• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے باعث ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ انہیں انٹرنلی ڈس پلیسڈ پیپلز (آئی ڈی پیز ) کا نام دیا جاتا ہے یعنی یہ وہ مہاجرین ہیں جو اپنے ہی ملک میں کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔ کوئی بھی شخص خوشی سے اپنا گھر یا علاقہ نہیں چھوڑتا ہے اور جو ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ انتہائی قابل رحم اور مظلوم لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی نقل مکانی کے دو بنیادی اسباب ہیں پہلا سبب یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں یہ خطرات ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ کہیں بے گناہ لوگ زد میں نہ آجائیں ۔ شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقوں سے ہمیشہ ایسی نقل مکانی ہوتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ دہشت گرد اپنے خلاف ہونے والے آپریشن سے بچنے کے لئے آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اگر وہاں آبادی نہیں ہو گی تو دہشت گردوں کو ڈھال میسر نہیں آئے گی اور وہ کمزور ہو جائیں گے ۔ مذکورہ بالا دونوں اسباب اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یہ قربانی دی ہے اور مصائب و مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں وہ نہ صرف مظلوم ہیں بلکہ پاکستانی قوم کے ہیروز بھی ہیں لیکن یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ بعض حلقے آئی ڈی پیز اور دہشت گردوں کو ایک ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم متحد ہے لیکن لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے قومی سانحہ پر بھی انسانی ہمدردی کے حوالے سے بھی ضرور سوچنا چاہئے۔ کچھ لوگوں کا سوچنے کا انداز ایسا ہے جس پر تبصرہ تو نہیں بلکہ افسوس کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی ڈی پیز کے بارے میں اپنی حکومت کے مؤقف کو واضح کردیا اور بعض غلط فہمیاں دور ہو گئیں ۔ اگلے روز انہوں نے سندھ اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ آئی ڈی پیز کے سندھ میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ وہ شناختی کارڈ دکھا کر سندھ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو صرف یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سندھ میں غیر قانونی اسلحہ اور دہشت گردوں کے داخلے کو روکیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2009ء کے آپریشن ’’راہ راست‘‘ میں بہت بڑی تعداد میں آئی ڈی پیز سوات سے ہجرت کر کے کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں آباد ہو گئے تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگ آپریشن کے بعد واپس چلے گئے تھے اور کچھ لوگ یہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے۔ کراچی میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر وارداتوں میں سوات سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث ہیں اس لئے سندھ کے لوگوں کو خدشات ہیں کہ اگر مزید آئی ڈی پیز آئے تو کراچی سمیت سندھ میں امن وامان کی صورت حال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ کے بعض قوم پرست حلقوں کی یہ تشویش حق بجانب ہے کہ سندھ مزید بدامنی کا شکار ہو جائے گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سندھ میں بدامنی کے ذمہ دار صرف اور صرف آئی ڈی پیز نہیں ہیں۔ حکومت سندھ خود یہ بات کہتی ہے کہ صوبے میں گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔ حکومت سندھ کو بھی یہ پتہ ہے کہ یہ دہشت گردی کون کر رہا ہے اور کون سی ملکی اور بین الاقوامی طاقتیں ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں ۔ تین عشروں سے جاری اس دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری سوات کے آئی ڈی پیز پر بھی نہیں ڈالی جا سکتی۔ حکومت سندھ کو یہ بھی پتہ ہے کہ دہشت گردی میں اگر کوئی شمالی علاقہ جات کے لوگ ملوث ہیں تو ان کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے اور کئی کارروائیاں ہو بھی چکی ہیں۔ دہشت گردی کے اصل اسباب کو حکومت سندھ بھی ختم نہیں کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی بھی رہنما صوبائی وزیر داخلہ بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کو صرف آئی ڈی پیز سے جوڑنے کا مطلب دہشت گردی کے حقیقی ذمہ داروں اور محرکات پر پردہ ڈالنا ہے۔ کوئی بھی اس بات کی حمایت نہیں کرے گا کہ مظلوم آئی ڈی پیز کی آڑ میں دہشت گردوں کو آنے دیا جائے لیکن یہ بات بھی مناسب نہیں ہے کہ مصیبت اور دکھ کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جائے ۔ قوم پرستی کا حقیقی ترقی پسندانہ اور مارکسی فلسفہ دراصل بین الاقوامیت کا فلسفہ ہے اور یہ کسی بھی طرح دوسری نسل یا قوم کے لوگوں کی تکالیف سے لاتعلق ہونے کا درس نہیں دیتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ایک وفاق پرست جماعت ہے۔ اس کے بارے میں کچھ حلقے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جماعت صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ یہ تاثر غلط ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی ڈی پیز کی امداد کے لئے پانچ کروڑ روپے کی فوری امداد کا اعلان کرکے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی آئی ڈی پیز کی امداد کے لئے اپنی پارٹی کے لوگوں کو امدادی کیمپ لگانے اور فوری طور پر امدادی سامان پہنچانے کی بھی ہدایت کی ہے ۔ اس سے دکھی لوگوں کو ایک اچھا پیغام ملے گا۔ دوسری طرف بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کا یہ اعلان بھی خوش آئند ہے کہ آئی ڈی پیز بلوچستان بھی آ سکتے ہیں ۔ طویل غیر جمہوری حکومتوں کے باعث ہمارے درمیان جو فاصلے پیدا کئے گئے تھے ، امید ہے کہ وہ فاصلے سیاسی اور جمہوری قیادت اپنے تدبر سے ختم کرے گی۔ ہمیں تقسیم کرکے غیر جمہوری قوتوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کی ہے ۔ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے حقوق اور مظلوم قومیتوں کے مقدمے کی ہر کوئی حمایت کرتا ہے لیکن ان مظلوم قومیتوں کو اپنے دوستوں سے الگ کرنے کی سازشوں کو بھی سمجھنا چاہئے۔ آئی ڈی پیز اس وقت بہت مشکل اور آزمائش میں ہیں۔ وہ ہمارے بھائی ہیں انہیں ہماری ضرورت ہے،ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔
تازہ ترین