• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہی عجیب سوال تھا، کیا انسان کو ترقی اور تجربہ آسودگی دیتا ہے۔ نوجوانوں سے بات کرکے اور ان کی بات سن کر لطف بھی آتا ہے۔ عام حالات میں ترقی اور تجربے سے آسودگی کی نوید تو ملتی ہے مگر آسودگی نہیں۔ ہم پاکستانی بہت ہی تجربات سے گزرے ہیں۔ بنیادی جمہوریت سے لے کر حال حاضر کی مجبور جمہوریت نے عوام کی زندگی میں کوئی آسانی اور آسودگی نہ دی، مگر بہتر حالات کیلئے سوچنے کا موقع ضرور دیا۔ صرف یہ آسودگی ہے کہ ہم سوچ سکتے ہیں اور خواب بھی دیکھ سکتے ہیں اور اچھے دنوں کے خواب کتنے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں مگر موسم ہے کہ بدلتا ہی نہیں، ہریالی ضرور ہے مگر سایہ نہیں ہے۔
میرا جواب سب کو پسند نہ آیا، مگر خاموشی سے سب اختلاف رائے کرتے دکھائی دے رہے تھے، مجھے خاموشی سے کوفت ہونے لگی۔ میں ہی بولا کچھ عرصہ پہلے قومی ترانہ کے حوالہ سے کچھ حلقوں میں بحث چل رہی ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ کس نے لکھا، جگن ناتھ آزاد نے یا شاعر ملت حفیظ جالندھری نے، مجھے بہت ہی پرانی بات یاد آگئی۔ میرے سکول کے زمانہ میں ایک میرے ہم جماعت حفیظ صاحب کے نواسے تھے اس زمانہ میں شاہ نامہ اسلام، میرے لئے بہت دلچسپی کا حامل تھا، مگر میرے ہم جماعت کو شاعری سے رغبت نہ تھی اور میری سرشاری کی وجہ یہ تھی کہ حفیظ کا عزیز میرا کلاس فیلو تھا پھر چند سال کے بعد حیران کن طور پر جناب حفیظ جالندھری سے ا تفاقیہ ملاقات بھی ہوگئی۔ میں گورنمنٹ کالج کے کتب خانہ سے نکل کر پرنسپل کے دفتر کی طرف جارہا تھا کہ سامنے سے حفیظ جالندھری آتے نظر آئے ،موصوف قراقلی ٹوپی اور سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے، وہ ارد گرد سے بے نیاز تیزی سے گزر رہے تھے۔ میں نے انکو روک لیا اور اٹکتے ہوئے بولا، آپ حفیظ جالندھری ہیں نا، انکے چہرے پر ایک سایہ گزر گیا۔ میں بھی نروس تھا مگر پھر ایک شفیق مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ ان کی چمکتی آنکھوں میں شوخی سی نظر آئی۔ انہوں نے لمحہ بھر کیلئے میرا بھرپور جائزہ بھی لیا، پھر بولے ’’جوان راوین ہو‘‘ میں بھی ذرا دیر کو شانت ہوا پھر فوراً بولا، جی جی، وہ پھر بولے اور کندھے پر ہاتھ رکھا۔ شاباش دی اور تیزی سے اپنی راہ لی۔ میں حیران پریشان بے خودی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہ گیا۔
بات قومی ترانہ کے حوالہ سے ہورہی تھی ۔پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق جناب حفیظ جالندھری ہی ہیں، جگن ناتھ آزاد کی نظم کچھ عرصہ کیلئے ضرور سننے میں آتی رہی۔ پاکستان کے قومی ترانہ کے سلسلہ میں موسیقارچھاگلہ صاحب کا بڑا کردار ہے اور ان کی مرتب کردہ موسیقی اب بھی اپنی حیثیت منواتی نظر آتی ہے اور کچھ لوگوں کا اعتراض تھا کہ قومی ترانہ پر فارسی کا غلبہ ہے لیکن اعتراض فضول ہے کہ ہر زبان کے الفاظ دوسری زبانوں میں استعمال ہوتے ہیںتاہم ان سب باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں ان معاملات پر تحقیق علمی تناظر میں ضروری ہے۔ اقبال کا اہم کلام فارسی میں ہے اور ہم سب کی اس تک رسائی نہیں اور جو کلام اردو میں ہے وہی ہمارے لئے اقبال شناسی کا ذریعہ اور اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کا خیال قائد اعظم کو آیا اور یہ خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور اس کا ذکر قائد اعظم سے کیا، تو پھر قائد اعظم نے دیار فرہنگ سے واپس آنے کا فیصلہ کیا اور مسلمانوں کی تقدیر بدلنے کا سوچا۔ بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ ایک نظریہ پر قائم ہوں بس اتنی سی بات ہے۔کیا کچھ بدلنے کا وقت آگیا ہے ہم سب کچھ تو بدل نہیں سکتے مگر بدلنے کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ آج کی صورتحال میں بدلائو بہت ضروری ہے۔ اصل میں اپنے آپ کو بدلنا بہت مشکل ہے بہت سال پہلے کی بات ہے منو بھائی جو میرے محسن بھی ہیں ایک دفعہ حسن اتفاق سے منو بھائی کے ساتھ میری ملاقات جاوید شاہین سے ہوگئی میں ان کی شاعری کا مداح تھا ا ور آج بھی ہوں۔ان کی ایک نظم کیا خوب نظم تھی میرا خیال ہے کہ کم از کم بیس سال پرانی تو ہوگی ان کی کتاب ’’عشق تمام‘‘ مجھے ایک کتاب خانے سے مل گئی تو کسی اور کالم میں درج کروں گا۔
میں ایک عرصہ سے خیال سوچتا ہوں اور خواب دیکھتا ہوں پھر مجھے اس نظم کا خیال آتا ہے’’ خواب کھودینے کے لئے نہیں ہوتے‘‘
میرے پاس کھودینے کو کچھ نہیں
سوائے چند خوابوں کے
لیکن خواب کھودینے کے لئے نہیں ہوتے
میں نے زندگی کے دو حصے
خواب دیکھنے میں بسر کئے
باقی ایک حصہ
ان کی تعبیر میں گزاروں گا
آرام کے زمانہ میں اس سے بہتر کام کیا ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین