• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دندان شکنی سے حریف کو مات کرنے میں ہمیں ملکہ حاصل ہے، مگر بڑھکوں سے اگر قومی حمیت بڑھنی ہوتی، تو اِس فن میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کاش! ایسا ہوتا تو ہم کب کے سارے جہاں کو آگے لگا چکے ہوتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ساری دُنیا اُلٹا ہمارے پیچھے لٹھ اُٹھائے ہے۔ ابھی کل ہی امریکی محکمہ دفاع نے ہماری 30ارب روپے کی فوجی امداد روک لی ہے کہ اُس کے مطابق ہمارا ابھی بھی حقانی گروپ سے ناطہ نہیں ٹوٹا۔ اور اب امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے اُن دہشت گردوں کے خلاف تو کارروائی کی ہے جو اس کی سلامتی کے لئے خطرہ تھے، مگر اسے اب ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو ہمسایوں (افغانستان اور بھارت) کے خلاف دہشت گردی میں مصروف ہیں اور جس سے ابھی تک اجتناب کیا گیا ہے۔ ایسے میں ہمارے دندان شکن وزیرِ داخلہ نے سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس سے ایسا خطاب کیا کہ بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ کے چھکے چھوٹ گئے۔ یہ بھلا بھارتی گجرات تھوڑا تھا کہ کشمیر کے ناطے بھاجپا کے رہنما انگشت زنی کریں اور ہمارے پوٹھوہار کے راٹھ کے غضب سے بچ نکل پائیں۔ وزیرِ داخلہ نے کشمیر کی جنگ آزادی کے دفاع میں ایسی کھری کھری سنائیں کہ راج ناتھ کا دہشت گردی کے خلاف بھاشن بھک سے اُڑ گیا اور ملک کے طول و عرض میں اُن کے لئے تعریف کے ایسے ڈونگرے برسے کہ تاریخ نے ایسا نظارہ کبھی کبھار ہی دیکھا ہوگا۔ ہمارے جری چوہدری نے راج ناتھ کے خونیں ہاتھوں کو مصافحے کا شرف بخشا، نہ اُس کے ساتھ کھانا تناول کرنا پسند کیا۔ ابھی تو وزیرِ داخلہ کو اپنے وزیراعظم کی معتدل پالیسی اور نرم مزاجی کا پاس تھا، وگرنہ جانے کیا رن پڑتا۔ ہمارے ایک اور اصولی موقف کا اثر یہ ہوا کہ بنگلہ دیش کے وزیرِ داخلہ پہلے ہی ڈر کے مارے نہ آئے کہ کہیں پاکستان کے وفاداروں کی پھانسیوں پہ جواب دہ نہ ہونا پڑ جائے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ ہمارے چوہدری صاحب اس ناانصافی پہ کتنے سیخ پا ہیں۔ پاک بھارت ہاتھیوں کے یدھ میں افغان وزیرِ خارجہ جانے کہاں جائے پناہ ڈھونڈتے کانفرنس سے ہی غائب ہو گئے۔ باقی بچے بھوٹانی، نیپالی اور مالدیپ والے اُن کو دامن بچانے میں ہی عافیت نظر آئی۔ بس میدان خالی تھا اور چوہدری صاحب نے مردِ حریت محترم حافظ سعید صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ہمارے چوہدری صاحب کبھی بھی کسی سفارتی موقع پرستی کے قائل نہیں رہے اور ہمیشہ ببانگِ دُہل اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے رہے ہیں۔ جب حکیم اللہ محسود کو امریکی ڈرون سے شہید کیا گیا تھا تو ہمیں وہ کربناک لمحہ یاد ہے جب چوہدری صاحب نے امریکیوں کی خوب خبر لی تھی۔ اور حال ہی میں جب افغان طالبان کے امیر ملا منصور کو نشانہ بنایا گیا تو یہ خبر چوہدری صاحب پر بجلی بن کر گری تھی۔ ہمارے اسلام پسند اور جہادی حلقے چوہدری صاحب کی اس شانِ حق گوئی پہ اتنا خوش ہیں کہ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کیوں نہ وزارتِ خارجہ کی خالی وزارت چوہدری صاحب کو سونپ دی جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر دیکھئے چاردانگ کس طرح پاکستان کا اُصولی موقف گونجتا ہے۔
