• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ’’مذاق رات ‘‘ سے وابستہ توقعات اوج ثریا تک پہنچائی جا رہی تھیں ان حالات میں ہم نے یہ لکھا کہ’’ ہمیں تو سوائے خزاں یا خشک سا لی کے کچھ سجھا ئی نہیں دیتا ،افسوس خون خرابہ ہماری تقدیر میں لکھا جا چکا ہے اور ہو نی کو کوئی ٹال نہیں سکے گا‘‘۔ انسانی ہلاکتوں پر ہما را دل دکھی ہو جا تا ہے چاہے اس کا کوئی بھی کا رن ہو، چاہے مر نے والے ’’مجرمان‘‘ ہی کیوں نہ ہو ں ۔ہما را دھیان فو ری طور پر ان شدت پسندوں کی طر ف چلا جا تا ہے جو سیدھے سادے انسانوں کو مجر مان بناتے ہیں کا ش کو ئی ایسا سچا اور کھرا انسان آئے جو ان پردہ نشین ’’مقدسات‘‘ کی اصلیت بھی قوم پر واضح کر نے کا یا را رکھتا ہو۔قدرت کے بھرے خزانوں میں کو ئی کمی نہیں آ جا ئے گی اگر وہ ہماری قومی و عسکری قیا دت ،سیا ست ،صحافت اور دانش کو بصا رت و بصیرت کی خصوصیات سے نو از دے کتنی بڑی با ت ہو گی اگر وہ بدی کی قوتوں کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ ان کے اصل سر چشموںsources)) تک بھی رسائی حاصل کر لیں۔آخر وہ کون تھے جنہوں نے با نیٔ پا کستان کے قومی عہد نامے کو بے دردی سے مستر کر تے ہو ئے وطن عزیز پر تھیوکریسی کا ایسا غلاف چڑھا دیا جس کے اندر صرف انتہا پسندی کی نر سری ہی پھل پھول سکتی تھی جو آگے بڑھ کر دہشت گردی کی صورت پروان چڑھی۔
جبر کی اس بلا نے عسکر یت کے ساتھ مل کر حر یت فکر جیسی یو نیور سل قدر کا وطن عزیز میں گھلا گھو نٹ دیا ۔بقول اقبال’’گلا گھو نٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا ‘‘ایسے میں آزادی اظہار کی صدا آخر کہاں سے اور کیسے بلند ہوتی؟ ریاست تو اپنے تمام با شندگان یا citizen کے لئے ماں باپ کی حیثیت رکھتی ہے اپنے تمام بچوں کو ایک نظر سے دیکھتی ہے لیکن برا ہو تھیو کر یسی کا جس نے نہ صرف یہ کہ ریا ست کی غیر جا نبداری کو مجروح کر دیا بلکہ اس ماں کی آنکھیں ہی اپنے بچوں کے لیے ٹیٹرھی کر دیں ۔وہ اپنے کچھ بچوں کے لیے سوتیلی ماں کا رول ادا کر نے پر مجبو ر کر دی گئی ۔نتیجتاً بچوں میں وہ خلفشار و انتشار بڑ ھا کہ جس کا نظا رہ آج ہم شمالی وزیر ستان کے آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ میں کر نے پر مجبو ر ہیں۔ہمیں خو شی ہے کہ آج سبز ہلا لی نہ سہی خاکی پر چم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ۔بلا ول بھٹو ہوں یا الطا ف حسین، اسفند یا ر ہو ںیا میاں نو از شر یف ،’’شریف ‘‘ کے ساتھ سب ایک ہیں، آج مفتی صا حب کے صاحبزادے سجدہ شکر بجا لا ئیں تو اکو ڑہ والے سجد ہ سہو ،لیکن آخر الذکر کے لئے مشکل ہے بہت مشکل جہا دی چاہت کا بھلا دینا، ان سے بھی زیا دہ مشکل اُ ن کے لئے ہے جو تھیوکر یسی کے غلاف سلوا سلواکہ تھک چکے ہیں جو ہر خودکش حملے پر نظر یاتی غلا ف چڑھانے کا اپنا ملی فر یضہ نبھاتے چلے آرہے ہیں وہ آج سخت مشکل میں ہیں ۔
