• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ انسانی گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں مذہبی شخصیات، فلاسفر، سائنسدانوں اور اہل قلم ودانش نے مختلف امور پر نت نئے نظریات وخیالات پیش کئے۔ ان افکار و خیالات سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں اور اس قدر مواد موجود ہے کہ بسااوقات بعض افراد کے ذہن میں یہ خیال بھی جنم لینے لگتاہے کہ شایدانسان نے زندگی کے ہرشعبے سے متعلق ہرسوال کافکری اورنظریاتی جواب تلاش کرلیاہے تاہم یہی انسان کی بھول ہے۔جہاں انسان کے ذہن میں یہ خیال جنم لینے لگتاہے کہ وہ علم کی تکمیل کرچکاہے وہیں سے وہ راستہ بھٹک کر منزل سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اور بھول بھلیوں کی وادیوں میں کھو جاتا ہے کیونکہ علم لامحدود ہے…علم کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔ انسان نہیں سوچتاکہ اس وقت وہ جس نتیجے پر پہنچاہے اس کے پیش نظر اسے سوچ بچار کا عمل سرے سے ترک کر دینا چاہئے یا اپنی اصلاح کر کے یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ علم کی تکمیل آخری سانس تک نہیں ہو پاتی۔
ایک جانب علم ہے جو لامحدود ہے جبکہ دوسری جانب انسانی طاقت ہے جس کی واضح طور پر ایک حد ہے۔ لامحدود طاقت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو انسان فیصلے کرتے وقت عقل ودانش، بشری کمزوری اور تاریخ انسانی کو نظر انداز کر کے طاقت یاکسی بھی زعم میں فیصلے کرتے ہیں وہ اپنی دانست میں ان فیصلوں کودرست سمجھتے ہیں اوریہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج آگے چل کرکیا ہوں گے۔جب امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے مشترکہ طور پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں ) (WMD یعنی (Weapons of Mass Destruction) تلاش کرنے کی آڑ میں عراق پر یلغار کرنے کافیصلہ کیاحالانکہ WMD تلاش کرنے والی پوری دنیاکی ٹیمیں اپنے اپنے ممالک اوربین الاقوامی تھنک ٹینکس کو یہ رپورٹ دے چکی تھیں کہ انہوں نے عراق کا چپہ چپہ چھان مارا ہے لیکن انہیں کوئی وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار سرے سے نظر ہی نہیں آئے، اس کے باوجود امریکہ اور اس کے حلیفوں نے جب عراق پر یلغار کا فیصلہ کر ہی لیا تو اس پر میں سوچ بچار میں مبتلا رہنے لگاحتیٰ کہ اس کیفیت میں کچھ دن تحریک کے روزمرہ کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو علیحدہ کر کے گھر میں بیٹھ کر اسی بات پر غور وفکر کرتا رہا کہ یہ کیا ہونے جارہا ہے؟…کیوں ہورہاہے؟… اور جو ہورہا ہے اس کا انجام کار کیا ہوگا ؟پھرمیں ہمت کر کے آفس آیا اور انہی موضوعات پر لیکچر اور بحث ومباحثے شروع کر دیئے۔اس دوران میرے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا ’’اگر امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو یہ تاریخ میں کی جانے والی بڑی غلطیوں میں سے ایک بہت بڑی غلطی ہوگی‘‘۔ کیونکہ سوویت یونین اور امریکہ کی سردجنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا اور فطرت انسانی کے تحت بے پناہ طاقت، انسان کی مثبت سوچ کی صلاحیت کومفلوج کردیتی ہے اوراسے ایک خیالاتی دنیامیں لے جاتی ہے جس کاحقیقت کی دنیا اور اس کی سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
Absolute power paralyses positive thinking power and leads a person into illusion, illusionary way of thinking and even some time a person comes under hallucinatory condition.