داخلی سیاسی محاذ پر تو ہم نے چوہدری صاحب کی حق گوئی پر اُن کے مخالفین کو تلملاتے بہت دیکھا ہے مگر علاقائی سفارتی محاذ اور خاص طور پر بھارت کے ساتھ پُرانے اُدھار چکاتے ہم نے اُنہیں ان گناہ گار آنکھوں سے پہلی بار دیکھا۔ جہنم میں جائے سارک اور بھاڑ میں جائے نومبر میں ہونے والا سارک سمٹ (SAARC Summit)۔ کشمیر کی جنت بے نظیر نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔ آخر سارک کی علاقائی تجارت اور باہم تعاون سے ہمیں کیا لینا دینا۔ پر جائیں تو جائیں کہاں؟ جماعتِ اسلامی کے امیر محترم سراج الحق کا اصرار ہے کہ اقوامِ متحدہ (UNO) تو امریکہ کی لونڈی ہے، اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (OIC) میں کوئی دم خم نہیں۔ ہمارے مجاہدین صبح شام دُہائی دیتے ہیں کہ بات چیت سے کبھی نتیجہ نکلنے والا نہیں اور ہندو راشٹرا والے جوتوں بنا کچھ ماننے والے نہیں۔ اُن کے مطابق جموں و کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور نوآبادیاتی غلبے کے شکار لوگوں کو جنگِ آزادی کا حق ہے اور جیسے چوہدری صاحب نے کہا ہے کہ آزادی کے متوالوں اور غازیوں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پورے ملک میں برہان وانی شہید کے پوسٹرز نوجوانوں کو دعوتِ جہاد دے رہے ہیں۔ اُن کے تئیں اسی طرح برصغیر کی تقسیم کا غیرمکمل ایجنڈا تکمیل پا سکتا ہے۔ ہمارے سفرأ کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے کشمیر کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف قرار دیا ہے۔ جبکہ چوہدری نثار صاحب نے دہشت گردی اور دہشت گرد اور آزادی کے لئے جدوجہد اور اُس کے مجاہدین میں فرق واضح کر کے بھارتی کنفیوژن کی دھول کو صاف کر دیا ہے۔ ضربِ عضب کے بعد سے ہمارے سپہ سالار جناب جنرل راحیل شریف ہر طرح کے دہشت گرد اور آخری دہشت گرد کے خاتمے کے جس مسلسل عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں اور ہماری عسکری و فوجی قیادت پاکستان کی سرزمین کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کے لئے استعمال کی روک تھام کا جو اعلان کرتی رہی ہے۔ چوہدری صاحب کی تشریح کی روشنی میں اُس پر پھر سے نظرِثانی کی شاید ضرورت پڑے۔ کیا یہ قومی غیرت کا تقاضا نہیں؟
دوسری طرف بھارت میں راج ناتھ کی تقریر کے نشر نہ کیے جانے پر اُودھم مچا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ بھارتی وزیرِ داخلہ کے بیباک خطاب پہ ویسے ہی بغلیں بجا رہا ہے جو ہم نے یہاں دیکھیں سنیں۔ لیکن بھارتی میڈیا کا ایک موثر حصہ مودی حکومت کی پاکستان پالیسی پر بھی خوب نشتر برسا رہا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی وزیرِ موصوف نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا کہ ’’کیسا ہمسایہ ہے کہ مانتا ہی نہیں۔