• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں آج ہر شعبہ میں مسائل ہی مسائل ہیں، کوئی ایسا شعبہ، ڈیپارٹمنٹ اور ادارہ نہیں جہاں پر رشوت عام نہیں اور میرٹ سے ہٹ کر کام نہیں ہو رہا۔ وہ دلچسپ خبر اخبارات اور میڈیا سب نے پڑھی اور دیکھی ہوگی کہ جب اکائونٹینٹ جنرل پنجاب کے عہدہ پر گریڈ 21 کے افسر غضنفر مہدی اپنی تقرری کے بعد چارج لینے گئے تو وہاں پر بطور قائم مقام کام کرنے والے گریڈ 18 کے افسر نے نہ صرف چارج چھوڑنے سے انکار کردیا بلکہ اپنے حامی بھی اکٹھے کر لئے اور خوب لڑائی جھگڑا رات آٹھ بجے تک کیا، پھر پولیس کو آنا پڑا۔ کبھی گوروں کے دور پر ایسا ہوتا تھا؟ چارج چھوڑنا اور نئے افسر کو چارج دینا یہ ملازمت کے تقاضے ہیں جسے ہر افسر کو پورے کرنے چاہئیں۔ موصوف کا یہ کہنا کہ ان کے پاس حکم امتناعی ہے، کیسی عجیب بات ہے کہ کسی بھی گریڈ کا کوئی افسر اٹھ کر عدالت میں جائے اور حکم امتناعی لے آئے اور بیس اور اکیس گریڈ کی سیٹوں پر آکر بیٹھ جائے۔ حالانکہ جو خود اس گریڈ اور سنیارٹی کے لحاظ سے اہل ہو اس کو وہاںپر بٹھایا جائے۔ ماضی میں سیکرٹری ہایئر ایجوکیشن کی سیٹ پر ایک گریڈ 18 کا افسر بیٹھا رہا۔ اس نے گریڈ 20 کے اساتذہ کو بڑا ذلیل کیا اور آج بھی اس بیوروکریٹ کے خلاف عدالتوں میں کئی کیس ہیں۔ کنٹرولر جنرل اکائونٹس نے بالکل درست فیصلہ کرتے ہوئے گریڈ 21 کے افسر غضنفر مہدی کی وہاں تقرری کی ہے۔ حیرانگی ہوتی ہے جو لوگ میرٹ کے خلاف خود تو اپنا ذاتی کام کرواتے ہیں اور پھر میرٹ کی بات کرتے ہیں، ان لوگوں سے بھلا میرٹ کی اور انصاف کی کیسے کوئی توقع کی جاسکتی ہے اور غلط کام کرنے والوں کو خود ذرا شرم نہیں آتی۔ جو افسر اس وقت گریڈ 18 کا اہل ہے اور گریڈ 21 کی اسامی پر بیٹھ جائے اور اس کے انڈر گریڈ 19، 20 اور 21 کے افسر کام کریں۔ کیسی عجیب بات ہے ۔ یہ کیسا میرٹ ہے اور یہ کیسا انصاف اور گڈ گورننس ہے کہ پاکستان کے بے شمار محکموں میں جو لوگ جن سیٹوں کے اہل نہیں وہ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسرے سیٹ بڑے گریڈ کی ہے اور خود اس سے ایک یا دو گریڈ کم کے ہیں۔ میرٹ کی ایسی سخت پالیسی بنائی جائے کہ کوئی میرٹ سے ہٹ کر کام کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
پچھلے ہفتے ایک ٹی وی چینل نے دکھایا کہ ایک خاندان کے چھ بچے ہیں اور ماں باپ دونوں گونگے اور بہرے ہیں اور ان کے یہ چھ بچے تھیلسیمیا کے مریض ہیں۔ بچوں کے اخراجات کی وجہ سے بچے تعلیم چھوڑ چکے ہیں اور گھر میں بعض اوقات فاقوں تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس خبر کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جب گھر کی ایک مریضہ بچی جو ذرا سمجھدار ہے، وہ لوگوں کو جب بھی اپنے مسائل سے آگاہ کرتی ہے تو لوگ اس کی بات پر توجہ نہیں دیتے۔
ٹی وی شوز پر بڑے بڑے اینکرپرسن جو سارا دن سیاسی بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں کبھی انہوں نے اس بارے میں سوچا کہ کیا ان سیاسی بحث مباحثوں نے ملک کو کچھ دیا؟ یہ ایک ایسی موذی بیماری ہے جس کے اخراجات پورے کرتے کرتے لوگوں کے مکان تک فروخت ہوگئے۔ اس پروگرام میں ایک ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے بیٹے کو تھیلسیمیا کا مرض ہے جس کی عمر 15 برس ہے۔ اس کا علاج کراتے کراتے مکان تک فروخت ہوگیا۔ افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہم نے کبھی ان مسائل کو اجاگر نہیں کیا۔
گزشتہ دنوں فاطمید فائونڈیشن نے تھیلسیمیا کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ مہمان خصوصی پنجاب کے وزیر تعلیم اور نئے نئے وزیر قانون رانا مشہود احمد خان تھے۔ حسب روایت رانا مشہود احمد خان تقریب میں نہ آئے۔ یہ تھیلسیمیا کے بیمار بچے ڈیڑھ گھنٹہ تک انتظار کرتے رہے۔ پھر پتہ چلا کہ وہ اسلام آباد چلے گئے ہیں ۔
