• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جولائی کا مہینہ کیلنڈر پر بس محض ایک تاریخ نہیں بلکہ تاریخ کے انسانی خون میں لتھڑے ہوئے اوراق ہیں۔ جی ہاں اسی ماہ کی پانچ تاریخ کو ہوا تھا ’’عزیز ہموطنو السلام علیکم‘‘ لاکھ ہم کہتے رہیں کہ ملک میں مارشل لا کا راستہ روک دیا گیا ہے لیکن اس کا دھڑکا آج بھی لگا رہتا ہے۔ بھاری بوٹوں کی دھمک کسی نہ کسی طرح کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی شکل وہ نہ ہو جو پانچ جولائی انیس سو ستتر کو ضیاء الحق جیسے تب کے ایشیا کے ماڈل ڈکٹیٹر نے اس ملک پر نافذ کیا تھا لیکن کسی بھی صورت میں تو دور پرآشوب آتا رہا ہے ۔ پانچ جولائی انیس سو ستتر کے بعد بھی تو کئی بار آئین کی بنیادی شقیں روندی گئی ہیں، وزیر اعظم ہائوس کی دیواریں پھلانگی گئی ہيں، پارلیمان کو لتاڑا جا چکا ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں۔ ریڈیو ٹی وی (چہ جائیکہ سرکاری ) کے ہیڈکوارٹر بزور بندوق کنٹرول کر لئے گئے ہیں اور پھر ہوا ہے عزیز ہموطنو السلام علیکم۔ پچھلی دفعہ تو ڈکٹیٹر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے روپ میں نہیں چیف ایگزیکٹو کا بہروپ اختیار کر کے آیا تھا۔ گویا ملک ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی یا کارپوریشن ہو اور آپ جناب سرکار سید پرویزمشرف اس کے سی ای او۔
لیکن ہم جو بات کر رہے ہیں وہ پانچ جولائی انیس سو ستتر کو آنے والی آمریت کی کر رہے ہیں جو آج تک اس کے چیف سرغنہ جنرل محمد ضیاء الحق کے ہیولے کے ساتھ آج بھی پاکستانیوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ ایک عفریتی دور،ایک دور پرآشوب ۔ جب میدانوں میں، بقول سندھی لکھاری منیر احمد مانک ٹکٹکیاں سجائی گئيں اور ڈاکٹر ہر پانچ کوڑوں کے بعد نبض دیکھ کر کہتا کہ گو اہیڈ۔ جب ہاتھ اور پائوں کاٹے گئے، محمد ضیاء الحق امیر المومنین قوم کو پھر سے مسلمان اور پاکستانی بنانے کو نازل ہوا۔ جیسے احمد فراز نے تب ہی کہا تھا:
دیکھنے والوں نے دیکھا ہے
اک شب جب شب خون پڑا
گلیوں میں بارود کی بو تھی
کلیوں پر سب خون پڑا
رکھوالوں کی نیت بدلی
گھر کے مالک بن بیٹھے
جو غاصب محسن کش تھے
صوفی سالک بن بیٹھے
لیکن کیا آپ نے تب اس بظاہر سادہ لوحی کی ایکٹنگ کرنے والے جنرل ضیاء کو ٹی وی پر قوم کو خطاب کرنے کے دوران دیکھا تھا جب ملک پر مارشل لا نافذ کرنے کے بعد ملکی ٹیلیویژن پر لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کو نمودار ہوا تو آپ کو یاد ہوگا کہ تقریر کے مسودے کے اوراق وہ ایک انگلی سے اپنی لمبی مونچھوں کے نیچے ہونٹوں پر تھوک لگا کر پلٹتا تھا۔ بھٹو جیسا خود کو نپولین سمجھنے والا ذہین و فطین سیاستدان لیکن بنیادی طور پر ایک سندھی فیوڈل بھی اس کے اس کیموفلاج سے مار کھا گیا۔ وہ کہ جو بھٹو کے پیچھے بیس قدموں کے فاصلے پر چلتا تھا اور جلتی سگریٹ اپنے کوٹ کی جیب میں مارے بدحواسی بجھا دیتا تھا (کہ چین اسموکر ضیاء نے کہتے ہیں تمباکو نوشی بھٹو کی پھانسی والی رات کے بعد چھوڑ دی) وہ اصل کردار میں بقول شخصے انڈین فلموں کے ایسا ولن جیسا تھا جو کہ کسی مظلوم لڑکی کو ٹرین کی پٹڑیوں پر باندھ کر پھینک دیتا ہے اور پھر ٹرین گزرنے کا انتظار کرتا ہے قہقہے لگاتے ہوئے۔ وہ جنرل ضیاء جو ایک ہاتھ سے مصلیٰ بچھانے اور دوسرے سے مقتل سجانے کا آرٹ خوب جانتا تھا۔ ایک سرکس کے رنگ ماسٹر جیسا جنرل۔ بھٹو نے ضیاء کی سربراہی میں پاکستان پر آنے والے ایسے دور کو درست طور پر بونا پارٹ ازم سے تعبیر کیا تھا۔
’’بھٹو ایک عظیم مدبر ہیں، عظیم سیاستدان ہیں، تاریخ کا عظیم شعور رکھتے ہیں ، بڑے لیڈر ہیں ۔ میں ان کا بڑا معترف ہوں‘‘ یہ تھے ضیاء کے بھٹو کیلئے الفاظ جو انہوں نے اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کوئٹہ میں پریس سے کہے تھے۔ مری میں جب بھٹو کے آمنے سامنے ہوا تو وہ ایک اور ضیاء تھا۔ پاکستان میں بھٹو کے کئی سادہ لوح مداحوں نے سمجھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جو بھٹو صاحب نے پی این اے کو زیر کرنے کے لئے خود کرایا ہے،کچھ دنوں کی تو بات ہے۔
ان کچھ دنوں کو آنےوالے ضیاء الحق نے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا اقتدار آنےوالی منتخب سول حکومت کو دینے کا وعدہ کیا جو خانہ کعبہ میں اس کی قسموں کے باوجود جھوٹا اور بارہ سال پر محیط نکلا۔
اس دوران نہ فقط بھٹو کا سر دار پر کھینچا گیا بلکہ ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ کئی ہزار ضیاء الحق کے خلاف پرامن یا جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں اور کئی ہزار لڑائو اور راج کرو پالیسی کے تحت۔ ضیاء دور کا قوم کو تحفہ فرقہ وارانہ تشدد کا عفریت بھی ہے جو آج بھی ملک میں آدم بو آدم بو کرتا پھر رہا ہے۔ لسانی تشدد اور فسادات ضیاء دور کی ایک اور دین ہے۔ فرقہ وارانہ اور لسانی تنظیموں کے کٹ آئوٹ نما لیڈروں کو ضیاء الحق کی آمریت میں پروان چڑھایا گیا، باقی سب تاریخ ہے لیکن ضیاء الحق نے بظاہر اپنے ساتھ آغا مرتضیٰ پویا بھی ملا لئے تو اپنی کابینہ اور شوریٰ میں مصطفیٰ گوکل جیسے جہاز راں اور علامہ نصیر الاجتہادی جیسے شیعہ عالم بھی تو ارباب نیاز جیسے روالپنڈی سازش کیس کے سابق اسیر بھی تو بیگم عطیہ عنایت اللہ جیسی لبرل خاتون بھی ، تو اے کے بروہی کو بھی کام سے لگایا ہوا تھا۔ مشہور ہے کہ خوشونت سنگھ کو وولپرٹ کی جناح صاحب کی غیر سنسرشدہ سوانح عمری تحفے میں دی تو اسکاچ وہسکی کی بوتلیں بھی انہوں نے یا خوشونت سنگھ کو تحفہ کی یا علن فقیر جیسے مست ملنگ فنکار کو۔ ضیاء الحق کے آرمی ہائوس میں رات کے کھانے کی میز پر بقول ایک امریکی صحافی سوڈان کے صدر حسن بھی مدعو ہوتے تھے تو اسامہ بن لادن بھی۔