھ سخت سردی میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے اور کوئی یہ شاعری کر رہا تھا ، جس میں کوئی مقتول سردی میں بیٹھی ہوئی اپنی بوڑھی ماں سے کہہ رہا تھا کہ ماں سخت سردی ہے ، مجھے دفنا دے ، تجھے انصاف ملنے والا نہیں ۔ اس کے باوجود پورے ملک میں کہیں بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ۔ مقتل پاکستان میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر روزانہ قتل ہوتے ہیں اور کچرے کے ڈھیر سے اپنا رزق تلاش کرنے والے غریبوں کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے لیکن ملک میں کہیں بھی لسانی اور نسلی فسادات نہیں ہوئے۔ آئے دن عبادت گاہوں اور مقدس مقامات پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں جلا دیا جاتا ہے ، پھر بھی کہیں مذہبی تصادم نہیں ہوتا ۔ دنیا بھر کے ادارے اپنی رپورٹس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھتے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر کوئی فرقہ وارانہ ، گروہی ، لسانی ، مذہبی ، نسلی یا طبقاتی تصادم ( Conflict ) ، لڑائی یا جنگ ہے ۔ سیاست ، انسانی حقوق اور جنگوں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے ہیں کہ تصادم سے پاک اور امن و محبت کی اس سرزمین پردنیا میں سب سے زیادہ خونریزی کیوں ہو رہی ہے ۔ اس بات کی وضاحت نہ کرکے نہ صرف عالمی ادارے بلکہ ہم سب ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے عوام جولئیس سیزر کی ’’ بہترین موت ‘‘ کے قطعی حق دار نہیں ہیں،جس سے پوری دنیا پناہ مانگتی ہے ۔ مقتل پاکستان میں بہت سے سوالات خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
میرا شام سلونا شاہ پیا
ہمیں مار گئی تری چاہ پیا
کہیں روح میں پیاس پکارے گی
کہیں آنکھ میں آس پکارے گی
کہیں خون ، کہیں دل بولے گا
کبھی آنا مقتل گاہ پیا
تازہ ترین