‘‘ اور یہ بھولتے ہوئے کہ آپ کونسا ماننے والے ہیں۔ جب راج ناتھ جی اسلام آباد روانہ ہوئے تو اُس وقت شیوسینا والے اُن کے پتلے جلا رہے تھے اور اُن کی پاکستان یاترا کی نندا کر رہے تھے۔ اِدھر ہمارے سماجی خدمتگار دعوۃ والارشاد، متحدہ جہاد کونسل اور جماعتِ اسلامی کے زعما اور ہزاروں آزادی کے پروانے لاہور سے اسلام آباد تک بھارتی وزیرِ داخلہ کی آمد پر احتجاج کر رہے تھے۔ راج ناتھ کو داد دینی چاہئے کہ اُنھوں نے وشوا ہندو پریشد کی آہ و بکا نہ سنی، لیکن آنے سے پہلے اسلام آباد میں کسی دو طرفہ ملاقات کو سرے سے رد کر دیا اور ایک اشتعال انگیز تقریر کر کے واپسی پر خود کو شدت پسندوں کی داد کا حقدار ثابت کر دیا۔ لیکن اس حوالے سے ہمارے چوہدری صاحب نے جیسے کو تیسا کر کے رکھ دیا اور سفارتی باکسنگ میں یکتا نام پیدا کر لیا۔
دیکھتے ہیں کہ اس سفارتی دھینگامشتی سے کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور خود پاکستان کو اپنی موجودہ علاقائی و عالمی تنہائی سے کیسے خلاصی ملتی ہے۔ مودی حکومت بھی عجب مخمصے میں ہے۔ اپنے کمیونل حلقۂ انتخاب کو خوش رکھنے کے لئے آتش بیانی کرتے ہوئے، کشمیر کے مسئلے سے ہی انکاری ہو جاتی ہے۔ اور علاقائی مفادات کی خاطر مودی بن بلائے لاہور چلے آتے ہیں اور دوسری جانب پراکسی جنگ کے ہمہ طرفہ محاذ کھڑے کر دیتے ہیں۔ اب زور اس پر ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو بھارتی حکومت گزشتہ ایک ماہ سے کشمیر میں جو ظلم و بربریت کر رہی ہے تو اس کا کیا جواز ہے اور لوگ ہیں کہ آزادی آزادی کے نعرے لگاتے گولیاں کھا رہے ہیں۔ انسانوں پر ظلم و استبداد کی خود بھارتی آئین اور عالمی قوانین میں کیا گنجائش ہے؟ کوئی بھارتی دوست ہمیں بتلائے تو؟
بنیادی انسانی حقوق کو مسلا اور کچلا جائے گا، خواہ وہ سرحد کے اِس طرف ہو یا اُس طرف، وہ قابلِ مذمت ہے۔ بھارت کو اگر بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالی پر تشویش ہے اور وہاں اُس کی مداخلت بھی جائز ہے تو پھر پاکستان کی کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت اور جدوجہدِ آزادی کی حمایت پر بھارت کیسے معترض ہو سکتا ہے؟ دراصل دونوں حکومتیں اپنے اپنے ملکوں کے انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں اور کشمیر اور بیچارے کشمیری دو ملکوں کی جنگ بازی اور محاذ آرائی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ نتیجتاً، دونوں ملکوں کے غریب عوام مفلسی و ناداری کی خوفناک دلدل میں پھنسے ہیں۔ جموں و کشمیر کے حالیہ جمہوری اُبھار کے بارے میں بھارت میں یہ اعتراف عام ہے کہ یہ ایک مقامی لہر ہے اور بیرونی ہاتھ ماند پڑ گیا ہے۔ کشمیریوں کی جمہوری آرزوؤں پر خونیں کاروبار کرنے والے حضرات مہربانی کریں اور اسے اپنی شفقت سے محروم کر کے اُس کی پارسائی پر حرف نہ آنے دیں۔ راقم کو کشمیر سے ایسی ہی استدعائیں وصول ہو رہی ہیں۔ اُنہیں کسی محمد بن قاسم کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے غیرمشروط حقِ خود ارادیت پر ڈٹے ہوئے ہیں، بھلے بھارت یا پاکستان اُسے تسلیم کریں یا نہ کریں۔
تازہ ترین