• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اخبار کی شہ سرخی میں آبدار خنجر کی سی کاٹ تھی۔ خیال آیا کہ شاید اخبار نویس نے ذوق لب بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی ہے مگر ایک کے بعد دوسرے، سب اخبارات نے ایک آدھ لفظی تغیر کے ساتھ خبر دی تھی کہ وزیراعظم نوازشریف نے دریائے سندھ پر داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں پانچ سال کی مدت پوری کرنے دی گئی تو پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی‘‘۔ پاکستان کی تقدیر تو خیر ضرور بدلے گی اور کیوں نہ بدلے۔ اس ملک میں رہنے والوں نے کیا کسی دیوتا کے کھیت کا پانی توڑ لیا ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے افلاس، محرومی اور پسماندگی کے جہنم میں جلنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو جسے سال بھر پہلے عوام نے ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجا یہ خدشہ کیوں لاحق ہو کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گا۔ آئین میں حکومت کی میعاد پانچ برس لکھی ہے۔ اگر اس دوران ارکان پارلیمنٹ کو وزیراعظم کی کارکردگی پر اطمینان نہ رہے تو وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم کو ان کے منصب سے ہٹا سکتے ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ کے اندر ایسی کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وزیراعظم کی اپنی جماعت برسراقتدار ہے اور خیبر پختونخوا کے استثنیٰ کے ساتھ باقی صوبوں کی حکومتیں بھی وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ حکومت نے ملک کو درپیش دو اہم مسائل یعنی معیشت اور دہشت گردی کے خلاف اہم پیش رفت کی ہے۔ معیشت کے محاذ پر راتوں رات کایا کلپ ممکن نہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حکومت معیشت پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن اپنی نوعیت میں گزشتہ دس برس کی اہم ترین اور فیصلہ کن کارروائی ہے۔ ماضی میں محدود جغرافیائی اہداف کے خلاف چھ فوجی آپریشن کئے گئے۔ اب ریاست نے اعلان کیا ہے کہ آپریشن عضب کا مقصد دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ریاست آخری دہشت گرد کے خاتمے تک کارروائی جاری رکھے گی۔ وزیراعظم کا عزم قابل تحسین ہے لیکن غور کرنا چاہئے کہ اگر وزیراعظم کو بار بار گردن پھیر کر اپنے عقب میں نظر دوڑانا پڑے کہ ان کی حکومت کو کسی غیر آئینی خطرے کا سامنا تو نہیں تو حکومت کی کارکردگی کا امکان مجروح ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے شعلہ بیاں رہنما نہیں ہیں۔ وہ اپنے لفظوں کو تول کر استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے تاریخی تجربے کی روشنی میں اسے کمزوری نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ایک خوبی ہے۔ ہم بلند آہنگ رہنمائوں کے ہاتھوں ہی موجودہ حال کو پہنچے ہیں۔ جمہوریت معمول کی اجتماعی زندگی کو یقینی بناتی ہے۔ کرشمہ ساز رہنما کے پرچم تلے آسمان کے تارے توڑنے والی سیاست انقلابی اور ہنگامی ہوتی ہے۔ انقلابات کے ضمن میں انسانیت کا تجربہ حالیہ صدیوں میں زیادہ خوشگوار نہیں رہا۔ ایسی صورت میں یہ باور نہیں ہوتا کہ میاں صاحب نے جوش خطابت میں اپنی حکومت کی آئینی میعاد کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہو۔
اس معاملے کو ہمارے سیاسی تناظر میں سمجھنے کے لئے دو اصطلاحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ در اندازی اور مداخلت کاری۔ مداخلت کاری کا معاملہ سیدھا ہے ۔ جب مداخلت کاری ہوتی ہے تو قوم کئی برس کے لئے پیچھے چلی جاتی ہے۔ امجد اسلام امجد کے لفظوں میں ’اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے‘۔ ہمارے ہاں چار بار مداخلت کی گئی ہے۔ مداخلت کاری کے ضمن میں مشکل یہ ہے کہ وقت سے پہلے اس کی نشان دہی قرین مصلحت نہیں ہوتی اور لمحہ مقسوم کے بعد اس کی نشان دہی سے فائدہ نہیں ہوتا۔ دراندازی کا معاملہ البتہ الگ ہے اور جمہوری مکالمے کی حدود میں رہتے ہوئے در اندازوں کی نشان دہی بھی کی جاسکتی ہے اور ان کی مذمت بھی ممکن ہوتی ہے۔ در انداز کون ہے؟ 