اس تقریب میں ایک ایسا خاندان بھی آیا جس کی تین بچیاں تھیلسیمیا کے مرض میں مبتلا ہیں اور جس اذیت و کرب سے وہ خاندان جن کے بچے اس میں مبتلا ہیں وہی جانتے ہیں۔ ان کی زندگی کس قدر مشکل اور مصیبت میں ہے۔ بڑے میاں صاحب! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی دولت دی ہے کہ آپ اپنے وسائل رفاہی کاموں اور لوگوں کی صحت کے متعلق مشکلات کو حل کرنے میں صرف کردیں تو یقین کریں جنت آپ نے یہیں پر کمالی۔ اس ملک میں دو چار کینسر اور گردوں کے علاج کے ہسپتال بنائیں، یہ دونوں بیماریاں لوگوں کی جائیدادیں تک فروخت کرا دیتی ہیں۔
پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار بچے تھیلسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے مزید علاج گاہوں اور بلڈ سنٹرز کی اشد ضرورت ہے، ان خاندانوں کو شعور دیں جن خاندانوں میں ایک بھی کیس تھیلسیمیا کا ہے کہ وہ آپس میں شادیاں نہ کریں کیونکہ اس طرح یہ مرض مزید پھیلتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر افسوس ہوگا کہ اس مرض میں مبتلا بچے صرف چالیس پچاس برس تک زندہ رہتے ہیں جبکہ امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس بیماری میں مبتلا لوگ ستر برس تک زندگی پاسکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ امیتابھ بچن کو بھی یہ بیماری ہے۔
خادم پنجاب میاں شہباز شریف نے پچھلے دنوں اس عزم کا ارادہ کیا تھا کہ وہ تھیلسیمیا کے مرض سے بچوں کو بچانے کیلئے تمام وسائل استعمال کرینگے۔ میاں صاحب صرف آپ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پابند کریں کہ وہ پاکستان میں تھیلسیمیا کے مریض میں مبتلا بچوں کیلئے جدید ترین سنٹرز اور علاج کی سہولتیں مفت فراہم کریں۔ تھیلسیمیا کے مریض میں مبتلا ایک بچے کا ماہانہ 20ہزار روپے کا خرچ ہے۔ خدارا اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کریں۔ فاطمید فائونڈیشن اور سندس فائونڈیشن دونوں تھیلسیمیا کے بچوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں جو ایک بڑا احسن قدم ہے۔ اللہ تعالیٰ منو بھائی، یاسین خان، سندس فائونڈیشن اور فاطمید کے ڈاکٹر شاہد رانا اور ان کی ٹیم کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ یہ حضرات دن رات تھیلسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کو مفت خون کی فراہمی کر رہے ہیں۔ اس طرح تھیلسیمیا پریونشن پروگرام کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں بغیر تنخواہ کے پنجاب کے 19 اضلاع میں کام کررہی ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب کے تمام اضلاع اور پورے پاکستان میں تھیلسیمیا کے مریض بچوں کے لئے کام کیا جائے۔ صوبہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں اس مرض میں مبتلا بچوں کے حالات بہت خراب ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں 2012ء میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے شیخ اعجاز نے تھیلسمیا کے مرض میں کمی کے سلسلے میں شادی سے قبل سکریننگ کے بارے میں ایک بل پاس کردیا تھا مگر وہ تاحال قانون کی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل کو جلد از جلد قانون کی شکل دی جائے تاکہ اگر شادی سے قبل کسی دو خاندانوں میں کوئی ایسا کیس ہے تو وہ آپس میں شادی نہ کریں۔ اس بل کو قانون کی شکل دینے میں وہ معزز ممبران اسمبلی رکاوٹ ڈال رہے ہیں جو روایتی وڈیرے ہیں، جو صرف خاندانوں کے اندر شادی کرتے ہیں تاکہ زمین اور جائیداد خاندان میں رہے۔ میاں صاحب اس بل کو قانون کی شکل دیدیں تاکہ نکاح سے قبل دونوں خاندان خون کا ٹیسٹ کرا کر اس کی رپورٹ ساتھ منسلک کریں۔
تازہ ترین