بڑی زیادتی اور بے ذوقی کی با ت ہو گی اگر آج ہم یہاں اپنے ’’تیس مار خاں‘‘ کی مشکلات کا تذکر ہ نہ کریں۔ دھاندلی کے نعروں میں کتنے بھرپور جلسے ہو رہے تھے اپنی آنکھوں میں کیسے کیسے سپنوں کے محل سجا ئے جا رہے تھے لیکن اچا نک یہ کیسی تبد یلی آئی ہے جس میں تصورات کے گھر وند ے بکھرتے جا رہے ہیں ۔کتنی بڑی نا انصافی ہے انہوں نے کتنی مضبو ط اور شا ندار کشتیوں میں دو نوں پا ئوں رکھے ہو ئے تھے مذاکراتی عمل سے وہ دو نوں کشتیوں کو متو ازی چلا تے چلے جا نے کے آرزومند تھے لیکن یہ کیاتر قی معکوس ہے کہ اب یہ دو نوں باہم بالمقابل چل پڑی ہیں خیر وہ تو اس کے سا تھ ہیں جو انہیں ساحل اقتدار سے ہمکنار کر دے سو جتنی بڑی مشکلات بھی آئیں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو نے کے لئے ان کی کمٹ منٹ نہیں ٹو ٹے گی۔با قی اندر کا جو دکھ ہے اُسے بیان کر نے کے لئے کسی نو حہ گر کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تھے وہ حالا ت ہیں جو وقت اور قدرت نے جمہوری حکومت کی حما یت میں اپنے آپ پیدا کر دیئے تھے ۔فو ج اور حکو مت کے ایک پیچ پر نہ ہو نے سے جس ٹا ئم بم کا خو ف تھا وہ بھی آپ سے آپ فیو ز ہو نے جا رہا تھا ۔حکو مت کو ہی نہیں خود فوج کو بھی اس آپر یشن کے ثمرات سمیٹنے کے و سیع تر مو اقع میسر آرہے تھے ان ثمر ات کو تو خیر اب بھی کو ئی گزند نہیں پہنچے گی کیو نکہ بین الاقوامی سطح پر ٹیررازم کو پر وموٹ کرنے کے حو الے سے جتنی بھی شکایا ت امنڈ امنڈ کر سامنے آرہی تھیں اُن کی ایک محدود حدتک دھلا ئی ہو نے جارہی ہے بشر طیکہ یہ آپر یشن لو لا لنگڑا نہ ہوا۔ ملکی و قومی سطح پر بھی ہمارے طا قتور ادارے پر انگلیاں اٹھتی چلی آرہی ہیں اُن میں بھی کسی حد تک کفارے کا سا مان بن رہا ہے با لخصوص ایک میڈ یا گروپ کے ساتھ جس نو ع کا ظلم روا رکھا گیا ہے اس کی سیا ہی دھو نے اور اس سے معاملات خوشگوار بنا نے کی بھی گنجا ئش نکا لی جا سکتی ہے ،ان سب سے بڑھ کر ریاست پا کستان کے و قار اور sovereigntyکو بحال کر نے کی امید بند ہی ہے جس کی بر کت سے اٹھا رہ کر وڑ عوام حا لت خو ف سے نکل کر اپنے سینے میں امن سلامتی، ترقی اور خو شحا لی کی فضا میں سا نس لینے کی آرزو پا ل سکتے ہیں۔
اس مثبت ماحول میں 17جون کو علامہ طا ہر القا دری کے ادارے میں جو افسوسناک سا نحہ ہو ا ہے وہ انتہا ئی در د ناک ہے کا ش یہ سب نہ ہو تا اس خو ن خرا بے نے خدا خدا کر کے پیدا ہوتے قومی اتفاق ر ائے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔چیف منسٹر کا رو یہ تو پھر بھی دردمندی والا تھا لیکن اُ ن کی نا ک کے نیچے جس نوع کا طرز عمل روا رکھا اور جس نو ع کی زبا ن استعمال کی اُسے کسی طر ح بھی سیاسی یا پا رلیمانی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔علامہ صاحب کو بھی چاہئے کہ وہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں اس عمر میں ان کو رونق میلہ زیب نہیں دیتا اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے پاس اور بہت سے مجرب نسخے ہیں۔ عصر حاضر کے شعوری ارتقاء کی معنویت کو سمجھا جائے اور لوگوں کے دلوں کو خدمت سے جیتا جائے۔ 17جون کو اگر حکومت کٹہرے میں کھڑی تھی تو 23جون کو آپ کے کارکنان نے سرکاری اہلکاروں پر تشدد کرکے حکومت کو بڑی حد تک بیل آؤٹ کر دیا ہے ۔قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہونا چاہئے ۔دہشت گر دوں سے ہمار ی ناراضی محض جبر اور تشدد کی وجہ سے ہے ورنہ وہ ہم سے کہیں زیادہ راسخ العقیدہ پکے سچے مسلمان ہیں۔ اب اگر ہمار ے منتخب جمہوری لو گوں نے یا صوفی ازم پر یقین رکھنے والوں نے بھی جبر و تشدد کو ہی روا رکھنا ہے تو پھرنہ صرف یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف آپر یشن ضر ب عضب اپنی افا دیت کھو بیٹھے گابلکہ لوگ دیر و حرم سے بھی بد گمان ہو جائیں گے۔
تازہ ترین