• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رب ذوالجلال کی عظمت کے صدقے اسلامیانِ ہند کو پاکستان جیسا خوبصورت ملک عطا ہوا۔ایک ایسا ملک جس نے اس ملک کے باسیوں کو ایک شناخت بخشی۔فرقہ وارانہ سوچ اپنی جگہ کہ موہن داس کرم چند گاندھی نے بھی اعتراض داغ دیا کہ اپنا مذہب بدلنے والے کیسے ایک نئے ملک کا تقاضا کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لئے سوامی شردانند نے تو شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں شروع کیں۔ سد شکر پاکستان ایک حقیقت ناقابل تردید ہے۔ اگرچہ گزشتہ سڑسٹھ سال میں اس خطے نے جنگ کی غارت گری ،دہشت گردی اور بداعتمادی سبھی کچھ دیکھا۔ بحرانوں کا سامنا کیا،چار فوجی آمروں کے سامنے ڈٹا رہا،مگر اپنے وجود پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔آج بھی وطن عزیز میں حالات کچھ مختلف نہیں ہیں۔ اقتدار کے منصب پر براجمان حکمران جان بوجھ کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔حکمران پتہ نہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کی عظمت سے احتساب کی ہیبت جڑی ہوتی ہے۔اگر تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک خود سر فرعون نے خدا بننے کی ٹھانی اور بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کے قتل عام کا حکم صادر کر دیا پھر اسی فرعون کے گھر خدا کی قدرت سیدنا موسیٰ ؑپل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں جنہیں رب ذوالجلال حکم دیتے ہیں کہ جاؤ فرعون خود سر ہوگیا ہے اسے ظلم و تعدیٰ سے روکو۔نمرود کے سر میں خود سری سمائی تو ایک حقیر مچھر نے اس کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔ کیا کیجئے شکوہ اور حکمرانوں کی تعریف و طرح داری اس عاجز کو پسند نہیں لیکن آج اگر حکمراں جماعت بحران در بحران میں ڈوبی جارہی ہے تو اس کی وجہ بھی کچھ فرعون کے دور اقتدار سے مختلف نہیں ہے۔ جمہوری اور فوجی آمر کے دور اقتدار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور جب سیاسی حکومت عوامی حمایت ہی کھودے یا اپنے چال چلن کی بنیاد پر عام آدمی کا اعتماد گنوا دے تو نظام کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے، آج صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ میاں نوازشریف عوامی نمائندوں کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچے ہیں لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی لیگی ایم پی اے یا ایم این اے اپنے قائد سے ملاقات کا وقت نہیں لے پاتا اور جو جرأت کرتا ہے تو اسے 15ویں کامن کے بابو ملاقات کا وقت ہی نہیں لینے دیتے۔جب اپنے ہی ارکان اسمبلی سے یہ سلوک ہوگا تو عوامی حمایت کا اندازہ قارئین خود ہی بہتر لگا سکتے ہیں۔سیاسی حکومتوں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا کہ ممبر اسمبلی کو کونے کھدروں میں دھکیل کر منصب اقتدار کی رعنائیوں میں ڈوب جائیں۔
سانحہ لاہور کی ہی مثال لے لیں۔اس واقعے کو عوامی حمایت سے بھی روکا جاسکتا تھا مگر شاید ماڈل ٹاؤن کے منتخب ارکان اسمبلی ہی اپنی قیادت سے نالاں تھے اگر ہم کچھ دیر کے لئے اس واقعے سے ہٹ کر تاریخ کے اوراق گردانیں تو پتہ چلتا ہے کہ قومیں اور تہذیبیں بالکل انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ابن خلدون اور سپنگلر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں، یہ جنم لیتی ہیں، پروان چڑھ کر جوان ہوتی ہیں پھر زوال کا شکار ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ رومن ،یونانی اور مصر کی تہذیبوں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد ہمیشہ چند اصولوں، ضابطوں اور اخلاقی قدروں پر ہوتی ہے۔ ان کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب یہ اخلاقی قدریں کمزور پڑ جاتی ہیں اور سوسائٹی میں تضادات نمودار ہو جاتے ہیں اور یہی اس کے نیست و نابود ہونے کا سبب بنتے ہیں۔