1953 ء میں ایک درانداز نے اخبار میں اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو تجویز دی گئی کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ اس اداریے کے چند روز بعد گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ اس مداخلت کاری کے نتیجے میں ہماری قوم ایسی لڑکھڑائی کہ آج تک سنبھل نہیں سکی۔ ایک در انداز نے 1977 ء میں خط لکھ کر مداخلت کاری کی دعوت دی۔ کچھ در انداز جہاز کی بزنس کلاس میں دھرنا دے کر مداخلت کی دہائی دیتے ہیں۔ کچھ در انداز ہیں کہ شام ہوتے ہی خضاب آلود بالوں کے ساتھ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر بیٹھ جاتے ہیں اور جمہوریت کی عزاداری کرتے ہیں۔ کچھ در اندازوں نے اخبار کے صفحے پر مداخلت کاری کی تاریخیں دینے میں درک پایا ہے۔ بظاہر در اندازی اور مداخلت کاری میں کوئی تعلق نہیں لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ در اندازی جمہوریت کے آم کو پولا کرنے کا نام ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ آم پولا کرنے والے کو اس خوش ذائقہ پھل کا رس نصیب نہیں ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ در اندازی کی آکاس بیل نسل در نسل چلتی ہے۔ اس کے بیج ہماری سیاسی پسماندگی میں ہیں۔ در اندازی کے عارضے کا مناسب علاج یہ ہے کہ ریاست اور معاشرت میں پیوست در اندازی کی جڑیں اکھاڑی جائیں۔
ہمیں بدعنوانی کی دہائی دینے کا بہت شوق ہے۔ دراندازی بدعنوانی کی بدترین شکل ہے۔ بدعنوانی ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ کسی ادارے یا اجتماعی سرگرمی سے ایسا فائدہ اٹھانا جو قانون اور ضابطے کے مطابق نہ ہو، بدعنوانی ہے۔ در اندازی کی ایک صورت یہ ہے کہ ریاست اپنا اصل فرض ادا کرنے کی بجائے کوئی مفروضہ نصب العین اپنا لے۔ ریاست کا کام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا ہے۔ اگر ریاست یہ کام کرنے کی بجائے شہریوں کو پارسائی سکھانے نکل پڑے تو اجتماعی سطح پر در اندازی پھیل جاتی ہے۔ جمہوریت میں کسی فرد واحد کی نیت پہ انحصار نہیں کیا جا تا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت انسانوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ دراصل جمہوریت میں آئینی اداروں کے درمیان اختیارات اور احتساب کا توازن اسی لئے قائم کیا جاتا ہے کہ کلی اختیار ناگزیر طور پر بدعنوانی اور نااہلی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس توازن سے انحراف کی ہر صورت دراندازی ہے۔ صحافی خبر دینے کی بجائے لفافہ مانگنے لگے تو یہ در اندازی ہے۔ سیاست اجتماعی بندوبست میں شرکت کا حق بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ ذاتی مفادات کی فصل کاٹنے کا نام سیاست نہیں۔ گلو بٹ سیاست میں در اندازی کا استعارہ ہے۔ دراندازی وہ پھسپھسا شعر ہے جو بظاہر حسن نیت کے قافیے پر ختم ہوتا ہے لیکن اس کی ردیف آمریت ہے ۔ دراندازی کی مذمت اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی موجودگی میں جمہوری اختلاف رائے کی روایت نامیاتی ارتقا سے محروم ہو جاتی ہے۔ شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھیں اور جہاں خامی دیکھیں اس کی نشان دہی کریں لیکن دراندازی کی ثقافت موجود ہو تو جمہوری تنقید بھی مداخلت کاری کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔
1990ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دو مرتبہ حکومت قائم کی۔ ان چاروں ادوار حکومت میں کچھ خوبیاں تھیں اور کچھ خامیاں۔ مشکل یہ تھی کہ در اندازی مسلسل موجود تھی اور بالآخر مداخلت کاری پر منتج ہوئی۔ یہ تمام عرصہ اسی لئے جمہوریت کا عشرۂ زیاں ٹھہرا کہ حکومت پر حقیقی تنقید کی صورت ہی نہیں نکل سکی۔ حسن عسکری مرحوم ساقی میں جھلکیاں لکھتے تھے۔ ترقی پسند تحریک پر فحاشی کا الزام لگا تو حسن عسکری نے لکھا کہ ’’آزادی ملے تو فحاشی میں بھی کچھ مزا آئے۔ غلاموں کی تو فحاشی بھی پھسپھسی ہوتی ہے‘‘۔ صاحب در اندازی کی موجودگی میں جمہوری تنقید پھسپھسی ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کے امکان کو پوری طرح بروئے کار لانا ہے تو در انداز ی کی بیخ کنی کرنا ہو گی۔ در اندازی ختم ہو گی تو مداخلت کاری کا اندیشہ بھی جاتا رہے گا۔
تازہ ترین