• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے افسوس ہے دن رات گلو بٹ کے گیت گانے والے میڈیا نے پلٹ کر خبر ہی نہیں لی کہ ’’گلو میں رنگ بھرنے‘‘ والے گُلو کے ساتھ کیا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن گُلو بٹ باعزت بری ہو گا اور اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے پھر سے گاڑیوں کی ونڈ اسکرینیں توڑے گا۔ یہ بیچارہ تو چھوٹا سا ساشے سائز ’’گُلو بٹ‘‘ ہے ہمارے دامن میں تو ایسے ایسے ’’گُلو بٹ ‘‘ ہیں کہ انہوں نے ریاست کی گاڑی مارشل لا کے پہاڑوں سے ٹکرا کر اس کا کچومر نکال دیا ،کچھ ایسے ’’گُلو بٹ‘‘ ہیں کہ انہوں نے اپنے آقائوں کے ایماء پر نفرتوں کے ڈنڈے برسا کر اس گاڑی پر آویزاں قومی وحدت کی ہیڈ لائٹس توڑ دیں ،انہیں کے پروردہ ’’گُلو بٹ‘‘ ہیں جنہوں نے دہشت گردی کی ضربیں لگا کر بونٹ پچکا دیا،بعض ’’گُلو بٹ‘‘ کیبل آپریٹروں کو دھمکا کر اس گاڑی کے بیک ویو مرر توڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی دندناتے پھرتے ہیں۔
چند روز قبل ایک سینئر صحافی جن کے پاس مجھے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا، انہوں نے ماضی کے جھروکوں سے ایک تاریخ ساز مماثلت کی طرف توجہ دلائی کہ جب مرحوم قاضی حسین احمد نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور پہلی بار اسلام آباد میں دھرنا دیا جس میں 8کارکن مارے گئے،وہ بھی جون کا مہینہ تھا اور 24تاریخ تھی۔جماعت اسلامی نے تو ارتقائی عمل کے نتیجے میں اپنی اصلاح کر لی اور آج کسی ’’انقلاب‘‘ کا حصہ بننے کو تیار نہیں مگر یہ موجودہ دور کے ’’گُلو بٹ‘‘ کب سمجھیں گے؟ ایک وہ بھی گُلو بٹ ہے جسے انعام اور شاباش دینے والوں نے ہی حالات کے جبر کے تحت گرفتار کیا اور جب احاطۂ عدالت میں اسے بدترین تشدد کا سامنا تھا تو کوئی نہ بچا سکا۔ دو ’’گُلو بٹ‘‘ وہ بھی ہیں جنہیں میاں صاحب نے ہر موقع پر اپنے پاس رکھا ،کسی قیمت پر انہیں چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے اور وہ بھی ہر مشکل میں ساتھ دینے والے تھے مگر جب دبائو بڑھا تو حکومت بچانے کیلئے انہوں نے دو ’’گُلو بٹ‘‘ یوں نکال کر پھینک دیئے جیسے دودھ میں سے بال نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ’’گلو بٹ‘‘ تو مونچھوں والا بھی ہے جس کی بڑھکوں سے ایک زمانہ واقف ہے۔ ماڈل ٹائون لاہور کے پرتشدد واقعے کے بعد میڈیا مسلسل گُلو بٹ کو مطعون کئے چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عام افراد بھی اس سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ جس گُلو بٹ سے ہمیں صبح شام سابقہ پڑتا ہے،جس کے بغیر ہمارے ہاں کوئی ادارہ نہیں چل سکتا،ہم اس سے نفرت کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟
اگر آپ کو کبھی تھانے کچہری سے واسطہ پڑا ہے تو کسی نہ کسی مرحلے پر’’ گُلو بٹ‘‘ سے ضرور واسطہ پڑا ہو گاکیونکہ گلوبٹ کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ہمارے سماج کا جیتا جاگتا کردار ہے۔’’گُلوبٹ‘‘ جیسے کل پرزوں کے بہت سے نام ہوتے ہیں ۔کوئی انہیں ٹائوٹ کہتا ہے،کوئی ایجنٹ کے نام سے پہچانتا ہے اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دلال کے نام سے پکارتا ہے۔ہمیں اس کردار سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ ہو لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارا نظام گلو بٹ جیسے کرداروں نے اپنے کندھے پر اُٹھا رکھا ہے۔تھانے میں کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی ہو یا کسی کا نام مقدمے سے خارج کرانا ہو،کسی مخالف کی تھانے میں چھترول کرانی ہو یا حوالات میں بند زیر حراست ملزم کو پروٹوکول دلوانا ہو ،ہم سب ان کاموں کے لئے کسی نہ کسی ’’گُلو بٹ‘‘ کے محتاج ہیں۔