سانحہ لاہور کی ذمہ داری جس خوبصورتی سے سول افسران کو تفویض کی گئی اس کی بھی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے پنجاب کی پولیس پر ملبہ ڈال دیا گیا اور اب اطلاعات ہیں کہ ڈی ایم جی کے ایک افسر کو تمام واقعے کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک ڈی ایم جی کے گریڈ 20کے بابو کی کیا مجال کہ وہ اتنا بڑا حکم تن تنہا صادر کرادے تو کوئی اسے روکنے والا بھی نہ ہو۔مگر چونکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے دور اقتدار میں محترمہ نرگس سیٹھی صاحبہ نے ایسی مثالیں قائم کی ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں۔
سرکاری افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین و قانون کے تحت کام کریں۔ سرکاری افسروں کو غیر قانونی کام میں سیاسی آقاؤں کو نہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ خدارا سرکاری ملازموں کو میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر فرائض تفویض کریں اور ان کے روزمرہ معمولات انہی پر چھوڑ دیں۔ حکومت اپنے اہداف کا تعین کرے اور پالیسیوں پر عملدرآمد سرکاری افسروں پر چھوڑ دے،آپ نتائج پر توجہ مرکوز کردیں،یہی افسر بہترین نتائج دیں گے۔ وہ تمام افسران جو اپنے کیرئیر کے اختتام پر متعلقہ تجربہ اور محکمانہ طور پر نیپا ،SMC اور NMC سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں،ان پر قوم کی ایک بڑی انویسٹمنٹ ہوتی ہے۔یہ افسران بجا طور پر قوم اور ملک کا سرمایہ ہیں۔ وطن کی آغوش میں پلنے والے،اس مٹی سے جنم لینے والے کیا پاکستان سے مخلص نہ ہوں گے؟ اگر اداروں کی بالادستی کی بات بطور رسم و فیشن نہیں کی جاتی تو کیا کبھی سول سوسائٹی ،صاحب فکر اور دیگر ارباب اختیار جو فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتے ہیں، کیا اپنے آپ کو قصوروار نہیں ٹھہرائیں گے۔اگر ارباب حکومت ناراض ہو جائیں تو صوبہ بدری چھوٹی سزا ہے۔ بقیہ ملازمت شاید ڈھنگ کی جگہ تعیناتی بھی نہ ہو۔ جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت انڈین سول سروس(ICS)کے 770افسران میں سے 73مسلمان تھے۔ ماسوائے تین کے تمام سول افسران نے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے سرکاری افسران تھے۔ جنہوں نے بقول قدرت اللہ شہاب کانٹوں سے کاغذوں کو نتھی کرنے کا کام لیا۔ خیموں میں دفتر سجالئے، تھر کے صحراؤں کو برگ و بار بنانے والا۔سمن آباد کی بستی کو سجانے والا،لاہور کے گلبرگ کاخالق ،پی آئی اے کا محسن ظفر الحسن گمنامی کی دبی اس تہہ میں چھپ گیا ہے۔واہ رے میرے Unsung Hero۔ ایوب خان کے جی میں آیا سیکڑوں افسر فارغ کردیئے۔ یحییٰ خان کو اپنی خامی تو نظر نہیں آئی مگر تین سو افسر گھر بھیج دئیے اور جناب بھٹو صاحب نے تو کمال کرتے ہوئے 1200 سرکاری ملازموں کو اٹھا کر ملازمت سے فارغ کیا۔اس لئے سانحہ لاہور کی ذمہ داری بھی صرف ڈاکٹر توقیر شاہ پر ڈالنا زیادتی ہے، خدار حکمراں دوبارہ تاریخ کو مت دہرائیں۔
سول افسران کو بھی اپنے آپ سے مخلص ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ خود بھی میرٹ کو اپنا شعار بنائیں۔ جب آپ خود ہی میرٹ سے ہٹ کر پوسٹنگ لینے سے انکار کریں گے تو نظام میں خود بخود بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔ حالیہ مثال ہی لے لیں ایک وقت تھا جب 1964ء کے CSPخوش نصیب تصور ہوتے تھے۔ اب یہی ورثہ 15ویں کامن کے حصے میں آیا ہے۔
مملکت خداداد کے حالیہ وارث ہونے کے ناتے میاں نوازشریف کی بھی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ گزشتہ ایک سالوں میں ان سے یا ان کے کسی مشیر سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں ان کا احاطہ کرتے ہوئے آئندہ چارسالوں کی منصوبہ بندی کریں۔روز حشر جب کسی کی مجال نہ ہو گی کہ خداوندکریم کی اجازت کے بغیر لب کشائی کر سکے۔ عادل حاکم کو رب ذوالجلال کے سائے میں پناہ ملے گی۔میاں صاحب بھی عدل و انصاف کی ایسی مثال قائم کریں کہ لوگ شیرشاہ سوری کے دور اقتدار کو بھول جائیں۔
تازہ ترین