جنرل ضیاء مغل فرمانروا مطلق العنان اورنگ زیب عالمگیر کا بیسویں صدی کا مارکہ تھے ضیاء الحق معمر قوم پرست سندھی رہنما جی ایم سید کی مزاج پرسی کو ان کو دیکھنے اسپتال بھی گئے تو اردو بولنے والوں کو بھی پاکستان میں پانچویں صوبے کا عندیہ دیا (یاد رہے ان کا کراچی اوشنیو گرافک سوسائٹی کے سالانہ ڈنر کے موقع پر خطاب)۔ پاکستان میں اے کے فارٹی سیون آٹومیٹک رائفل یا کلاشنکوف کا موجد روسی فوج کا سارجنٹ کلاشنکوف شاید ہی کسی کو یاد ہے جتنا اس کلچـر کا متعارف کرانے والا ضیاء الحق۔ افغانستان میں مقدس جہاد کی سرپرستی میں تو ہیروئن کی اسمگلنگ اور تیاری کو بھی کچھ لوگوں نےجائز تصور کیا اور یہ ارب ہا ڈالر کا بزنس ہوا۔ ہیروئن کے فیکٹری دار، اسمگلر اسمبلیوں میں پہنچے اور اس کے پینے والے قبرستانوں میں۔ شریفوں سے لیکر زرداریوں تک سب بھٹو دشمنی میں ضیاء کے حمایتی بنے ہوئے تھے۔ سندھ کے لوگوں سمیت بھٹو کے پاکستان میں جیالوں نے آج تک ضیاء الحق کو معاف نہیں کیا۔لیکن فوجی آمر کی دادو آمد پر احتجاج کے موقع پر تو وہ اپنے زیر جاموں سے بھی آزاد ہو گئے تھے۔
سندھ کے لوگ تاریخ میں شاید ہی کسی حکمران وقت کے خلاف جارح رہے ہوں لیکن وہ فوجی آمر ضیاء الحق اور اس کی آمریت کے خلاف بڑی بے جگری سے لڑے تھے کہ سندھ کی جیلوں اور پھانسی گھاٹوں پرمیلے لگے ہوئے تھے۔ یہی حال انیس بیس کے فرق سے پنجاب اوردوسرے صوبوں کا بھی ضرور تھا لیکن ضیاء الحق نے ایک طرح کی حیاتیاتی سنسرشپ لگائی ہوئی تھی۔ صوبائی منافرت کو زبردست ہوا دے رکھی تھی۔ صوبوں کو کچلا اس کے دور میں گيا۔ سندھ میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران گائوں کے گائوں ملیا میٹ کردینا اور ٹھوڑی ریلوے پھاٹک پر نوجوانوں کو مشین گنوں سے بھون ڈالنا، نذیر عباسی کا دوران فوجی تحویل میں بریگيڈیئر امتیاز کی زیر نگرانی تشدد سے قتل، بلوچستان میں بی ایس او کے حمید بلوچ کو پھانسی، قبآئلی علاقوں میں ولی خان کوکی خیل اور اس کے قبیلے کے خلاف آپریشن ضیاء کے تاریک دور کی یادگار ہیں۔ سندھ کے شہروں میں لسانی دہشت گرد اور خواتین اور اقلیتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین اور مظالم ان کے دور میں ہوئے۔ یہاں تک کہ اندھی خاتون کو بھی کوڑے مارے گئے۔جب پی این اے اور بھٹو حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان حیدرآباد سازش کیس ٹربیونل توڑنے اور بلوچستان
سے فوجیں واپس بلانے کی بات آئی تو فوج کا اس وقت کا سربراہ جنرل ضیاءالحق اعتراض لیکر آیا لیکن خود بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد نیپ کے پختون لیڈروں اور بلوچ رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کرنے حیدرآباد جیل پہنچ گيا تھا اور اس سے قبل حیدرآباد سازش ٹربیونل غیرمشروط طور پر توڑنے کا اعلان بھی کیا۔ضیاء الحق کا دور پر آشوب ختم ہوا لیکن ضیاء باقیات ہر گز نہیں۔ ہم نے سمجھا کہ مارشل لاختم ہوگیا۔
تازہ ترین