ان لوگوں کی اجارہ داری و افادیت محض تھانے کچہری تک ہی محدود نہیں، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس ،اسلحہ لائسنس بنوانا ہو یا پٹواری سے فرد ملکیت حاصل کرنی ہو،گُلو بٹ جیسے کردار اپنی خدمات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔یہ گلو بٹ عدالتوں سے لیکر سیاسی جماعتوں اور یہاں تک کے میڈیا تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہیں۔ہر ایم این اے اور ایم پی اے نے اپنے اپنے حلقے میں گُلو بٹ پال رکھے ہیں جو مخالفین کے خلاف بھینس چوری کے مقدمات درج کراتے ہیں، ضرورت پڑنے پر جھوٹے گواہوں کا انتظام کرتے ہیں اور اگر ایم این اے کے بیٹے کی گاڑی کے نیچے آ کر کوئی بچہ مر جائے تو یہ گُلو بٹ فوراً قربانی کا بکرا بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔پولیس رپورٹ میں لکھا جاتا ہے کہ جب حادثہ ہوا تو ’’گُلو بٹ‘‘ گاڑی چلا رہا تھا۔پولیس اسے گرفتار کر کے لے جاتی ہے چند ہفتے بعد اس کی ضمانت ہو جاتی ہے جب تک مقدمہ چلتا رہتا ہے وہ سیاستدان اس کے گھر کا خرچہ اُٹھاتا ہے ،اچھے سے وکیل کا انتظام کرتا ہے اور یوں ’’گُلو بٹ‘‘ باعزت بری ہو کر واپس آ جاتا ہے۔یہ ایم این اے اور ایم پی اے سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے ہاں ’’گُلو بٹ‘‘ کے منصب پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سلسلہ چین در چین چلتا ہے۔پارلیمنٹ میں بیٹھے ’’گُلوبٹ‘‘ جن سیاسی قائدین کے آگے دُم ہلاتے ہیں وہ کسی اور کے گُن گاتے ہیں۔اس ملک میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بیشمار سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک ادارے کے لئے ’’گُلو بٹ‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ ’’گُلو بٹ‘‘ منتخب وزیراعظم کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہوئے احتجاجی تحریک چلاتے ہیں۔ کبھی دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی سیاست کے بجائے ریاست بچائو جیسے خوش کُن نعروں کے ساتھ سسٹم لپیٹنے کی سازشوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر ان کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو زبان زد عام گُلو بٹ کے ساتھ ماڈل ٹائون کچہری میں ہوا۔
اگر آپ گُلو بٹ کو کسی گلی محلے کا کردار سمجھ رہے ہیں یا پھر کوئی ملکی نوعیت کی شخصیت قرار دینے پر مصر ہیں تو براہ کرم اپنی اصلاح کر لیں ۔’’گُلو بٹ‘‘ ایک عالمی سطح کا کردار ہے۔عالمی طاقتیں بھی اپنی جارہ داری قائم رکھنے کے لئے ’’گُلو بٹ‘‘ تیار کرتی ہیں ۔کچھ ’’گُلو بٹ‘‘ تو اعلانیہ پالے پوسے جاتے ہیں جیسے عراقی وزیراعظم نوری المالکی،افغان صدر حامد کرزئی اور مصری صدر جنرل سیسی وغیرہ۔ مگر بعض ’’گلو بٹ ‘‘ ایسے ہوتے ہیں جن کا نام اور کام صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ کئی ’’گُلو بٹ‘‘ وردی اور بغیر وردی ان عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ لڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلیک واٹر یا شام میں جہاد سمجھ کر لڑنے والے جنگجو وغیرہ۔ سب کے اپنے اپنے ’’گُلو بٹ‘‘ ہیں اگر آپ کو اپنی ذہانت اور فطانت پر ناز ہے تو میں آج آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کا ’’گُلو بٹ‘‘ کون ہے؟ کون یہاں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے اور اگر پاکستان میں انقلاب آ گیا تو یہاں کس ’’گُلو بٹ‘‘ کو کرسیٔ اقتدار پر بٹھایا جائے گا؟ ویسے میں تو یہ سوچ رہا ہوں ،ہر شاخ پہ ’’گُلو‘‘ بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا؟
تازہ ترین