جہاں تک ہماری معلومات اور کامل یقین اور علم کا تعلق ہے تو تمام تر طاقتوں کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے اور اسی ذات کو ہم قادر مطلق absolute power) (مانتے ہیں ۔سپرپاور تو دو یا دوسے زائد ہوسکتی ہیں لیکن میری نظر میں قادرمطلق(absolute power) ایک سے زائد نہیں ہوسکتی ۔میں تحریک کی بنیاد رکھنے کے بعد ابتداء ہی سے مختلف موضوعات پر فکری نشستیں کیا کرتا تھا ۔میں نے سوویت یونین اورامریکہ کی سردجنگ کے دوران خوب اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ اس کا اختتام جنگ پر ہوگا اور اس کے اثرات صرف خطے ہی پرمرتب نہیں ہوں گے بلکہ خطے کے اردگرد کے علاقے اورپوری دنیا بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ آج میرے تجزیات اور خدشات درست ثابت ہورہے ہیں۔
اسی طرح جب میں نے عراق اور امریکہ کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا جائزہ لیا تو غوروفکر کے بعد تواتر کے ساتھ انٹرنیشنل سیکریٹریٹ لندن میں ان گنت لیکچرز دیئے جن میں، میں نے کھل کر کہا کہ کوئی جواز ملے یا نہ ملے، کوئی ثبوت ملے یا نہ ملے ، امریکہ اوراس کے حلیفوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ عراق پر حملہ کرنا ہے اور صرف حملہ ہی نہیں کرنا بلکہ عراق کی اہم تنصیبات سے لیکر پورے عراق پر قبضہ بھی کرنا ہے۔ ایک ارب سے زائد افراد پر مشتمل ملت اسلامیہ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے چوٹی کے مفتیان کرام یہ مناظر دیکھ کر اس عمل کو یعنی امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ناجائز عمل کو دیکھ کرکچھ نہیں کریں گے۔ عرب لیگ اور ’’او آئی سی‘‘ یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز حسب روایت دو چار اجلاسوں کے اسٹیج ڈرامے کرکے خانہ پری کرے گی،سو اس نے ایسا ہی کیا۔
میری فکری نشستوں میں شرکت کرنے والے ساتھیوں کو یاد ہوگا یا ان کے پاس تحریری طور پر رقم ہوگا کہ میں نے یہ بھی نشاندہی کی تھی کہ یہ جنگ دھیر ے دھیرے تمام مسلم ممالک میں پھیلے گی اور وہاں کی حکومتوں کا تختہ الٹا جائے گا جو خاکم بدہن تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ریکارڈ پر میرے بیانات موجود ہیں۔ اس وقت میرا مذاق اڑانے والوں نے میرا بہت مذاق اڑایا لیکن میں نے ان پر توجہ دینے کے بجائے اپنے کام پر توجہ جاری رکھی۔ آج عراق ،شام ،مصر، لیبیا ، تیونس ،فلسطین، لبنان، اردن، صومالیہ، نائیجیریا، افغانستان اور یمن میں جو صورت حال ہے اور وہاں جس طرح خانہ جنگی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے اور اس میں ہمارے لئے بہت سا سبق موجود ہے۔ ان ممالک کی صورت حال نے میرے خدشات کودرست ثابت کیا اور آج مجھے یہ جان کرخوشی ہوئی کہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے عراق میں امریکہ کی جنگ کی غلطی کو ببانگ دہل یہ کہہ کر تسلیم کر لیا کہ ’’عراق جنگ امریکہ کی سنگین غلطی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں‘‘۔
پوری دنیا پر اپناتسلط قائم کرنے کی سوچ کے نتیجے میں اب تک لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں،لاکھوں دربدر اور تباہ و برباد ہیں، جگہ جگہ انسانی المیے جنم لے رہے ہیں، دنیا کا اربوں کھربوں کانقصان ہوچکاہے لیکن بدقسمتی سے اس تباہی وبربادی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیاگیا اورآج بھی دنیاپر اپناتسلط قائم رکھنے کے لئے جوکچھ کیاجارہاہے اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
اسی طرح جب میں نے پاکستان کے عوام خصوصاً کراچی کے باسیوں کے سامنے ان خدشات کااظہارکیاتھا، ایک بار نہیں بلکہ ہزار بار کیا تھاکہ آپ سب لوگ ہوش میں آجائیں ورنہ طالبان پورے پاکستان اور کراچی پرقبضہ کرلیں گے تو اس وقت بھی مذاق اڑانے والوں نے اپنی اپنی بیٹھکوں میں میرامذاق اڑایا اور شام کو رچنے بسنے والی محفلوں میں میرامذاق اڑایا ۔ میں ان سب باتوں کو سنتا رہا اورطیش اورغصہ میں آنے کے بجائے اپنے پیش کئے ہوئے تجزیوں پر قائم رہا آج وہی لوگ جو میری ان باتوں کامذاق اڑایا کرتے تھے وہ آج میرے ساتھیوں اورمجھ سے پوچھتے ہیں کہ الطاف بھائی اب تو یہ زہرپھیل چکاہے، اب اس سے بچا کیسے جائے؟
دوسری طرف ایک طبقہ طالبان کا حامی وناصر تھا جس نے اپنی جانیں بچانے کیلئے طالبان کی سرکوبی کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا اور طالبان کو پورے ملک میں پھیلنے، زیادہ سے زیادہ طاقت جمع کرنے، منظم کرنے اورتربیت حاصل کرنے کاموقع فراہم کیاتو اس کا انجام بھی پاکستان کے بچے بچے نے دیکھ لیا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے سلامتی کے ادارے جہاں پرندہ بھی پرنہیں مارسکتا وہاں طالبان یلغار کرنے میں کامیاب رہے،ملک کا معاشی طور پر اربوں کھربوں کانقصان ہوا، ہزاروں جانوں کازیاں ہوا، ہزارہا پاکستانی زخمی ہوئے، لاچار ہوئے، معذور ہوئے، در بدر ہوئے۔ بالآخر اب مسلح افواج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ شروع کیا ہے، اللہ اسے کامیاب کرے۔ کاش آج سے دس سال قبل نہ سہی تو آٹھ سال قبل ہی سہی،چھ سال قبل ہی سہی یاکم از کم پانچ سال قبل ہی سہی میری باتوں پر عمل کر لیا جاتا تو اتنے برسوں میں ملک کا جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے شاید وہ نہ ہوتا۔ بہرحال دیرآیددرست آید…اب اس وقت مسلح افواج جذبہ ایمانی کے تحت بہادر جرنیلوں کی قیادت میں طالبان دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہیں تو ایک ایک سچے پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ فوج کی مخالفت کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر فوج کا ساتھ دے، پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، انشاء اللہ، اب طالبان سے بھی پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاک کرایا جاسکتا ہے۔ یہی وقت ہے ،جوکچھ کرناہے ہمیں ابھی کرناہے ورنہ دیرکردی تو خاکم بدہن پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
تازہ ترین